میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دہشت گردوں سے 100 سال تک لڑنے کا عزم چہ معنی دارد؟

دہشت گردوں سے 100 سال تک لڑنے کا عزم چہ معنی دارد؟

جرات ڈیسک
جمعرات, ۲۱ دسمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

اخباری اطلاعات کے مطابق نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے گزشتہ روز دہشت گردی کا شکار ہوکر شہید ہونے والوں کے لواحقین سے ملاقات کے دوران ملک میں دہشت گرد گروپوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیں، انھوں نے اس موقع پر یہ بھی واضح کیا کہ ریاست ان کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گی۔ نگراں وزیر اعظم سے وزارت داخلہ میں ملاقات کرنے والوں میں عوامی نیشنل پارٹی کے میاں افتخار اور ثمر بلور بھی شامل تھیں۔ انوارالحق کاکڑ نے شہدا کے لواحقین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک و قوم کے لیے قربانیاں دینے والے شہدا کو پوری قوم خراج عقیدت پیش کرتی ہے، حکومت کے پاس کوئی تمغہ کوئی ریوارڈ ایسا نہیں ہے جو شہدا کے لواحقین کے غم کا مداوا کر سکے، شہید کا اجر اللہ تعالیٰ ہی دے سکتا ہے، پوری قوم ہمیشہ شہدا کی قربانیوں کی مقروض رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس، سیاستدانوں، صحافیوں، سول سوسائٹی، طلبہ، افواج پاکستان سمیت معاشرے کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں نے ملک و قوم کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ نگراں وزیراعظم نے کہا کہ طاقت کے استعمال کا حق صرف ریاست کو حاصل ہے، زبان، رنگ، نسل، عقیدے سمیت کسی بھی بنیاد پر کسی بھی گروہ یا فرد کو پرتشدد کارروائیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اگر کوئی گروہ تائب ہو کر رجوع کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے وہ شہدا کے لواحقین سے معافی مانگے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیں، اگر وہ مکمل طور پر اپنی غلطی قبول اور غیر مشروط سرنڈر کریں تو ریاست فیصلہ کر سکتی ہے، اگر ایسا نہیں تو ہم100 سال تک بھی لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ ریاست اپنے عوام کو ہر صورت تحفظ فراہم کرے گی اور اس کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔
حالیہ ہفتوں میں ملک خصوصاً خیبر پختونخوا میں دہشت گردی واقعات میں ایک بارپھر اضافہ باعث تشویش امر ہے۔ ان حملوں کی ذمہ داری تحریک جہاد پاکستان نامی تنظیم نے قبول کی ہے،مگر اس کے ڈانڈے افغانستان کے اندر جاکرملتے دکھائی دیتے ہیں،اور افغانستان سے دہشت گرد عناصرکو دستیاب سہولتیں خیبر پختونخوا اور بالخصوص جنوبی اضلاع میں دہشت گردی میں ا ضافہ کی بنیادی وجہ ہے،درابن میں حملے کے حوالے سے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق منگل کی صبح 6 دہشت گردوں نے درابن میں سکیورٹی فورسزکی چوکی پرحملہ کیا اور بارود سے بھری گاڑی کوچوکی سے ٹکرادیا، دہشت گردوں کے حملے میں 23 فوجی جوان شہید ہوئے جبکہ سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے تمام 6 دہشت گرد ہلاک ہو گئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سیکورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی چوکی میں داخل ہونے کی کوشش کوناکام بنا دیا۔ ناکامی پردہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی چوکی سے ٹکرا دی خود کش حملہ بھی کیا گیا، دھماکوں کے نتیجے میں عمارت گرگئی۔دوسری جانب ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں بھی سیکورٹی فورسز کی کارروائی میں مزید 4 دہشت گرد لقمہ اجل بن گئے۔ درازندہ میں خفیہ معلومات پرآپریشن کے دوران دہشت گردوں کا ٹھکانہ تباہ کیا گیا جبکہ آپریشن کے دوران سیکورٹی فورسز نے 17دہشت گردوں کو ہلاک کیا،دہشت گرد سیکورٹی فورسز اور عوام پرحملوں میں ملوث تھے۔ پاکستان نے ڈیرہ اسماعیل خان میں سیکورٹی فورسز کی پوسٹ پردہشت گرد حملے پر افغان ناظم الامور کو طلب کرکے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی اور تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کوپکڑ کر حکومت پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔دفترخارجہ سے جاری بیان کے مطابق سیکریٹری خارجہ نے ڈیرہ اسماعیل خان میں سیکورٹی فورسز کی پوسٹ پر مہلک دہشت گردانہ حملے کے تناظر میں افغان عبوری حکومت کے ناظم الامور کوطلب کرکے پاکستان کی جانب سے ڈیمارش جاری کردیا، اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ ایک دہشت گرد گروپ تحریک جہاد پاکستان نے قبول کی ہے،افغان ناظم الامور سے کہا گیا کہ وہ فوری طور پر افغان عبوری حکومت کوآگاہ کریں اور حالیہ حملے کے مرتکب افراد کے خلاف تحقیقات کرکے سخت کارروائی کی جائے،افغان حکومت سے مطالبہ کیاگیا کہ وہ دہشت گردی کے اس واقعے کی عوامی سطح پرمذمت کرے اور تمام دہشت گردوں،ان کی قیادت اور ان کی پناہ گاہوں کے خلاف فوری طور پر کارروائیاں کی جائیں، سیکریٹری خارجہ نے مطالبہ کیا کہ افغان حکومت حملے کے مرتکب افراد اورافغانستان میں ٹی ٹی پی کی قیادت کو پکڑ کرحکومت پاکستان کے حوالے کرے اور پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین کے مسلسل استعمال کو روکنے کیلئے تمام ضروری ا قدامات کرے، جہاں تک افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی کے مذکورہ گروپ تحریک جہاد پاکستان کی جانب سے بطور لانچنگ پیڈ استعمال کرنے کا تعلق ہے تواس حوالے سے نہ صرف پاکستان کے جید علمائے کرام اور مفتیان کی ایک غالب اکثریت نے پاکستان کے اندرکسی بھی گروپ کی جانب سے جہاد کے نام پر ہونے والی سرگرمیوں کوخلاف اسلام اور جہاد کے عمومی معنی، مفاہم اور مقاصد کے منافی قرار دیتے ہوئے پاکستان میں ان گروپوں کی جانب سے تمام ایسے اقدامات کے جہاد سے تشبیہ قرار دینے کواسلام کی روح کے خلاف قرار دے رکھا ہے اور جہاد کے نام پرسرگرمیاں کرنے والوں کو ”خارجی“ قرار دے رکھا ہے، اس لیے اس فیصلے کی رو سے محولہ تنظیم کا نام ”تحریک جہاد پاکستان“ ہی غلط ہے‘ دوسرے یہ کہ خود افغانستان کی نگران حکومت نے بھی افغانستان کی سرزمین کوپاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کیلئے استعمال کرنے کی ممانعت کر رکھی ہے، اس لیے جو لوگ خودافغان حکومت کے ذمہ داروں کے بیانات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے وہاں سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کرنے سے باز نہیں آتے ان کو گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کرنے کامطالبہ بالکل درست ہے کیونکہ یہ عناصر پاکستان اور افغانستان کے باہمی برادرانہ تعلقات اور ہمسائیگی کے تقاضوں کی صریح خلاف ورزی کرکے دونوں برادر ملکوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراکرنے کی کوششیں کر رہے ہیں،اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ افغانستان کی نگران انتظامیہ ان دہشت گردوں کو فوری طورپرگرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کردیں تاکہ انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ضروری اقدام اٹھائے جا سکیں، یہاں پراہم نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر ان دہشت گردوں کے تمام سہولت کاروں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا جائے کیونکہ جس تیزی سے ان کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں اگر ان پر مضبوط ہاتھ نہ ڈالا گیا توآنے والے انتخابات کے دوران نہ صرف تخریب کاری بڑھ سکتی ہے بلکہ مخصوص سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف ان کے ممکنہ حملوں سے مشکل صورتحال پیش آسکتی ہے، امید ہے کہ سیکورٹی ادارے ان عناصر کے خلاف سخت سے سخت اقدام کرکے ان کے مذموم مقاصد کوناکام بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے۔
دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے حوالے سے نگراں وزیر اعظم کا بیان کوئی ایسا بیان نہیں جس پر خوش اور مطمئن ہوا جا سکے۔ اس قسم کے
بیانات جاری کرنا اب ایسی معمول کی باتیں ہو چکی ہیں کہ وہ اپنا اثر کھو چکی ہیں۔ جب مقابلے ایک طویل عرصے سے جاری ہوں اور حکومتیں کسی بھی قسم کی ایسی موثر کارروائی میں ناکام ہوں جو دہشت پھیلانے والوں کے دلوں کو دہلانے کا باعث بن سکیں تو پھر ان سب بیانات کی حیثیت طفل تسلیوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھا کرتیں۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق دہشت گردوں کے تابڑ توڑ حملوں کے نتیجے میں 25 جوانوں کی شہادت کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ تشویشناک بات ہے کہ خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر اگر افواجِ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف پوری تیاری کے ساتھ جانے کے باوجود اتنی بھاری تعداد میں حزیمت اٹھائیں تو اس میں 2ہی باتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ اطلاعات کے مطابق تیاری سے کارروائی کے لیے جانا نہیں ہوا یا جن ذریعوں نے افواجِ پاکستان کو دہشت گردوں کے ٹھکانوں سے آگاہی دی ان ذریعوں میں کچھ ایسے افراد بھی شامل ہوں گے جنہوں نے دہشت گردوں کو بھی عسکری تیاریوں سے آگاہ کر دیا ہوگا جس کی وجہ سے عسکری قوتیں ویسی موثر کارروائیاں نہ کر سکیں جیسی ہونی چاہئیں تھیں۔
ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ جو گروہ ایسی کارروائیوں میں مصروف ہیں وہ کسی بھی دشمن ملک سے تربیت اور اسلحہ لے رہے ہیں اور اپنے موقف پر اس بری طرح ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ آخری دم تک اپنی کسی ہٹ کو منوانے کا عزم رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے گروہوں سے مذاکرات کیے ہی نہیں جا سکتے اسی لیے اس کا حل اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ان کا بزورِ شمشیر قلع قمع کر دیا جائے۔ تاہم وزیر اعظم کی یہ بات بہت ہی ناقابل ِ فہم ہے کہ اگر دہشت گردوں نے ہتھیار نہیں ڈالے تو وہ ان سے 100سال تک بھی لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ کیا ایسا بیان مٹھی بھر ملک دشمنوں کے خلاف عجیب سے احساس کو جنم نہیں دیتا۔ ایک ایسا ملک جس کی افواج پوری دنیا کی چند بہترین افواج میں شامل ہیں، اس ملک کا وزیر اعظم اپنے آپ کو دہشت گردوں کے سامنے اتنا بے بس سمجھتا ہے کہ وہ ریاست سے 100سال تک لڑسکتے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ وہ ایسے عناصر کو ایک ڈیڈ لائن دیتے ہوئے خبردار کرتے کہ اگر انہوں نے غیر مشروط ہتھیار نہیں ڈالے تو وہ سب کے سب نشانِ عبرت بنا دیے جائیں گے۔ بے شک شہدا کے لواحقین کے لیے دنیا کا بڑے سے بڑا ایوارڈ بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ شہید کا اجر اللہ ہی کے پاس ہے، اس لیے لواحقین سے صبر کی اپیل ہی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ شہدا کی قربانیاں قبول کرے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سرحدوں کی نگرانی کو مزید موثر بنایا جائے۔ یہ تو ممکن ہے کہ ہمارے اندر سے ہزاروں دہشت گرد مل جائیں لیکن یہ بات کسی طور ممکن نہیں کہ ہمارے اسلحہ بنانے والے ادارے اور کارخانے ان کو ہتھیار فراہم کرتے ہوں۔ اس قسم کے جنگی ہتھیاروں کی فراہمی باہر کے ملکوں کی امداد کے بغیر ممکن نہیں۔ باوجود اس کے کہ دشمن ممالک کا کام ہی پاکستان کے امن و امان میں خلل ڈالنے کے سوا اور کچھ نہیں لیکن ہمارا کام سرحد کے اس پار سے ہونے والی ہر آمد و رفت پر گہری نظر رکھنا بہت ضروری اور فرض ہے جس میں یقینا کہیں نہ کہیں غفلت ضرور ہو رہی ہے۔ اگر ہم اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور سرحدوں کی ہر آمد و رفت پر کڑی نظر رکھیں تو امید کی جا سکتی ہے۔ اس قسم کی تمام دہشت گردانہ کارروائیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا نگراں وزیر اعظم پر لازم ہے کہ وہ حکومتی سربراہ ہونے کے ناتے ہر وہ منصوبہ بندی کریں گے جو ایسی مذموم کارروائیوں پر دسترس حاصل کرکے اس ملک کی اندرونی اور بیرونی حفاظت کو مزید یقینی بنانے میں ممد اور معاون ثابت ہو سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں