میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ کا کڑا امتحان!

پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ کا کڑا امتحان!

جرات ڈیسک
جمعه, ۲۳ فروری ۲۰۲۴

شیئر کریں

پنجاب کی وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کیلئے مریم صفدر نے تیاری شروع کردی ہے،اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز انھوں نے مسلم لیگ ن کے وفادار تصور کئے جانے والے بعض اعلیٰ سرکاری افسران سے پنجاب کے معاملات پر بریفنگ بھی لی اور پھرجاتی امرا میں مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے جس میں مخصوص نشستوں کے لیے دی گئی فہرست میں شامل ارکان سمیت218 ممبر شریک تھے، خطاب کرتے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی مخلوق کی بہترین انداز میں خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔انہوں نے کہا کہ نئے جذبے، عزم اور خلوص سے نئے سفر کا آغاز کر رہے ہیں۔حکومت اور جماعت کی سطح پرہم نے اپنی ترجیحات کا روڈ میپ مرتب کر لیا ہے، ایم پی ایز میرے بازو اور طاقت ہوں گے، پنجاب کے 297 حلقے میرے لیے ڈسٹرکٹ ہوں گے۔ ہیلتھ، ایجوکیشن، انفرااسٹرکچر، لا اینڈ آرڈر، آئی ٹی زراعت غیرہ سب پر مساوی تقسیم ہو گی، ہر حلقہ، ڈسٹرکٹ، یونین کونسل اور ڈویژن ماڈل ہونا چاہیے، کوئی دوسرے سے کم نہیں ہونا چاہیے اور یہ آپ کی ذمے داری ہونی چاہیے۔
مسلم لیگ ن کی جانب سے وفاق میں اپنی ساجھے کی حکومت کو مستحکم رکھنے کیلئے پنجاب کی وزارت اعلیٰ بھی اپنے خاندان ہی میں رکھنے کے فیصلے کے تحت اب پنجاب میں ایک اور تجربہ ہونے جا رہا ہے۔ مسلم لیگ(ن) پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ق) اور آئی پی پی کے”ہائبرڈ“ اتحاد سے بننے والی حکومت کی سربراہ وزیراعظم شہباز شریف کی بھتیجی مریم صفدر ہوں گی۔یوں پنجاب میں ایک مضبوط حکومت بن سکتی ہے، مریم صفدر پنجاب ہی نہیں،بلکہ ملک کے کسی بھی صوبے میں پہلی خاتون وزیراعلیٰ ہوں گی۔پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شریک ارکان کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتاہے کہ مریم کو پنجاب کی وزیر اعلیٰ منتخب ہونے میں بظاہرکوئی دقت پیش نہیں آئے گی اور اس مرتبہ ن لیگ بظاہر باآسانی حکومت قائم کرتی نظر آ رہی ہے اور یہ حکومت ماضی کے برعکس مستحکم حکومت نظر آ رہی ہے۔
مریم صفدرپنجاب کی وزیر اعلیٰ کے طور پر صوبے کی اعلیٰ بیورو کریسی سے ملاقاتیں کر کے بریفنگ لے چکی ہیں۔ گویا انہوں نے مکمل تیاری کر لی ہے۔ یہ تجربہ کیسا رہتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا تاہم مریم صفدر کیلئے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ انتخابی مہم اور اُس سے پہلے حکومت مخالف جلسوں میں وہ خاصے جارحانہ انداز میں اپنا موقف بیان کرتی رہی ہیں۔ایک وقت ایسا بھی تھا جب انہوں نے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ پر سخت تنقید کا راستہ اپنایا ہوا تھا وہ اپنے سیاسی مخالفین کو بھی آڑے ہاتھوں لیتی رہیں اور سخت بیانیے کے ساتھ اپنا موقف بیان کرنے میں انھوں نے کبھی ہچکچاہت سے کام نہیں لیا،لیکن کسی سیاسی پارٹی کے رہنما کے طورپر جلسوں میں دل کی بھڑاس نکالنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا اور لوگ جلسوں میں کہی ہوئی باتوں کو عام طوپر سنجیدہ نہیں لیتے لیکن کسی صوبے خاص طور پر پنجاب جیسے ملک کے سب سے بڑے اور بادشاہ گر صوبے کی وزیر اعلیٰ کا منصب اس سے قطعی الگ اور زیادہ سنجیدہ طرز عمل اور حد سے زیادہ صبر وتحمل کا متقاضی ہوگا،جس کا مظاہرہ ابھی تک کسی بھی مرحلے پر مریم صفدر نے نہیں کیا ہے،اب وہ پہلی بار ایک حکومتی منصب پر فائز ہونے والی ہیں۔حکومتی منصب کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔ اُس پر بیٹھ کر بہت ساری باتوں سے درگزر کرنا پڑتا ہے، اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں بہت سے مسائل پیداہوجاتے ہیں جن پر قابوپانا بعض اوقات بہت مشکل ہوتاہے،پنجاب جیسے صوبے کے وزیراعلیٰ کے عہدے پر براجمان ہونے والے کو بہت سی مصلحتوں سے کام لینا پڑتا ہے۔عمران خان کی مثال سامنے ہے۔انہوں نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھال کے اپنے رویے میں لچک پیدا نہیں کی،حتیٰ کہ اپنے عہد میں اپوزیشن لیڈرکو بھی درخوراعتنا نہیں سمجھاجس کاخمیازہ وہ آج تک بھگت رہے ہیں۔جمہوریت میں سب کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے یہ صرف آمریت میں ہوتا ہے کہ آپ من مانے فیصلے کرتے ہیں اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔مریم صفدر اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں ایک طرف نواز شریف کی رہنمائی حاصل ہو گی اور دوسری طرف اپنے چچا شہباز شریف کی وزارتِ عظمیٰ پر موجودگی انہیں صوبے کے معاملات میں بہتری لانے کیلئے مدد و معاونت فراہم کرے گی۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پنجاب میں ابھی کام کرنے کی بڑی گنجائش موجود ہے۔اسے صوبوں میں راج تو کہہ سکتے ہیں مگر اس کی مثال اندھوں میں کانا راجہ جیسی ہے۔دوسرے صوبوں کی نسبت یقینا پنجاب کے حالات بہتر ہیں تاہم انہیں مثالی نہیں کہا جا سکتا۔بہت سے شعبے اصلاح اور توجہ کے محتاج ہیں خود مریم صفدر نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی اس کا اعتراف کیاہے،اس صوبے کے مختلف شعبوں میں موجود خرابیوں کو دور کرنے اور اصلاح احوال کیلئے غیر روایتی اقدامات اور غیر روایتی سوچ اپنانا ہوگی۔اس کے بغیر کوئی بڑی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ ایک ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے بینظیر بھٹو نے وزیراعظم بن کر اپنی صلاحیتوں کو منوایا تھا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا مریم صفدر پنجاب کی وزیراعلیٰ بن کر صوبے میں نقش جما پائیں گی؟
پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ کہا جاتا ہے جس کے پاس پنجاب ہے، اُس کی مرکز میں بھی مضبوط حکومت ہوتی ہے اس میں کوئی شک نہیں، ایسا ہی ہے۔ جب جب ایسا ہوا کہ پنجاب میں کسی ایک اور مرکز میں دوسری جماعت کی حکومت بنی تو مسائل پیدا ہوئے، عدم استحکام آیا۔بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں پیپلزپارٹی کی پنجاب میں حکومت نہیں تھی۔وزیراعظم کی حیثیت سے جب بے نظیر بھٹو لاہور پہنچتیں تو اُس وقت کے وزیراعلیٰ نواز شریف اُن کا استقبال کرنے ایئر پورٹ نہیں جاتے تھے، بالآخر یہی کشمکش بے نظیر حکومت کی قبل از وقت رخصتی کا باعث بھی بھی۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ بعدازاں بھی یہی صورت رہی، کیونکہ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) تسلسل کے ساتھ حکومت بناتی رہی، پرویز مشرف کے دور میں چوہدری برادران اوپر آئے تو پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو مل گیا، انہیں چونکہ پرویز مشرف کی مکمل سپورٹ حاصل تھی اس لئے انہوں نے جم کر پنجاب پر حکمرانی کی۔ مرکز اور پنجاب میں ہم آہنگی کے باعث نظام بڑے ہموار طریقے سے چلتا رہا۔ مثالی ہم آہنگی تو اُس وقت بھی دیکھتے میں آئی،جب مرکز میں نواز شریف وزیراعظم اور پنجاب میں شہباز شریف وزیراعلیٰ رہے، نواز شریف جتنی مرتبہ وزیراعظم بنے، پنجاب میں اُن کی جماعت برسر اقتدار رہی۔یوں ایک بحران سے مبرا، نظام اُن کے عہد میں جاری رہا۔
2018 کے انتخابات میں پنجاب کا انتخابی نتیجہ اگرچہ پنجاب کی حد تک مسلم لیگ(ن) کیلئے زیادہ غیر موافق نہیں تھا،مگر چونکہ مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت بن رہی تھی،اِس لئے چھوٹی جماعتوں اور آزاد ارکان نے مسلم لیگ(ن) کی طرف جانے کی بجائے تحریک انصاف کی حمایت کا فیصلہ کیا اور یوں پنجاب میں بھی برسوں بعد ایسی حکومت بن گئی،جس میں مسلم لیگ(ن) کی کوئی نمائندگی نہیں تھی تاہم
عثمان بزدار کے غلط انتخاب کی وجہ سے عمران خان پنجاب کو وہ گورننس نہ دے سکے، جس کی توقع کی جا رہی تھی۔پنجاب میں ترقیاتی منصوبے بھی اُس رفتار سے شروع نہیں ہوئے، جس سے ماضی میں پایہء تکمیل تک پہنچتے رہے۔ عثمان بزدار کی وجہ سے عمران خان حد درجہ تنقید کا نشانہ بھی بنے تاہم انہوں نے ہر موقع پر نہ صرف عثمان بزدار کا دفاع کیا،بلکہ یہ تک کہتے رہے کہ عثمان بزدار پنجاب کے سب سے بہترین وزیراعلیٰ ہیں،حالانکہ عمران خان کو پنجاب ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر چلانا چاہئے تھا،لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ پھر ایک تبدیلی آئی اور حمزہ شہباز وزیراعلیٰ بن گئے۔گویا مسلم لیگ(ن) کو ایک بار پھر پنجاب مل گیا،مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا اور قرعہء فال چوہدری پرویز الٰہی کے نام نکلا۔ یہ وہ دور تھا جب مرکز میں پی ڈی ایم کی حکومت تھی،جس کے سربراہ شہباز شریف تھے انہیں ایک مخالف پنجاب حکومت کا سامنا تھا پھر عمران خان کے حکم پر وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی توڑنے کی ایڈوانس بھیج دی اور پنجاب ایک نگران وزیراعلیٰ کی نگرانی میں آ گیا،اس طرح خود عمران خاں نے شہباز شریف کو سکھ کاسانس لینے اور ان کیلئے زمین تنگ کردینے کے اقدامات کرنے کا موقع فراہم کردیا۔شہباز شریف پر بھی جنوبی پنجاب کے حلقے تنقید کرتے رہے کہ انہوں نے اپنے ادوار میں جنوبی پنجاب پر توجہ نہیں دی،سنجیدگی کا تقاضا تو یہ ہے کہ مریم صفدر یہ روایت ختم کردیں۔وہ صرف مرکزی یاوسطی پنجاب کی نہیں بلکہ پورے صوبے کی وزیراعلیٰ بن کر سامنے آئیں اور ترقی کے ثمرات پورے صوبے تک پہنچائیں۔اُن کے دور میں صوبے کے اندر خواتین کی حالت میں بھی بڑی تبدیلی آنی چاہئے۔خواتین پر مظالم کا خاتمہ ہونا چاہئے اور اُن کیلئے روز گار کے مواقع اور اُنہیں ہنر مند بنانے کے منصوبوں کو فروغ ملنا چاہئے۔اُن کی وزارتِ اعلیٰ میں صوبے کی خواتین میں احساس تحفظ پیدا ہوا تو یہ ایک بڑی کامیابی ہو گی۔اسی طرح تھانہ کلچر میں بہتری بھی ایک بنیادی تقاضا ہے جو یقینا اُن کی ترجیحات میں شامل ہو گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں