عمران خان کا مستقبل
شیئر کریں
رفیق پٹیل
۔۔۔۔۔۔۔
9مئی کے واقعات کے بعد عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے خلاف تیز رفتاری سے آپریشن جاری ہے۔ ان کے خلاف موجودہ آپریشن میں پہلی مرتبہ آرمی ایکٹ کے استعمال اور فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کی منظوری دی گئی ہے اور انہیں ایک مرتبہ پھر گرفتار کرنے اور طویل مدت تک جیل میں رکھنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ اب تک 7500 کارکنوں اور رہنمائوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ پاکستانی میڈیا کے تقریباً تمام ٹی وی چینل اور اخبارات میں انہیں دہشت گرد قرار دینے اور ان کی جماعت پر پابندی لگا نے سے متعلق سرکاری بیانات کو کو خوب بڑھا چڑھا کر دکھا یا جا رہا ہے۔ لیکن عالمی سطح پر اس پروپیگنڈے کوپزیرائی نہیں مل رہی ہے۔ بلکہ اس کے منفی اثرات ہورہے ہیں۔عالمی سطح پر جب تک دہشت گردوں کے نام ان پر عائد الزامات کی تفصیل اور اسکی تحقیقاتی رپورٹ ظاہر نہیں ہوتی۔ دنیا کے مختلف ممالک کا میڈیا اسے محض ڈرامہ تصور کرے گا۔ ملکی سطح پر وہ دہشت گرد جو حقیقی معنوں میں دہشت گرد ہیں اور ملک کے دفاعی اداروں کے افراد پر جدید اسلحہ چلا کر حملہ کرتے ہیں ان کے خلاف جاری آپریشن بھی متاثر ہوگا ۔تحریک انصاف کے وہ بے گناہ کار کنان جو اس سارے واقعات سے لاتعلق تھے کی ا ندھا دھند گرفتاریاںحکومت کی بدنامی اور ان کے ووٹ بینک میں مزید کمی کا باعث بن رہی ہے۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک مقیم پاکستانی سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے جذبات اور حالات حاضرہ پر اپنے تجزیے سے آگاہ کر رہے ہیں۔ ان واقعات کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اب ہر طرف سے سوال کیا جا رہا ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت کا مستقبل کیا ہوگا؟ عمران خان پر قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں اور خود عمران خا ن کو اس بات کا خدشہ ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے یا انہیں طویل مدت کے لیے قید یا نظر بند کردیا جائے اور ان کی سیاسی جماعت کے عہدیداروں سے دبائو کے ذریعے وفاداری تبدیل کرالی جائے جس کے لیے عرصہ دراز سے کام جاری ہے اور شاید جہانگیر ترین تحریک انصاف کے منحرفین پر مشتمل تحریک انصاف حقیقی یا کسی اورنام کی جماعت کا اعلان کریں گے۔ اس وقت تک جہانگیر ترین کو سخت مشکلات کا سامنا ہے ان کو امید افزا نتائج نہیں مل رہے ہیں۔
ایک اور مسئلہ معاشی بحران اور مہنگائی کا ہے روزانہ اجرت پر کا م کرنے والوں چھوٹے دکانداروں ،گھریلوں ملازمین ،ٹھیلے والوں، کھیت مزدوروں،نجی اداروں کے ملازمین کے لیے آج کی اس مہنگائی میں وقت گذارنا بہت مشکل اور اذیت ناک ہے سیاسی سمجھوتے اور محاذ آرائی کے خاتمے کے بغیر بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیںہے ۔دنیا کے تما م اہم ممالک موجودہ برسر اقتدار اشرافیہ پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس لیے ایک خیال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی اور دیگر جماعتیں کسی سمجھوتے کی راہ تلاش کریں اور ایک دوسرے کو برداشت کریں فی ا لحال سمجھوتے کا ماحول نظر نہیں آتا۔ دنیا بھر سے اب یہ دبائو آرہا ہے کہ معاملات ٹھیک کرکے استحکام لایا جائے ایک حلقہ اس خدشے کا بھی اظہار کر رہا ہے کہ اگر تحریک انصاف کو انتخابات میں ناکام نہ کیا جا سکا تو آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں عمران خان کو پھانسی کی سزا دی جا سکتی ہے۔
ایک اور امکان یہ ہے کہ یہ سب کچھ تحریک انصاف کو خوفزدہ کرنے اور اس کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کے لیے کیا جارہا ہے ۔ یہ ایک بہترین سیاسی حربہ اور سیاسی چال بازی ہے تاکہ آئندہ انتخابات میں مطلوبہ نتائج حاصل کیے جائیں۔ اسی لیے سیاسی سمجھوتے میں رکاوٹیں پیدا ہوئی تھیں۔جیساکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی 2019 میں اپنی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)کی ممکنہ شکست کو مختلف چالوں اور دائو پیچ کے ذریعے بھاری اکثریت سے کامیابی میں تبدیل کردیا تھا۔جنوری 2019 میں جو بھارتی بی جے پی شکست کا خطرہ محسوس کررہی تھی وہ 23 مئی 2019 میں دوتہائی اکثریت سے کامیاب ہوگئی۔ 14فروری 2019 کو بھارت میں دہشت گردی کا ایک پراسرار واقعہ رونما ہوا۔ بھارتی کشمیر پلواما میںبھارتی سینٹرل ریزرو فورس کی ایک بس کو دھماکے سے اڑادیا گیا جس میں چالیس اہلکار ہلاک ہوگئے۔ مودی نے اس کا الزام پاکستان پر لگا یا اور پاکستان میںگھس کر مارنے کی دھمکی دے کرایسی تشہیر کی گئی جس کی ماضی مثال نہیں ملتی۔ کانگریس کو اس واقعہ کی آڑ میں پاکستان کا ایجنٹ قرار دیا گیا اور بھارتی مسلمانوں کو بھی غدّار قرار دیا جانے لگا۔ پاکستان کے علاقے بالاکوٹ پر بھارتی جہاز نے بم گرایا جس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہواتھا لیکن بھارتی میڈیا نے تین سو دہشت گرد مارنے کا جھوٹا دعویٰ کیا۔اس قدر پروپیگنڈا کیا کہ پورا بھارت اسے سچ سمجھنے لگامودی کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا ۔پوراماحول تبدیل ہوگیا اس طرح بھرپور فائدہ اٹھاکر انتخابات میں مطلوبہ نتائج حاصل کرلیے گئے۔ اس واقعے پر تحقیقات نہیں ہونے دی گئیں حالانکہ پاکستان نے مسلسل پیشکش کی عمران خان کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے وای صورت حال پر پاکستان کے مختلف مبصرّین یہ سوال کر رہے ہیں کہ جب پاکستان کا اندرونی حفاظتی اور سرحدی دفاعی نظام بہت مظبوط اور قابل اعتبار ہے خصوصاًاندرونی سطح پر تحریک انصاف کے تمام اقدامات پر ملکی اداروں کی بھرپور نظر تھی پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ حکومت کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد کیا ردّعمل ہوگا ۔
یہ ناممکن ہے کہ اتنے قابل پیشہ ور ادارے اس بات سے لاعلم ہو ںکہ عمران خان کی گرفتاری کے بعدکیا ہوگا؟ ایک اور سوال یہ ہے کہ حکومتی ادارے اس بات سے ناواقف ہوں کہ گرفتاری کو عدالت کے احاطے میں کرنا غیر قانونی ہوگا۔ پھر یہ کہ گرفتاری کے لیے رینجرز کو سامنے لانے سے عالمی سطح پر کس قسم کی تصویر پیش کی جائے گی۔ لوگوں پر اس کا کیا اثر ہوگا؟ بیرسٹر اعتزاز احسن نے بھی یہ سوال اٹھایا ہے کہ چند سو نہتے لوگ کس طرح ملک کی اہم تنصیبات تک طویل سفر کرکے پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور ان مقامات پر حفاظتی اقدامات کیوں نہیں تھے۔ اب ایک اطلاع یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو ایسی معلومات فراہم کر دی گئی ہے جس کی بنیاد پر تحریک انصاف پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ اگر یہ پابندی عائد کردی گئی تو آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف حصہ نہیں لے سکے گی اس وقت تک جہانگیر ترین تیس سے پینتیس اراکین قومی اسمبلی اور پندرہ سے بیس صوبائی اسمبلی کو ساتھ ملاکر ایک نیا سیاسی اتحاد بناسکتے ہیں جس سے پورا سیاسی نظام تبدیل ہو جائے گا اور حکومت آئندہ دس سے بیس سال آسانی سے کھینچ سکے گی۔ اس دوران صدارتی انتخابات میں موجودہ صدر کو ان کے عہدے سے ہٹا کر پی ڈی ایم اپنا صدرلانے میں کامیاب ہوجائے گی ۔ اس کے لیے مولانا فضل الرحمان عرصہ دراز سے کوشاں ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پی پی اس پر کس حد تک راضی ہوں گی، فی الحال کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔یہ منصوبہ کس حد تک کامیا ب ہوگا ؟اس کا دارومدار مہنگائی میں پچاس فیصد کمی لانے پر منحصر ہے۔ ممکن ہے کہ اس صورت حال میں کوئی نئی قوت سامنے آجائے یا ایک طویل المدّت عبوری حکومت قائم کردی جائے۔ آئندہ دنوں میں خود تحریک انصاف کیا حکمت عملی طے کرتی ہے یہ بھی سب سے اہم ہے ۔
٭٭٭