میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
لبرل اور اسلام پسند پاکستانی عوام حکمرانوں کے خلاف متحد ہوں

لبرل اور اسلام پسند پاکستانی عوام حکمرانوں کے خلاف متحد ہوں

منتظم
منگل, ۲۵ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

syed-amir-najeeb

سید عامر نجیب
ایک صوبائی وزارت سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے باعث وزیر اعلیٰ سندھ کے ترقی پسند ایجنڈے کو ہائی جیک ہونے کے خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ نوٹیفیکیشن میں اسکولوں میں ڈانس اور میوزک پر پابندی عائد کرنے کے احکامات دیے گئے تھے تاہم ہمارے محترم وزیر اعلیٰ کے نزدیک ڈانس اور میوزک ترقی کا استعارہ ہیں ۔ اس نوٹیفیکیشن کیخلاف نوٹس وزیر اعلیٰ نے اس تیزی سے لیا جیسے مہذب اقوام میں کسی کے قتل، کسی کی آبرو ریزی ، کسی ملک دشمن منصوبے کی اطلاع یا کسی دہشت گردی کی واردات کی بو سونگھ کر لیا جاتا ہے ۔ اخباری اطلاع کے مطابق متعلقہ وزیر ایسے کسی نوٹیفیکیشن کی تردید کر رہے ہیں ،انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں اس بات کی تردید کی ہے جس میں ایسی کسی پابندی کی توثیق کی گئی ہو ۔ گویا وزیرموصوف اس ” گناہ عظیم “ سے یکسر انکاری ہیں جس کا مطلب ہے سازشی عناصر نے یہ ” گناہ “ انکے سر تھوپنے کی کوشش کی ہے ۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنے بیان میں کہا کہ ” رقص اور موسیقی لبرل معاشرے کا لازمی حصہ ہے ۔انھوں نے کہا کہ اسکولوں میں ڈانس پر پابندی عائد کرنے والے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ سندھ حکومت پاکستانی آئین کے تحت ثقافتی ورثے کے تحفظ اور فروغ پر پختہ یقین رکھتی ہے اور ہم کسی بھی صورت میں انتہا پسند عناصر سے کوئی ڈکٹیشن نہیں لیں گے، کسی کو بھی ترقی پسند ایجنڈے کو ہائی جیک کرنے کی اجازت نہیں دینگے اور ہم رقص و موسیقی کی حمایت جاری رکھیں گے “ ۔
یہ ہے ہماری سیاسی قیادت کی ترجیحات اورویژن ۔ قوم کن مسائل کا شکار ہے اور یہ لوگ حالات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ۔ سوچنے کا یہ انداز دراصل اس بات کی علامت ہے کہ ہماری لیڈر شپ قوم کی تعمیر اور ملک کی ترقی و استحکام کے ایجنڈے پر کاربند نہیں اور اس معاملے میں اپنی اہلیت سے بالکل مایوس ہے۔ اب اسے اپنے مناصب پر برقرار رہنے کا آسان راستہ یہ نظر آرہا ہے کہ قوم کو لہو و لعب میں مشغول رکھو۔ یہ رقص و سرود کی حمایت ، جشن اور سوگ کے لیے ریاستی مشینری کی فعالیت، حکومت کی ناک کے نیچے درجنوں اقسام کے نشے کا فروغ، غربت اور تنگدستی کے ذریعے عوام کو بے بس اور کمزور کرنا ، بیورو کریسی کے ذریعے عوام کی تحقیر و تذلیل کر کے انکا اعتماد مجروح کرنا ، کھیل ، تماشوں میں دلچسپی اورعوام کو پانی ، بجلی ، گیس جیسی بنیادی ضرورتوں کے معاملات میں الجھائے رکھنا ، یہ ہمارے حکمرانوں کی شاطر ذہنیت کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے ۔ اگر ثبوت درکار ہو تو اقتدار میں آنے والی جماعت کی 2013 کی انتخابی مہم کا تجزیہ کرلیں جو عوام کو لوڈ شیڈنگ سے نجات دلانے کے وعدے کی بنیاد پر چلائی گئی اور کامیاب بھی ہوگئی ۔ یعنی عوام کو اس قدر مجبور اور بے بس کر دیا گیا ہے کہ محض بجلی کا بحران ختم کردینا عوام کی خدمت کا سب سے بڑا مظہر قرار پاتا ہے ۔ وگرنہ دنیا میں حکومتیں عوام کو ضروریات کے علاوہ بہت کچھ دینے کے بعد بھی مزید دینے کی دھن میں ہیں ، گذشتہ روز اسپین کی یہ خبر کافی توجہ حاصل کر گئی کہ بچے کی ولادت پر ماں کے ساتھ باپ کو بھی چار مہینے کی چھٹیاں تنخواہ کے ساتھ دی جائینگی ۔
پاکستان کا حکمران طبقہ اصل میں نہ لبرل پاکستانیوں کا خیر خواہ ہے اور نہ اسلام پسندپاکستانیوں سے اسے کوئی ہمدردی ہے۔ اسے اپنی نا اہلی کا پورا اداراک ہے اور وہ قوم کو اسلام اور لبرل ازم کے جھگڑے میں الجھا کر اپنے مفادات کا تحفظ کرنا چاہتا ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے اس بیان کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ حسن نثار اور ایازا میر کے قبیل کے لکھنے والے ان کی داد و تحسین کریں اور انصار عباسی اور اوریا مقبول جان ان کی لبرل پسندی کی مذمت کریں ۔ اسی طرح مذہبی جماعتیں وزیر اعلیٰ کے بیان کی مخالفت میں بیانات دیں اور اپنے مستقل ایجنڈے کی طرف توجہ نہ دے سکیں ۔ لبرل اور اسلام پسند پاکستانیوں میں تقسیم کی لکیر مزید گہری ہو اور عوام کی توجہ اپنے حقوق سے متعلقہ ایشوز سے ہٹی رہے ۔
وقت آگیا ہے کہ اب لبرل اور اسلام پسند پاکستانی عوام حکمرانوں کی چالوں کو سمجھیں اور بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کے مشترکہ ایجنڈے پر اتحاد کریں ۔ یہی کام مذہبی فرقوں اور لسانی و نسلی گروہوںکو کرنے کی ضرورت ہے ۔” لڑاﺅ اور حکومت کرو “ کی پالیسی پر عمل پیرا حکمرانوں کو ناکام کرنے کے لیے ہر قسم کی عصبیتوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی اور گروہوں کو ایک دوسرے کے قریب آنا ہوگا ۔ ڈانس اور میوزک کی حمایت سے متعلق وزیر اعلیٰ کے بیان کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں نہ انکی پابندی لگانے سے یہ رک سکتا ہے اور نہ پابندی ہٹانے سے اسے فروغ مل سکتا ہے۔ اسکول کا کاروبار کرنے والے یہ جانتے ہیں کہ میوزک اور ڈانس کن علاقوں میں اور کتنا فروغ دیا جا سکتا ہے اور کہاں بالکل نہیں دیا جا سکتا ۔ سندھ دھرتی کے لبرل باشندوں کو بھی وزیر اعلیٰ کے بیان پر خوشی سے بغلیںنہیں بجانی چاہئیں کیونکہ ڈانس اور میوزک کا تعلق ترقی سے جوڑنا بھی حماقت کے سوا کچھ نہیں ۔ویسے بھی حکمران ہر طبقے کی دلجوئی کے لیے کچھ نہ کچھ ارشادات فرماتے ہی رہتے ہیں ۔مثلاً رمضان المبارک میں ارشاد ہوتا ہے ” رمضان تقوے کے حصول کا مہینہ ہے “، اب کہاں تقویٰ اور کہاں ڈانس اور میوزک ۔ محرم میں ارشاد ہوتا ہے کہ ” اسوہ¿ حسین ؓنجات کا راستہ ہے “، اب بتائیے کہ اُسوہ حسین ؓ میں ڈانس اور میوزک کی کوئی گنجائش نظر آتی ہے۔ اسی طرح ربیع الاول میں ارشاد ہوگا کہ ” رحمت عالم ﷺ کا لایا ہوا نظام ہی ہماری کامیابی کا ضامن ہے “ ،اب آپ رحمت عالم ﷺ کے نظام میں کیسے ڈانس اور میوزک کی گنجائش نکالیںگے ۔ یہ تضادات اس بات کا اظہار ہیں کہ حکمران اسلام پسند اور لبرل دونوں طرح کے پاکستانیوں کی جذباتی تسکین کا سامان کرتے ہیں اور یوں انھیں عوام کو کنفیوز رکھنے میں بھی کامیابی حاصل ہوجاتی ہے ۔ یہ دراصل ان کی دفاعی حکمت عملی ہے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں