آئینی ترمیم عدلیہ اور عوام کے مفاد میں نہیں!
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے 26 آئینی ترمیم کی منظوری دیدی، حکومت دونوں ایوانوں میں دوتہائی اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ابتدائی دو شقوں کی شق وار منظوری کے دوران اپوزیشن کے 12 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا تاہم بعد میں اپوزیشن ارکان بائیکاٹ کرکے ایوان سے باہر چلے گئے۔ایوان میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے حکومت کو 224 ووٹ درکار تھے تاہم ترمیم پر شق وار منظوری کے دوران 225 ارکان نے ترمیم کے حق میں ووٹ کیا۔
26ویں آئینی ترمیم سے متعلق پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کے سربراہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ نے دعویٰ کیا ہے کہ خصوصی کمیٹی نے جمعہ کی دوپہر ہونے والے اجلاس میں فائنل مجوزہ مسودہ متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ رواں ہفتے کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور حکمراں جماعت کی جانب سے 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق اپنے اپنے مجوزہ مسودے عوامی سطح پر شیئر کیے۔ابتداً حکمراں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی آئین میں مجوزہ ترامیم کے ذریعے ایک نئی آئینی عدالت کے قیام کی خواہاں تھی تاہم جمعیت علمائے اسلام ف نئی آئینی عدالت کے قیام بجائے آئینی بینچ کے قیام پر زور دے رہی تھی۔ پاکستان تحریک انصاف بھی نئی عدالت کے قیام کے حق میں نہیں تھی۔محترم حافظ نعیم الرحمن ،امیر جماعت اسلامی پاکستان کا کہنا ہے کہ مجوزہ آئینی ترمیم پر جے یو آئی اور پی ٹی آئی حکومت سے بات کیوں کررہے ہیں؟ دونوں سیاسی جماعتوں کو اسے مکمل مسترد کرنا چاہیے۔ حکومت مرضی کی عدلیہ اور چیف جسٹس چاہتی ہے اور یہ کہ اس موقع پر ترمیم کا فائدہ صرف حکومت کو ہوگا۔ دونوں جماعتیں حکومت کے کھیل کا حصہ نہ بنیں۔ پہلے منصور علی شاہ چیف جسٹس بنیں اس کے بعد کوئی بھی عمل شروع ہونا چاہیے۔
پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی نے ‘نہایت غیرشفاف اور متنازع ترین اندازمیں دستور میں ترمیم کے عمل کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ’ کیا۔ سیاسی کمیٹی نے کہا کہ انتخاب پر کھلا ڈاکہ ڈالنے اور عوام کا مینڈیٹ ہتھیا کر ایوانوں پر قابض ہونے والے گروہ کے پاس آئین کو بدلنے کا کوئی اخلاقی، جمہوری اور آئینی جواز نہیں ہے۔مینڈیٹ چور سرکار اور اس کے سرپرست آئین میں ترامیم کے ذریعے ملک میں جنگل کے قانون کو نافذ کرنا اور جمہوریت کو زندہ درگور کرنا ہے۔ تحریک انصاف روزِ اوّل سے ان متنازع ترین ترامیم کی مخالف اور انہیں ملک کے مستقبل کیلئے تباہ کن سمجھتے ہوئے ان کی مزاحمت میں مصروفِ عمل ہے اور دستور کا چہرہ مسخ کرنے کے اس بیہودہ عمل اور اس پر دونوں ایوانوں میں رائے شماری سے مکمل طور پر الگ رہے گی۔آئینی ترامیم پیکیج کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں کے باہمی روابط اور تجاویز کا سلسلہ جاری ہے۔ ترامیم کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے اپنا مسودہ پیش کردیا ہے۔ اے این پی نے ہائیکورٹ کے جج کی تقرری کی حد عمر 40 سال کرنے کی مخالفت کردی۔چیف جسٹس پاکستان کی تعیناتی کی مدت تین سال کرنے کی تجویز بھی غیر مساوی ہے۔ صوبوں میں آئینی عدالتوں کے قیام سے غیر ضروری مالیاتی بوجھ پڑے گا۔ سپریم کورٹ میں تمام صوبوں کے ججز کی تعداد برابر کرنے، آرٹیکل 76 اور آرٹیکل ایک میں ترمیم کی تجویز دی ہے۔ آئین کے آرٹیکل ون میں ترمیم کر کے خیبر پختونخوا کا نام تبدیل کر کے صرف پختونخوا کیا جائے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا گفتگو اور مذاکرات کے نتیجے میں آئینی ترامیم پر کافی حد تک ہم آہنگی پیدا ہو چکی ہے۔ پارلیمنٹ کا کام ہی آئین اور قانون میں ترمیم کرنا ہے لیکن آئینی ترمیم آتی ہے تو اس پر اختلاف بھی ہوتا ہے۔ ملکی حالات اور ضرورت کے تحت قانون سازی ہونی چاہیے، ہم نے ملک اور عوام کے مفاد میں سب کچھ کرنا ہے۔ آئین میں ملکی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے ترامیم کی گنجائش موجود ہے۔ اگر ملکی مفاد میں ترمیم ناگزیر ہو تو ضرور کی جانی چاہیے۔ اختلاف برائے اختلاف کی سیاست مناسب نہیں، ملک کو مستحکم بنانے کے لیے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اتفاق رائے بھی ضروری ہے۔
بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا کہ آئینی ترامیم کو خفیہ ڈاکیومنٹ بنا دیا گیا ہے، اور مسودہ مختلف اقساط میں شیئر ہو رہا ہے، سوال یہ ہے کہ ان ترامیم کا خالق کون ہے؟ حکومت، اپوزیشن یا کوئی اور قوتیں؟ آئین کوئی خفیہ دستاویز نہیں، ایسی کون سی ایمرجنسی ہے جو راتوں رات خفیہ ترمیم کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ دنیا میں ایسی جمہوریت کی نظیر کہیں نہیں ملے گی، ساری کوششیں آئینی ترمیم کے لیے ہو رہی ہیں۔ ایسی کون سی ترامیم ہیں جسے پبلک کرنا حکمرانوں کے لیے باعث شرم ہے۔ ہم کسی بھی ایسی آئینی ترامیم کا حصہ بنے ہیں نہ بنیں گے، آئین خفیہ دستاویز نہیں ہوتا، ہر شہری کو ترامیم سے متعلق علم کا حق ہے، میں تو ملک سے باہر تھا رابطہ کیا گیا کہ آئینی ترامیم میں ہمارا ساتھ دیں۔ترامیم کے لیے ہمارے سینیٹ کے دو ممبران کو فون کر کے دھمکایا گیا، بہ زور طاقت کرائی جانے والی آئینی ترامیم کا حصہ نہیں بنیں گے۔مشرف دور میں گن پوائنٹ پر مذاکرات نہیں کیے تو اب بھی نہیں کریں گے، 73 کا آئین ہمارے لیے کچھ نہیں کر سکا تو 26 ویں ترمیم کو بھی دیکھ لیں گے، پارلیمنٹ میں بیٹھے کسی بھی شخص کی کوئی حیثیت نہیں ہے، وقت آ گیا ہے کہ وہی راستہ اختیار کریں جو میں نے 3 ستمبر کو اختیار کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔