میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بجلی تیار کرنے کے نئے منصوبے ابتدائی مراحل ہی میں مشکلات کاشکار

بجلی تیار کرنے کے نئے منصوبے ابتدائی مراحل ہی میں مشکلات کاشکار

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۵ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

حکومت نے سستی شہرت حاصل کرنے اور بجلی کی بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے عوام کے غم وغصے کو کم کرنے کیلئے بعض منصوبوں کا بہت جلد بازی میں افتتاح کردیا،ناقدین
بھکی پاور پروجیکٹ نے اپنے افتتاح کے صرف ایک ماہ بعد ہی کام کرنا بند کردیا،پاکستانی و چینی انجینئر مسئلہ حل کرنے میں ناکام،جرمنی سے انجینئر بلایا جائے گا
ایچ اے نقوی
حکمران پاکستان مسلم لیگ ن اپنے قائد نواز شریف کی ہدایت اور پارٹی منشور کے مطابق ملک میں بجلی کی قلت پر قابو پانے کیلئے ایک کے بعد ایک نئے بجلی گھروں کے قیام کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی ان میں سے بعض کی تکمیل کے ساتھ ہی ان میں پیداوار شروع کرنے کے دعوے کررہی ہے ، پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے نئے بجلی گھروں کے قیام ان کی تکمیل اور ان میں پیداوار شروع ہوجانے کے حوالے سے یہ دعوے کچھ غلط بھی نہیں ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ 4 سال کے دوران موجودہ حکومت نے بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرنے اور لوڈ شیڈنگ میں کمی کرنے کیلئے بجلی تیار کرنے کے کئی بڑے منصوبے مکمل کئے ہیں ،گزشتہ 4سال کے دوران موجودہ حکومت نے ملک میں لوڈ شیڈنگ پر کنٹرول کرنے اور عوام کو بلاتعطل بجلی فراہم کرنے کے وعدے پورے کرنے کیلئے بجلی تیار کرنے کے کم و بیش ایک درجن نئے منصوبوں کی منظوری دی ہے جن میں سے جیسا کہ میں نے اوپر لکھاہے کہ بعض مکمل ہوچکے ہیں اور ان سے بجلی کی پیداوار بھی شروع ہوچکی ہے۔لیکن حکومت کے ناقدین کاکہناہے کہ حکومت نے سستی شہرت حاصل کرنے اور بجلی کی بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے عوام کے غم وغصے کو کم کرنے کیلئے بعض منصوبوں کا بہت جلد بازی میں افتتاح کردیاہے جس کی وجہ سے ان میں سے کئی بجلی گھر بجلی کی پیداوار شروع کرنے کے ابتدائی مراحل ہی میں مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں۔
حکومت کی جانب سے ملک میں بجلی کی پیداوار میں اضافہ ظاہر کرنے کیلئے بجلی کے جن منصوبوں کا انتہائی جلد بازی میں افتتاح کیاگیا ان میں تا زہ ترین مثال بھکی پاور پروجیکٹ کی ہے وزیرا عظم نواز شریف نے 19 اپریل کو بلند بانگ دعووں کے ساتھ اس پروجیکٹ کا افتتاح کرتے ہوئے بڑے فخر سے اسے اپنی حکومت کا ایک بڑا کارنامہ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس پروجیکٹ سے ملک میں لوڈ شیڈنگ پر کنٹرول میں نمایاں مدد ملے گی لیکن ابھی فضائوں میں وزیر اعظم کے اس دعوے کی گونج باقی ہی تھی کہ اس پروجیکٹ نے اپنے افتتاح کے صرف ایک ماہ بعد ہی کام کرنا بند کردیا،وزیر اعظم نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ پروجیکٹ تکمیل کی مقررہ مدت سے بہت پہلے مکمل کرکے حکومت نے ایک کارنامہ انجام دیا ہے اور حقیقتاً تھا بھی ایسا ہی لیکن جلد بازی میں مکمل کیاگیا ۔یہ پروجیکٹ پیداوار شروع کرتے ہی مشکلات کا شکار ہوکر بند ہوگیا۔ افتتاح کے فوری بعد اس پروجیکٹ کے کھولے گئے پہلے ٹربائن میں ٹیکنیکل اور میکانیکل خرابیاں پیداہوگئیںاور اس طرح یہ پروجیکٹ بالکل بند ہوگیا یعنی اس سے بجلی کی پیداوار کاسلسلہ ختم ہوگیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بھکی پاور پروجیکٹ چلانے کی ذمہ داری حکومت کے چہیتے ایک ایسے سرکاری نان ٹیکنیکل افسر کے سپرد کی گئی جسے اس پروجیکٹ کے بارے میں الف بے کا بھی علم نہیں تھا اور اسے 20 لاکھ روپے ماہانہ کی پرکشش تنخواہ کے علاوہ بھاری مراعات
اور دیگر سہولتیں بھی فراہم کی جارہی ہیں،ذمہ دار افسر کی نااہلی یا اس شعبے سے اس کی ناواقفیت کی وجہ سے اب یہ پروجیکٹ جس سے نیشنل گرڈ کو717 میگا واٹ بجلی فراہم کی جانی تھی بالکل بند پڑا ہے۔پاکستانی اورچینی انجینئر اس پروجیکٹ میں پیدا ہونے والی خرابی کاپتہ چلانے اور اسے ٹھیک کرکے دوبارہ چلانے میں ناکام ہوچکے ہیں اور اب اطلاعات کے مطابق اس کی خرابی کاپتہ چلانے اور اس کی مرمت کرکے قابل استعمال بنانے کیلئے جرمنی سے انجینئر بلانے کافیصلہ کیاگیاہے۔
اس حوالے سے ایک دوسری مثال حویلی بہادر شاہ گیس ٹربائن پروجیکٹ کی ہے جسے ایل این جی سے چلایاجانا تھا اس پروجیکٹ سے سسٹم میں 385 میگاواٹ بجلی شامل ہونے کی توقع تھی لیکن یہ پلانٹ بھی پیداوار کے ابتدائی مراحل ہی میںمشکلات کاشکار ہوکر بند ہوگیا، اطلاعات کے مطابق ا س پروجیکٹ کے بند ہوجانے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ پلانٹ بہت زیادہ جدید تھا ۔اس سے قبل پنجاب کے علاقے گوجرانوالہ میں نندی پور پاور پروجیکٹ بھی اسی طرح کی مشکلات کاشکار ہوکر حکومت کیلئے مشکلات اور جگ ہنسائی کاسبب بن چکاہے۔
نندی پور پاور پروجیکٹ کی تکمیل میں تاخیر اور ناکامی کی وجہ سے حکومت کو خاصی تنقید کاسامنا کرنا پڑرہا ہے اور اب بھی حزب اختلاف کی جانب سے بار بار یہ سوال کیاجارہاہے کہ حکومت نے اتنا مہنگا پروجیکٹ شروع ہی کیوں کیاتھا؟اس حوالے سے حکومت پر پروجیکٹ کے حوالے سے لاپروائی برتنے اور کرپشن کے الزامات بھی عاید کئے جاتے رہے ہیں۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق نندی پور پاور پروجیکٹ کو گیس پر تبدیل کرنے کی تجویز پر غور کیاجارہاہے لیکن اس پلانٹ کو گیس پر تبدیل کرنے کیلئے اس میں مزید 7 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی جبکہ اطلاعات کے مطابق ا س پروجیکٹ پر اب تک 65 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جاچکی ہے۔اس پلانٹ کو گیس پر منتقل کئے جانے کے بعد اس سے پیداہونے والی بجلی ملک میں سب سے زیادہ مہنگی بجلی ثابت ہوگی کیونکہ ایک اندازے کے مطابق اس پلانٹ سے پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت کم وبیش15.63 روپے فی یونٹ ہوگی۔
نندی پاور پروجیکٹ کی منظوری سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں دی گئی تھی اور اس کیلئے مشینری درآمد کی گئی تھی لیکن پرویز مشرف حکومت کے خاتمے کے بعد یہ پروجیکٹ تعطل کاشکار ہوگیااور کئی ماہ تک اس کی مشینری کراچی کی بندرگاہ پر پڑی رہی بعد ازاں ملک میں بجلی کی کمی شدت اختیار کرنے کے بعد موجودہ حکومت نے 2014 میں جلد بازی میں اس پروجیکٹ کو مکمل کرنے کافیصلہ کیاتھا۔ ایک اور اطلاع یہ کہ اس پروجیکٹ میں خرابیاں پیدا ہونے کاایک اور بڑا سبب یہ ہے کہ اس کیلئے درآمد کی جانے والی مشینری نئی نہیں بلکہ استعمال شدہ یعنی سیکنڈ ہینڈ ہے اور یہ اپنی پوری استعداد یا گنجائش کے مطابق کام کرنے کی صلاحیت کھوچکی ہے اس لئے جب اس کواس کی پوری استعداد کے مطابق چلانے کی کوشش کی گئی تو یہ جواب دے گئی۔ماہرین کاکہناہے کہ اس طرح کی مشینری سے نئے پلانٹس کے قیام سے ملک میں بجلی کی کمی پرقابو پانا ممکن نہیں ہوسکتا کیونکہ ان پرانے پلانٹس سے پیداہونے والی بجلی نئے پلانٹس پر تیار ہونے والی بجلی کے مقابلے میں بہت زیادہ مہنگی ہوتی ہے اورحکومت کو اس پر زیادہ سبسڈی ادا کرنا پڑتی ہے جس سے سرکلر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوتاہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس حوالے سے کیا طریقہ کار اختیار کرتی ہے اور پیداوار کے ابتدائی مراحل ہی میں دم توڑ جانے والے پلانٹس کو دوبارہ کارآمد بنانے کیلئے حکومت کو مزید کتنی رقم خرچ کرنا پڑے گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں