میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مذہبی جماعتوں کو قابل ذکر کامیابی کیوں نہیں مل سکی؟

مذہبی جماعتوں کو قابل ذکر کامیابی کیوں نہیں مل سکی؟

جرات ڈیسک
منگل, ۲۰ فروری ۲۰۲۴

شیئر کریں

8 /فروری کی شام یہ واضح ہوگیا ہے کہ انتخابات میں کس جماعت کے حصے میں کیا آیا؟ انتخابات میں کس جماعت کو کیاملا؟ اس سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ انتخابات میں ہمارے ملک میں اسلام کے نام پر سیاست کرنے والے رہنماؤں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے، انتخابات میں دینی جماعتوں کی اس بے توقیری پر مذہب سے تھوڑی بھی دلچسپی رکھنے والے فرد کو شدید ذہنی کرب کا سامنا کرنا پڑا ہے دینی جماعتوں سے ہمدردی رکھنے والے شخص کی حیثیت سے ہماری دلچسپی یہ ہے کہ عام انتخابات میں مذہبی جماعتوں کو قابل ذکرر کامیابی کیوں نہیں مل سکی۔الیکشن کمیشن پاکستان کے پاس سیاسی پارٹیوں کی حیثیت رجسٹرڈ175رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں میں سے 23 کے قریب اسلامی یا فرقہ وارانہ ناموں والی مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں‘لیکن انتخابات میں ان کی کارکردگی اتنی بری رہی ہے کہ نہ ہی الیکشن کمیشن اور نہ ہی متعلقہ این جی اوز نے ان گروپوں کے حاصل کردہ ووٹوں کے اعدادوشمارکا ریکارڈ رکھا ہے۔مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں جے یو آئی (ف)کے علاوہ اسلامی سیاسی جماعتیں الیکشن میں اچھی کا رکردگی نہیں دکھا رہی‘ حقیقت یہ ہے کہ جے یو آئی کوئی مذہبی تنظیم نہیں ہے۔ جمعیت علمائے اسلام بڑی حد تک دائیں بازو کی پختون قوم پرست سیاسی جماعت ہے جس نے 1970کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی پرپابندی کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پر کیا لیکن اس کا بھی ان انتخابات میں برا حال ہوا۔
2013کے الیکشن میں ”متحدہ دینی محاذ“ انتخابی دوڑ میں شامل ہوا، لیکن اس کے ووٹوں کی تعداد انتہائی کم رہی۔ مجلس وحدت مسلمین، مرکزی جمیعت الحدیث، جماعت اسلامی، ٹی ایل پی وغیرہ بھی قومی سطح تو چھوڑ، کسی ایک ضلع کی ساری نشتیں حاصل نہیں کرسکی ہیں۔ جماعت اسلامی ملک بھر میں زیادہ تر سرگرم ہے لیکن ووٹر اس جماعت سے بھی متاثر نظر نہیں آتے۔2018 کے عام انتخابات میں 5 مذہبی جماعتوں نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا تھا، ان میں جمعیت علما ء اسلام ف، جماعت اسلامی، مرکزی جمعیت اہلحدیث، جمعیت علما ء پاکستان، اسلامی تحریک (تحریک جعفریہ پاکستان) شامل تھیں۔ ایم ایم اے کو قومی اسمبلی کے الیکشن میں مجموعی طور پر 25 لاکھ73 ہزار ووٹ ملے تھے۔ قومی اسمبلی کی12 جنرل نشستیں انہوں نے جیتیں، ان میں سے جماعت اسلامی نے چترال سے ایک سیٹ جیتی جبکہ باقی تمام جے یوآئی ف کی سیٹیں تھیں، انہیں 3 مخصوص نشستیں ملیں، یوں اسکور 15سیٹوں کا رہا۔جے یو آئی ف نے بلوچستان اور کے پی میں چند صوبائی اسمبلی کی سیٹیں جیتیں، مگر اسے پوری مدت اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا۔ جماعت اسلامی کی صوبائی اسمبلیوں میں کارکردگی کچھ خاص نہیں رہی، دِیر سے ایک آدھ سیٹ کے علاوہ کراچی سے ایک صوبائی اسمبلی کی سیٹ ملی۔ مذہبی جماعتوں میں دوسرے نمبر پر ٹی ایل پی (تحریک لبیک پاکستان) رہی، اس نے قومی اسمبلی کی سیٹوں پر مجموعی طور سے 22 لاکھ34 ہزار ووٹ لئے مگر انہیں قومی اسمبلی کی ایک سیٹ بھی نہیں مل سکی،اس نے البتہ سندھ اسمبلی میں 2و سیٹیں جیتیں، ایک مخصوص سیٹ بھی مل گئی۔اللہ اکبر تحریک نے پونے 2 لاکھ ووٹ لئے۔پاکستان راہ حق پارٹی(سابقہ سپاہ صحابہ) نے 55 ہزار800، تحریک لبیک اسلام نے 55ہزار، جے یو آئی نظریاتی نے34 ہزار ووٹ لئے۔ جے یو آئی س نے ساڑھے24 ہزار، جے یو پی نورانی نے22 ہزار، مجلس وحدت مسلمین نے 19 ہزار، سنی تحریک نے5 ہزار900، سنی اتحاد کونسل نے 5 ہزار ووٹ حاصل کئے۔2018 کے عام انتخابات نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ جے یوآئی ف کی بلوچستان کی پشتون بیلٹ اور کے پی خاص طورپر جنوبی اضلاع (ڈی آئی خان، ٹانک، لکی مروت، بنوں وغیرہ) میں پاکٹس ہیں جہاں سے وہ نشستیں نکال سکتی ہے۔ جماعت اسلامی کی خیبر پختون خوا میں اپر دیر، لوئر دیر، چترال اور بونیر میں پاکٹس ہیں جہاں سے اسے اچھا ووٹ ملتا ہے اور کبھی سیٹ بھی نکل آتی ہے جبکہ کراچی میں بھی اکا دکا سیٹوں پر جماعت اسلامی اہمیت رکھتی ہے۔تحریک لبیک کے بارے میں البتہ اندازہ ہوا کہ اس کے متعددحلقوں میں اپنا مخصوص ووٹ ہے جو10-12سے 15-20 ہزار تک رہتا ہے، اٹک کے ایک حلقے میں البتہ انہیں 60 ہزار تک ووٹ ملا۔ پچھلے الیکشن اور حالیہ الیکشن میں افسوسناک سی صورتحال سواد اعظم اہلسنت ووٹ بینک کی ترجمان جماعت جمعیت علمائے پاکستان کی رہی۔ جے یوپی ماضی میں اہم نشستیں لیتی رہی ہے، اس کے مرکزی لیڈروں مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبدالستار نیازی، حاجی حنیف طیب، علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری نے 70 اور80کے عشرے میں اسمبلیوں میں پہنچ کر بڑا دلیرانہ اور نمایاں کردار ادا کیا۔70 کے الیکشن میں جے یو پی کے پلیٹ فارم پر کراچی سے3 نشستیں (مولانا شاہ احمد نورانی، علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری اور مولانا شفیع اوکاڑوی) نے جیتیں۔ سندھ اسمبلی میں جے یو پی کے شاہ فرید الحق اپوزیشن لیڈر بنے تھے۔ 1977کے الیکشن میں حاجی حنیف طیب،پروفیسر شاہ فرید الحق اور دیگر اہل سنت رہنماؤں نے کراچی سے اہم نشستیں جیتیں۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں بھی اہلسنت کے رہنماؤں کو 9 سیٹیں ملیں۔88 میں ایم کیو ایم کا ایسا طوفان اٹھا جس نے کراچی میں مذہبی جماعتوں کے ووٹ بینک کو شدید نقصان پہنچایا۔ البتہ 2002کے الیکشن میں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے مذہبی جماعتوں نے کراچی سمیت ملک بھر میں حیران کن نتائج دئیے اور کے پی میں صوبائی حکومت بھی بنائی۔ مولانا شاہ احمد نورانی کے انتقال کے بعد جہاں جے یو پی کئی دھڑوں میں تقسیم ہوگئی، وہاں مختلف وجوہات کی بنا پر انتخابات میں ان کے نتائج بھی مایوس کن ہوتے گئے۔ اس بار بھی مختلف اہلسنت دھڑے اپنے اپنے انداز میں سیاست کر رہے ہیں۔90 کے عشرے میں ڈاکٹر طاہر القادری کی منہاج القرآن اور بعد میں عوامی تحریک نے اپنے انداز سے سیاست کی، طاہر القادری صاحب ایم این اے بھی رہے اور مختلف حلقوں سے لبیک کی طرح5-7 سے10-12 ہزارتک ووٹ لے کر پریشر گروپ کی صورت بھی اختیار کی۔ اس بار منہاج القرآن نے اپنے طور پر بعض جگہوں پر مختلف پارٹیز سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے۔ لاہور کے حلقہ این اے 127 میں منہاج القرآن نے بلاول زرداری کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ 2024کے الیکشن میں مذہبی جماعتوں نے آپس میں کوئی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کی۔ جماعت اسلامی کا اس بار کراچی پر خاص فوکس تھا جہاں پچھلے سال ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حافظ نعیم کی جارحانہ سیاست کی بدولت جماعت کو نمایاں حصہ ملاتھا۔ اس بار حافظ نعیم کراچی کی 2قومی اسمبلی کی نشستوں پر الیکشن لڑ رہے تھے، جماعت کو توقع تھی کہ وہ کراچی میں بعض حلقوں پر اپ سیٹ کر سکتی ہے۔ جماعت اسلامی کا دِیر کی 2نشستوں، چترال اور بونیر کی سیٹوں پر بھی فوکس رہا ہے۔ یاد رہے کہ 2013کے الیکشن میں جماعت اسلامی نے دیر سے2 اور بونیر سے ایک نشست جیتی تھی۔ کراچی کی ایک سیٹ سے اہل سنت والجماعت کے رہنما مولانا اورنگ زیب فاروقی الیکشن لڑ رہے تھے، ایک کوشش کی گئی کہ ان کی جماعت اسلامی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوسکے، مگر بوجوہ ایسا نہیں ہوسکا۔ تحریک لبیک پاکستان نے پچھلے الیکشن کی طرح ملک بھر کے بے شمار حلقوں سے اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے۔ ایک اہم ڈیولپمنٹ یہ ہوئی ہے کہ جے یو پی نورانی کے سربراہ صاحبزادہ ابوالخیرمحمد زبیر نے پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ انتخابی معاہدہ کر لیا تھا۔سوال یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کی آپس میں تقسیم کے الیکشن میں کیا اثرات مرتب ہوئے؟ کیا مذہبی جماعتیں اور بالخصوص سنی دھڑے الگ الگ لڑ کر اسمبلی میں کتنی نشستیں لے سکے،اور کیا یہ متحد ہوکر اپنی حیثیت نہیں منواسکتے تھے؟حالیہ انتخابات کا فیصلہ مذہبی رہنماؤں کی آنکھیں کھولنے کیلئے اور انھیں یہ یاد دلانے کیلئے کافی ہونا چاہئے کہ ہمارے مذہبی تشخص کو سب سے زیادہ مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے نقصان پہنچایا ہے جو اسلام کا نام لے کر عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں،لیکن مذہب کے اتفاق واتحاد کے سبق پر نظر ڈالنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں