میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
”احتساب، جوابدہی اور مواخذہ“کرپشن کا خاتمہ وقت کا اولین تقاضا

”احتساب، جوابدہی اور مواخذہ“کرپشن کا خاتمہ وقت کا اولین تقاضا

ویب ڈیسک
بدھ, ۸ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

بلال مصطفی
کرپشن کیخلاف جس عزم کا اظہار کیا ہے اس کیلئے ہر سطح پر ایک عزم کے ساتھ ساتھ عملی جدوجہد کی ضرورت ہے اور اس عملی جدوجہد میں بہت سے ان اقدامات کی بھی ضرورت ہے جسے ہر آنے والی حکومت نے پس پشت ڈال دیا۔ ”احتساب، جوابدہی اور مواخذہ“ تین بنیادی اصول کرپشن کے خاتمے میں نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس وقت ہماری ضرورت نیب جیسے ایڈہاک قسم کے”عدلِ جہانگیری“ کی نہیں بلکہ ایسے سیاسی اور سماجی پروسیز کی ضرورت ہے کہ جس کے تحت قانون کے غیرشخصی تصور اور قواعدوضوابط کے بارے میں ہمارا شعور پختہ ہو کر ہماری تہذیبی روایت کا حصہ بن سکے۔ یہ تبھی ممکن ہوتا ہے کہ جب سیاسی عمل میں مصنوعی انداز میں رخنے ڈالنے کی روایت ختم ہو جائے اور عدلیہ کو مزید فعال بنا کر ہرقسم کے سیاسی دباو? سے آزاد کر دیا جائے۔لیکن ان محرکات کو اگر ہم پس پشت ڈال کر کرپشن سے پاک معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں تو اس کا نتیجہ وہی نکلے گا جو گزشتہ ساٹھ سالوں سے ہمارے سامنے ہے۔ جن کا فائدہ نہ پہلے کبھی ہوا نہ آگے چل کر ہو گا۔
نظامِ عدل کی ناکامی،جمہوری اداروں کی شکست و ریخت کی وجہ سے پاکستان میں قدرتی وسائل کے باوجود بھی ہم ترقی کی اس صلاحیت سے محروم رہے ہیں جو ہم نے حاصل کرنا تھی۔ ماہرینِ سیاسیات اس بات کے معترف ہیں کہ اگر جمہوری اداروں کو ”وسیع تر قومی مفاد“ کی بھینٹ چڑھانے سے اجتناب کیا جائے تو تمام تر قباحتوں کے باوجود نہ صرف اقتصادی ترقی اور ریاست و فرد کے تعلق کو پائیدار بنیادوں پر استوار کیا جا سکتا ہے بلکہ کرپشن کے خاتمے کی طرف بھی مو?ثر قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ذہنوں میں آج بھی یہ سوال گونج رہا ہے کہ ”ملکی مسائل اور کرپشن کا ذمہ دار کون ہے؟“ اور اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں ہم نے اڑسٹھ سال گزار دئیے۔ بجائے اس کے کہ قانون کی مضبوطی، اداروں کا استحکام،جواب دہی کے اصول کے فروغ کے ذریعہ ہم کرپشن کے دروازے کو مضبوطی سے بند کرنے کے خواہشمند ہوں، ہم نے اس سوال کا حل تلاش کرنے میں اتنا عرصہ لگا دیا اور آئندہ پچاس سال بھی اسی سوال کے حل میں صرف ہو سکتے ہیں۔ اگر باقاعدہ حکمت عملی اور آزاد عدلیہ کے تصور کو مضبوط تر نہ کیا گیا ماضی سے لے کر حال تک کے تجربات نے اس حقیقت کو واضح کیا کہ جب بھی کرپٹ سیاستدانوں کو لگام ڈالنے کے لئے تجاویز سامنے آتی ہیں تو آئین ساز اداروں کو داخلی طور پر فعال بنانے کی بجائے ایک ایسے عہدے پر توجہ دی جاتی ہے جو اوپر سے خدائی احکامات نازل کر سکے۔ چنانچہ ”Check & Balanc”کا اصول کہیں گڈمڈ ہو کر رہ جاتا ہے۔
ایک تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ نیک اعمال کی تلقین یا خطبوں سے نہ تو سیاسی انتشار کو ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کرپشن فری معاشرے کا قیام ممکن ہے۔ اس کے لئے عملی طور پر چند اقدامات کی ضرورت ہے جن میں ایسے پروسسیز کا قیام کہ جس کے تحت قانون کی بالادستی قائم کرنے میں مدد مل سکے اور دوسرے ایسے پروسسیز جوکہ جمہوری طرز کی طرف لے جائیں۔ یاد رکھنے کی بات تو یہ ہے کہ دونوں میں سے ایک پراسیس کا فقدان عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔ مثلاً بھارت میں چھ دہائیوں سے جمہوریت قائم ہے مگر وہاں قانون کی بالادستی کا شعور پختہ نہیں ہے لہٰذا بھارتی جمہوریت نے نہرو سے لے کر لالو پرشاد اور جے للیتا جیسے سیاستدان پیدا کئے۔ جمہوریت کی آڑ میں جرائم پیشہ اور کرپٹ عناصر کا اقتدار میں آ جانا خود جمہوریت کی زندگی کیلئے خطرہ ہے۔ گزشتہ ساٹھ سالوں میں کسی ایسے ملک کی مثال نہیں دی جا سکتی جو قانون کی بالادستی اور جمہوریت کا راستہ اپنانے کے باوجود ترقی نہ کر سکا ہو۔ جبکہ ہم افریقہ، لاطینی امریکہ اور ایشیا کے بہت سے ایسے ممالک کی مثالیں پیش کر سکتے ہیں۔ ایک بات یاد رہے کہ جب فرد ریاست ہو جائے تو پھر قوانین کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ جمہوریت کے ساتھ خودمختار اور فعال عدلیہ ہی فرد اور ریاست کے درمیان اعتماد بحال کر سکتی ہے۔ جواب دہی اور مواخذے کا اصول ہی کرپشن سے نجات کا راستہ ہو سکتا ہے۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ جمہوریت خاص معاشرتی ماحول میں لابنگ کے ذریعہ لوگوں کو ساتھ ملانے کا نام نہ ہو بلکہ اس معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے جہاں”Free Rule Context” کے ذریعہ کام کرنے کی روایت مضبوط ہو۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں