میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دو معروف خواتین کا عاشق پولیس افسر پر جھگڑا، طبقہ اشرافیہ بے قابو!

دو معروف خواتین کا عاشق پولیس افسر پر جھگڑا، طبقہ اشرافیہ بے قابو!

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۶ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

٭ خواتین سے معمولی تعلقات کی کہانیاں ڈکیتی کی وارداتوں سے لے کر قتل وغارت گری کے ڈانڈے رکھتی ہے
٭ملک میںجاری معمولی جرائم سے لے کر دہشت گردی کی وارداتوں کو دیکھنے کا یہ زاویہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے
عقیل احمد راجپوت
کہتے ہیں کہ خون اور کستوری چھپائے نہیں جاسکتے اسی طرح عشق ومشک بھی چھپائے نہیں چھپتے۔ پچھلے دنوں اچانک ایک ایف آئی آر نے دو خواتین کو اس طرح ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کردیا کہ میڈیا اور سوشل میڈیا بھی اس لڑائی سے لطف اندوز ہونے لگا۔ہوا کچھ یوں کہ کراچی کے ایک علاقہ شانتی نگر میں ایک خاتون صنم عباسی کے گھر ڈکیتی کی واردات ہوئی انہوں نے کچھ لڑکوں کو پہچان لیا۔ ایف آئی آر درج ہوئی، ایک ملزم گرفتار اور دو ملزم فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ مگر پھر ایک گلوکارہ صنم ماروی نے سوشل میڈیا میں آکر بیان دیا کہ یہ ڈکیتی صنم عباسی نامی ایک خاتون کے گھر ہوئی ہے لیکن معروف سماجی رہنما شیریں اعجاز نے اس کو ذاتی دشمنی کا رنگ دیتے ہوئے خبریں چلائی ہیں کہ یہ ڈکیتی صنم ماروی کے گھر میں ہوئی ہے۔ صنم ماروی نے 15منٹ کے وڈیوبیان میں شیریں اعجاز کو مخاطب ہوکر کہا کہ وہ پیٹھ پیچھے وار نہ کریں، لڑائی کرنی ہے تو کھل کر سامنے آجائیں۔
صنم ماروی کے اس ویڈیو بیان پر شیریں اعجاز نے بھی وضاحت کی کہ انہوں نے یہ بیانات نہیں چلوائے اور وہ خود بھی چاہتی ہیں کہ صنم ماروی کھل کر سامنے لڑیں۔ دونوں معروف خواتین کون ہیں؟ صنم ماروی کے خاندان کا تعلق گانے بجانے سے ہیں ،جب ارباب غلام رحیم سندھ کے وزیراعلیٰ تھے تو ان کے ذاتی دوست آفتاب احمد پھرڑو سے صنم ماروی کا عشق ہوا ،اس دوران میں حیدرآباد کے ایک صحافی ناز سہتو کا بھی صنم ماروی سے عشق ہوا لیکن صحافی اتنا امیر نہ تھا، آفتاب پھرڑو زمیندار تھا وزیراعلیٰ کا دوست تھا۔ لہذا صنم ماروی نے ناز سہتو کے مقابلے میں آفتاب بھرڑو کا انتخاب کیا اور اس سے شادی رچالی اور پھر جب ارباب رحیم کا اقتدار چلاگیا تو آفتاب بھرڑو سے صنم ماروی نے منہ موڑ لیا۔ اس وقت ان کے یہاں ایک بچی کی ولادت بھی ہوچکی تھی لیکن بچی کے معصوم ذہن کی پروانہ کرتے ہوئے اُس نے زندگی کے سفر کو جاری رکھا۔ اور ضلع جھنگ سے تعلق رکھنے والے حامد علی نامی شخص کے ساتھ معاملاتِ حیات کو اٹکا لیا۔اس دوران میں آفتاب بھڑو نے مزید ایک سال تک صبر کے ساتھ اپنی بیوی کو منانے کی کوششیں جاری رکھیں۔ لیکن صنم ماروی واپس نہ آئیں اور خلع بھی نہ لیا ۔ یہاں تک کہ ایک دن آفتاب بھڑرو کو جوہر موڑ کراچی کے قریب پراسرار طور پر گولیاں مار کر قتل کردیاگیا۔ بعد میں اس حوالے سے ایک جرگہ ہوا جس میں صنم ماروی نے آفتاب بھڑرو کے والد کو چار لاکھ روپے دے کر اپنی جان چھڑالی۔ اور حامد علی کی باقاعدہ زوجیت میں رہنے لگیں۔لیکن ایک دن حامد علی کروڑوں روپے لے کر اڑن چھو ہوگیا اور صنم ماروی کو لاہور کا رخ کرنا پڑا جہاں یوسف عبداللہ اُن کے منتظر تھے۔یہیں وہ موسیقی کی محفلوں میں شریک ہوتی رہیں۔
شیریں اعجاز اصل میں ضلع جامشورو سے تعلق رکھتی ہیں وہ عورت فاﺅنڈیشن اور انسانی حقوق کی تنظیموں میں سرگرم رہتی ہیں۔ خیر سے شیریں اعجاز نے بھی اپنا گروپ بنالیا ہے جو طبقہ¿ اشرافیہ کے ساتھ مخصوص محفلوں میں شرکت کرکے اس میں” نئی روح“ پھونکتی ہیں۔ انہوں نے بھی ایک صحافی کے ساتھ معاشقہ کیا جو فطری طور پر بدنامی پر ہی ختم ہوا ۔پھر سوشل میڈیا میں ناکام معاشقے کی کہانیاں بھی سامنے آنے لگیں۔ لیکن اس کو کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ اس نے ایک طاقتور سیکریٹری سے مراسم بڑھائے اس سیکریٹری کی سابق صدر سے رشتہ داری بھی ہے۔ یوں وہ اونچی اڑان اڑنے لگیں۔ صنم ماروی کا دو تین برس سے سندھ پولیس کے ایک پولیس افسر ”پیر صاحب“ سے معاشقہ شروع ہوا۔ دونوں میں راز ونیاز بڑھنے لگے اور پھر معاملات آگے بڑھے۔ صنم ماروی خود کو خوش نصیب سمجھنے لگیں وہ ہر دوسرے تیسرے دن لاہور سے کراچی آکر پیر صاحب سے مل کرواپس چلی جاتیں۔ چھ ماہ قبل جب شیریں اعجاز کا ایک صحافی سے معاشقہ ختم ہوا تو عین ان ہی دنوں میں ان کا ٹکراﺅ اسی پولیس افسر ”پیرصاحب“ سے ہوگیا۔ پیر صاحب نے شیریں اعجاز کے لیے اپنی آنکھیں بچھادیں یوں پیرصاحب بیچارے دن میں پولیس کی ڈیوٹی کرتے اور شام کو صنم ماروی اور شیریں اعجاز کی خدمت میں گزارتے۔ جیسا کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے۔ یوں کسی نہ کسی طرح دونوں کو پتہ چل گیا کہ وہ ایک ہی پیر صاحب کی ”عقیدت مند“ ہیںاور جس بارگاہ میں اپنی جبینِ عشق کو جھکاتی ہے وہ یکساں ہے تو صنم ماروی نے پیر صاحب پر دباﺅ ڈالا کہ وہ شیریں اعجاز کو چھوڑ دے۔ پھر شیریںاعجاز نے پیر صاحب پر دباﺅ ڈالا کہ وہ صنم ماروی کو چھوڑ دے مگر پیر صاحب نے دونوں کو نہیں چھوڑا۔ بالآخر صنم ماروی نے پیر صاحب سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور پھر صنم عباسی کے کیس کی آڑ میں جئے سندھ قومی محاذ کے رہنماﺅں سے رابطہ کرلیا جیسے ہی شیریں اعجاز کو پتہ چلا کہ صنم ماروی جئے سندھ قومی محاذ کے پاس پہنچ گئی ہیں تو اُس نے فوری طور پر جئے سندھ قومی محاذ سے اپنے مراسم استوار کر لیے۔ اوران کے مردم شماری سے متعلق ہونے والے اجلاسوں میں شرکت کرنے لگی۔ اس صورتحال میں صنم ماروی کو دوسری مرتبہ پیچھے ہٹنا پڑا۔
خیر اسی صحافی نے بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ کی طرح جئے سندھ قومی محاذ کے رہنماﺅں سے رابطہ کرکے شیریں اعجاز کے خلاف ان کو بھڑکایا مگر ان کو ناکامی نصیب ہوئی۔ شیریں اعجاز آج بھی جئے سندھ قومی محاذ کی آنکھ کا تارا بنی ہوئی ہیں۔ یوں دو معروف خواتین نے ایک پولیس افسر پیر صاحب سے زیادہ قربت حاصل کرنے کے لیے اپنی ہی جگ ہنسائی کا سامان کیا۔ شاید ان کو پتہ ہے کہ ”بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا“!!!اس پوری کہا نی کی اہم بات یہ ہے کہ طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے یہ کردار دراصل معمول کے لغو تعلقات تک خود کو محدود نہیں رکھتے بلکہ حسد ، رقابت، سبقت اور برتری کے جنون میں یہ کردار خود کو جرائم کی دنیا تک لے جاتے ہیں۔اس معاملے کی چھان بین میں بھی ایسے ہی شرمناک واقعات سامنے آتے ہیں جس میں ایک طرف خاندانی اقدار کا مرثیہ ملتا ہے تو دوسری طرف خواتین سے معمولی تعلقات کی کہانیاں ڈکیتی کی وارداتوں سے لے کر قتل وغارت گری کے ڈانڈے بھی رکھتی ہے۔ اس معاملے کی مزید چھان بین سے یہ بھی اندازا ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے جرائم کے حوالے سے اپنے منصبی کردار کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ ملک میںجاری جرائم سے لے کر دہشت گردی کی وارداتوں کو دیکھنے کا یہ زاویہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں