میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
حکومت کو تمام 7 مطالبات تسلیم کرنا ہوں گے(حافظ نعیم)

حکومت کو تمام 7 مطالبات تسلیم کرنا ہوں گے(حافظ نعیم)

ویب ڈیسک
جمعه, ۹ اگست ۲۰۲۴

شیئر کریں

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے راولپنڈی دھرنے کے 14 ویں روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے دھرنے کا اولین مقصد لوگوں کو ریلیف دلانا ہے۔ حکومت ہمارے مطالبات سے اتفاق بھی کرتی ہے لیکن جب مسائل کے حل کی تجاویز رکھتے ہیں تو یہ دائیں بائیں ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہماری مذاکراتی کمیٹی نے حکومت پر واضح کر دیا ہے کہ اب آئی پی پیز کا دھندہ ختم کرنا ہوگا، ان معاہدوں کے نتیجے میں پاکستان کا برا حال ہو گیا۔جعلی اور فراڈ معاہدوں سے قوم کو لوٹا گیا ہے۔ بھاشہ ڈیم کی مد میں سالانہ 14 ارب وصول کیے جا رہے ہیں۔ ابھی ڈیم بنا نہیں اور پیسے قوم کی جیبوں سے نکالے جا رہے ہیں۔ حکومتی کمیٹی کو واضح کر دیا ہے کہ کوئی مبہم بات نہیں ہوگی۔مطالبات کی منظوری کیلیے جو بات بھی طے ہوگی وہ تحریری شکل میں ہوگی اور اسکی پاسداری حکومت پر لازم ہوگی۔ عجیب بات ہے تنخواہ دار طبقہ اپنی تنخواہوں پر بھی ٹیکس ادا کرے اور پھر آٹا، چینی، دال، گھی اور ماچس کی ڈبیہ پر بھی ٹیکس دے۔یہ ڈبل ٹرپل ٹیکس کا نظام ختم کرنا ہوگا۔ یہ ٹیکس در ٹیکس کا نظام ختم کیا جائے۔ لوگ پریشان ہیں اور یہ لاوا کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ پھر حالات حکومت کے کنٹرول میں نہیں رہیں گے۔ پریس کانفرنس میں نائب امرا لیاقت بلوچ، ڈاکٹر اسامہ رضی، ڈاکٹر عطائالرحمن، میاں محمد اسلم، سیکرٹری جنرل امیر العظیم، ڈپٹی سیکرٹریز اظہر اقبال حسن، شیخ عثمان فاروق، سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف، امیر پنجاب وسطی جاوید قصوری، امیر پنجاب شمالی ڈاکٹر طارق سلیم و دیگر موجود تھے۔امیر جماعت نے کہا کہ پاکستان میں مراعات یافتہ اور جاگیردار طبقے کو کیوں استثنا حاصل ہے؟ عام غریب آدمی کالنگ کارڈ ہر بھی ٹیکس ادا کرے اور جاگیردار طبقہ کچھ بھی ادا نہ کرے۔ مڈل کلاس طبقے کو تو سبسڈی دینی چاہیے لیکن جاگیروں پر ٹیکس لگانا ہوگا۔ اب کوئی دوسری صورت نہیں۔ پوچھا جائے نہ یہ لامحدود جاگیریں کہاں سے آئی ہے۔ ان جاگیروں کو عام غریب کسانوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔ایف بی آر کے 1400 ملازمین کیا کر رہے ہیں۔ 1299 ارب روپے ایف بی آر نے کرپشن کی اور بڑے ہاتھیوں سے ٹیکس لینے کی جائے چھوڑ دیا۔ ایف بی آر عام عوام پر سارا بوجھ کیوں ڈالتا ہے۔ اور بڑے بڑے مافیاز کو کیوں چھوٹ ملتی ہے۔ یہ کام عام اہلکار نہیں اوپر تک کے لوگ ملوث ہیں۔ آپ کرپشن ختم نہ کریں اور غیر ضروری اخراجات کم نہ کریں اور سارا بوجھ عام لوگوں پر ڈالتے جائیں یہ کہاں کا انصاف ہے. حکومت کرپشن کے خاتمے اور بڑے ہاتھیوں سے ٹیکس وصولیوں کیلیے اقدامات نہیں کرنا چاہتی اور لوگوں پر ظلم بڑھا دیا ہے۔یہ دھرنا سب کی آواز ہے ہم نہ یہ دھرنا ختم کریں گے اور نہ پیچھے ہٹیں گے۔ ہم مارچ بھی کریں گے اور جلسہ عام بھی کریں گے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مطالبات تسلیم کرے اور انارکی، افراتفری کی بجائے پرامن آئینی جدوجہد کو ویلکم کرے۔ ہم کوئی تخریب کاری کرنے نہیں آئے لوگوں کا حق لینے آئے ہیں اور اس میں ہمارا کوئی ذاتی ایجنڈا پیش نظر نہیں۔اور نہ ہم مقدمات ختم کروانے آئے ہیں۔ تمام کے تمام 7 مطالبات تسلیم کرنا ہوں گے اور اس سے کم پر کوئی بات نہیں بنے گی۔ ہم کوئی خیرات مانگنے نہیں آئے اپنا حق لینے آئے ہیں قوم مزید کتنا برداشت کرے گی یہ بات حکومت کو جتنی جلدی سمجھ میں آ جائے اتنا زیادہ بہتر ہے۔ ہم پرامن طریقے سے اپنی آئینی جدوجہد کر رہے ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم کسی کے اشاروں پر نہیں آئے اور نہ کسی سبز بتی کا انتظار کر رہے ہیں اگر اشاروں پر چلنا ہوتا تو نہ صرف عام انتخابات میں ہمارے پاس سیٹیں ہوتیں بلکہ کراچی کا مئیر تو ہم جیت گئے تھے پھر بھی نہیں بننے دیا گیا لہذا ایسے کسی خیال کی جماعت اسلامی کیلیے کوئی گنجائش نہیں ہے یہ افواہیں وہی لوگ اڑا رہے جن کے مفادات کو ہماری عوامی تحریک سے نقصان پہنچ رہا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں