میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ٹرمپ کو خاقان عباسی کاانتباہ

ٹرمپ کو خاقان عباسی کاانتباہ

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۴ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کومتنبہ کیاہے کہ پاکستان پر پابندی یا فوجی امداد میں کمی خود امریکا کے لیے نقصان دہ ہو گی کیوں کہ امریکی فوجی امداد میں کٹوتی کے باعث ہم چین اور روس سے ہتھیار خریدنے پر مجبور ہوں گے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، جس میں مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے لیکن امریکا کی پابندیاں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں اور ہماری کوششوں کو نقصان پہنچانے والے اقدام سے امریکا کا ہی نقصان ہو گا۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان پر پابندی یا فوجی تعاون میں کمی امریکاکے لیے نقصان دہ ہو گی کیوں کہ اس سے دونوں ممالک انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں متاثر ہوں گے اور فوجی امداد میں کٹوتی، ایف 16 طیاروں کی فروخت کی منسوخی پر ہم مجبوراً چین اور روس کی جانب جائیں گے۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کہاکہ امریکا کو پاکستان میں دہشت گردی کے باعث ہونے والے نقصانات کا اعتراف کرنا چاہیے اور واشنگٹن کو پاکستان کا 35 لاکھ افغان پناہ گزینوں کو پناہ دینے پر بھی معترف ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں خرابیوںکے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں کیوں کہ افغانستان سے دہشت گردوں نے پاکستانی عوام اور فوج پر حملے کئے جب کہ سرحد پار سے حملوں کے بعد پاک افغان سرحد پر باڑھ لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ ہم ایسے اقدامات پر غور کر رہے ہیں جن کی بدولت ہمیں آئی ایم ایف کے پاس دوبارہ نہ جانا پڑے، لگڑری اشیا کی درآ مدات گھٹانا اور برآمدات کو اوپر لے جانا ان اقدامات میں شامل ہیں۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے نئی افغان حکمت عملی کے اعلان،پاکستان پر ان کی بیجا تنقید اورپاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ہیرو بنا کر پیش کئے جانے کے بعد سے پاکستان کے عوام اور حکومت کا امریکی حکام سے ناراض ہونا سمجھ میں آنے والی بات ہے جس کااظہار حکومت پاکستان اعلیٰ امریکی عہدیدار ایلس ویلز کو جو کہ نائب وزیر خارجہ بھی ہیں پاکستان آنے سے سفارتی ذرائع کے ذریعے منع کرکے کیاگیا۔ پاکستانی موقف کی تائید چین اور روس کی طرف سے کیے جانے کے بعد پاکستان اس معاملہ پر مزید پر اعتماد انداز میں آگے بڑھا ہے اور امریکی صدر اور فوجی قیادت کو پاکستانی ناراضی سے آگاہ کرنے اور امریکی مدد کے بغیر آگے بڑھنے کی صلاحیت کااظہار کرنے کے لیے وزیر خارجہ خواجہ آصف دورہ امریکا سے قبل دوست ممالک کے دوروں پر ہیں جہاں وہ پاکستانی موقف کی تائید اور حمایت حاصل کر رہے ہیں،پاک فوج کی جانب سے بھی امریکا کو قربانیاں تسلیم نہ کرنے پر احتجاج کا پیغام دیا گیا ہے۔
امریکا کی جانب سے بھارت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے پاکستان کو دھمکیاں دینے کے طرز عمل، پاکستان پر بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ، پاکستان پر جارحیت کی دھمکی اور صدر ٹرمپ کی جانب سے ڈومورکامطالبہ تسلیم نہ کرنے پر امریکی امداد بند کرنے کی دھمکی پر پاکستان نے امریکی حکام کی توقع کے برعکس سخت موقف اپنا کر نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا کو حیران کردیا ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر کے دھمکی آمیز بیان پر پاکستان کا ردعمل ایک آزاد اور خود مختار قوم کے شایان شان ہے ،اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ امریکا پاکستان کو امداد کے نام پر جو رقم فراہم کرتارہا ہے وہ امداد نہیں ہے بلکہ وہ رقم دراصل پاکستان کی تنصیبات استعمال کرنے کا معاوضہ ہے جو امریکا نے کبھی بروقت اور پورا ادا نہیں کیا۔ موجودہ سیاسی حالات بلاشبہ اطمینان بخش نہیں ہیں اورسیاسی قیادت کے عدم برداشت کے رویئے عیاں ہیں مگر ان حالات میں بھی امریکی دھمکیوں پر اداروں اور قوم کا ایک پیج پر آنا قابل تعریف ہے۔
امریکا کی بھارت سے قربت اور پاکستان سے دوری کی وجہ خواہ کچھ بھی جو ہو اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ گزشتہ 4سال کے دوران پاکستان کی خارجہ پالیسی قطعی بے سمت رہی ہے اور ملک کا کوئی مستقل وزیرخارجہ نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی ملک میں پاکستان کی لابنگ نہیں کی جاسکی اور آج کے دور میں عالمی سطح پر اپنے موقف کو منوانے کے لیے لابنگ کے فقدان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ لابنگ کی اہمیت کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ بغیر لابنگ کے اگر پاکستان کے لیے سخت رویہ رکھنے والے ڈیموکریٹک رکن کانگریس بریڈشرمین اپنے ضمیر کی آواز پر خارجہ امور کی کمیٹی میں افغانستان کی امداد کو ڈیورنڈ لائن تسلیم کرنے سے مشروط کرنے کا مطالبہ کر سکتے ہیں تو فعال لابنگ سے امریکی کانگریس میں پاکستان کا نکتہ نظر سمجھانے میں کتنی آ سانی ہو سکتی تھی اس کااندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
جہاں تک افغانستان میں قیام امن کاتعلق ہے تو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود کایہ خیال بالکل درست ہے کہ افغانستان میں غیر ملکی فورسز کی تعیناتی سے امن قائم نہیں ہو سکتا امریکی کانگریس پر پاکستان کایہ موقف واضح کرنے کی ضرورت ہے جو بیانات سے نہیں صرف موثر لابنگ سے ہو سکتا ہے۔ بھارت لابنگ کے ذریعے اپنے جھوٹ پر امریکا کو قائل کرکے پاکستان کے خلاف کھڑا کر دیتا ہے جبکہ پاکستان کوتو حقیقت اور حقائق سے امریکا کو آگاہ کرنا ہے اگر بہتر لابنگ کی جائے تو یہ کام زیادہ مشکل نہیں ہو سکتا۔
ہمیں آج دفاع وطن کے لیے مکمل قومی یکجہتی کی ضروت ہے اس لیے تمام سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کو ملک کے تحفظ و دفاع کے تقاضوں کے تحت اپنے سیاسی مفادات کی قربانی دے کر دشمن کو قومی اتحاد و یکجہتی کا ٹھوس پیغام دینا چاہئے۔ ہم قائد کے پاکستان کے دفاع کو یقینی بنا کر ہی قائد کی روح کو تسکین پہنچا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں دہشت گردی اور کرپشن سے پاک پاکستان کی بھی ضمانت فراہم کرنا ہو گی جبکہ روٹی روزگار کے آزار میں پھنسے عوام کو خوشحال بنانے کے لیے وطن عزیز کو اقتصادی طور پر مستحکم کر کے ہی ہم قیام پاکستان کے مقاصد کو شرمندۂ تعبیر کر سکتے ہیں۔ آج کی حکمران مسلم لیگ ن کی قیادت کو کوئی ایک نشست حاصل کرنے کے لیے تمام تر وفاقی اورصوبائی وسائل جھونک دینے کی کوشش کرنے کے بجائے اس معاملہ میں اپنی قومی ذمہ داریوں کا زیادہ بہتر طورپر ادراک کرتے ہوئے یہ ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئے ،مسلم لیگ ن خود کو بانی پاکستان کاوارث قرار دیتے ہیں اب ان کے پاس آئندہ الیکشن میں جانے کے لیے صرف آٹھ ماہ بچے ہیں جبکہ مسائل کا شمار نہیں۔ وزیراعظم خاقان عباسی کی قیادت میں مسلم لیگ ن کی حکومت کو اب بیرونی اورملکی دونوں سطح پر اپنی صلاحیتیں منوانا ہوں گی،اوریہی اس کی مقبولیت کا پیمانہ ہوگا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں