میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سپریم کورٹ عدم اعتماد کے مسئلے سے دوچار ہونے لگی!!

سپریم کورٹ عدم اعتماد کے مسئلے سے دوچار ہونے لگی!!

جرات ڈیسک
منگل, ۱۶ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

سپریم کورٹ کی جانب سے تحریک انصاف کو بلا نہ دینے کے تباہ کن اثرات پر مبنی فیصلے نے ملک بھر میں عمومی طور پر عدم اعتماد کی ایک فضا پیداکردی ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ دیکھا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے کسی فیصلے سے اختلاف صرف ایک جماعت نہیں بلکہ عمومی طور پر ملک بھر کے تمام حلقے کر رہے ہیں۔ اُن ایک دو جماعتوں کو چھوڑ کر جو تحریک انصاف کی حکومت کو مبینہ طور پر”امریکی ایماء“ پر خاتمے کی محرک بنی تھیں اور جو تحریک انصاف کے اُبھار کے بعد عوام میں اپنی پزیرائی کھو چکی ہیں اور جن کی انتخابات میں کامیابی کا انحصار ہی اس پر ہے کہ تحریک انصاف کے ہاتھ باندھ دیے جائیں اور پھر اُنہیں انتخابات میں ہر طرح کی ”آزادی“ دے دی جائے، باقی عوامی حلقے سپریم کورٹ کے فیصلے پر سوال اُٹھا رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے جانبدارنہ رویہ کی دیرینہ مکروہ روایت کے باوجود کچھ صحافتی حلقے جو تحریک انصاف کے حامی نہیں، وہ بھی اس فیصلے پر حیرت کااظہار کررہے ہیں۔ عدالتی فیصلوں پر تنقید پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، خود موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ فیصلوں پر تنقید عوامی حق ہے۔ مگر ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ فیصلوں کے ساتھ ”نیت“ بھی زیر بحث آ رہی ہے۔ یہ ایک سنگین صورتِ حال ہے۔الیکشن کمیشن کی طرح انصاف کی بارگاہ بھی عوامی چھوی میں عمومی بے اعتباری کے تاریک سایوں کی لپیٹ میں آجائے تو اس سے بڑا بحران ملک میں کیا ہو سکتا ہے۔ یہ لب ِ مرگ مریض کی آخری امید ٹوٹنے اور اُس کے منہ سے آکسیجن ماسک اُتار دینے کی طرح ہے۔ یہ مسئلہ صرف ایک دو اداروں کے ساتھ نہیں بلکہ تمام اداروں کے ساتھ عمومی طور پر ہے کہ اُن کا اعتبار عوامی سطح پر بہت مجروح ہو چکا ہے۔ مگر وہ چار دیواریوں میں ایک مخصوص طبقے کی من چاہی رائے سننے کے عادی ہو کر حقائق سے بالکل بے خبر ہو چکے ہیں۔ اس صورت حال کا سب سے سنگین نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام میں ملک اور قومی سوچ کے حوالے سے ایک بیگانگی جنم لیتی ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے سپریم کورٹ کی سطح پر یہ حادثہ رونما ہونے والا ہے۔ تحریک انصاف نے گزشتہ روز سپریم کورٹ میں زیر سماعت اپنے مقدمات کی درخواستیں واپس لینا شروع کردیں۔ یہ سپریم کورٹ پر عدم اعتماد کا غیر مبہم اشارہ ہے۔
پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ ”ریمارکس“ دینے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گزشتہ روز لیول پلیئنگ فیلڈ نہ دینے کی درخواست پر سماعت شروع ہوتے ہی ”حسب ِ معمول“ وکیلانہ جرح شروع کر دی کہ”ہمارا فیصلہ ماننا ہے مانیں، نہیں ماننا تو آپ کی مرضی، آپ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں“؟لیول پلیئنگ فیلڈ نہ دینے سے متعلق پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کا آغاز ہی ان فقروں سے ہورہا ہو تو اندازاہ کیا جاسکتا ہے کہ عدالتیں کس طرح کام کر رہی ہیں اور ملک میں ردِ عمل کی ایک عمومی فضاء کیونکر بن رہی ہے۔ اس پر وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ”مجھے ہدایات ملی ہیں کہ درخواست واپس لے لی جائے، آپ کے 13 /جنوری کے فیصلے سے ہماری 230 سے زائد نشستیں چھن گئیں، ہم آپ کی عدالت میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے لیے آئے تھے، 13جنوری کی رات 11:30 پر ایسا فیصلہ سنایا گیا جس سے پی ٹی آئی کا شیرازہ بکھر گیا، ہم اب کیا توقع کریں کہ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گی، آپ کے پاس آئین کے آرٹیکل187 کے تحت اختیار ہیں، آپ احکامات دے سکتے ہیں، ہم آپ کی عدالت میں یہ کیس نہیں لڑنا چاہتے، پی ٹی آئی کے امیدواروں میں سے کسی کو ”ڈونگا“اور کسی کو گلاس دے دیا گیا“۔ لطیف کھوسہ ایڈوکیٹ نے کہا کہ”آپ نے تو پی ٹی آئی کی فیلڈ ہی چھین لی، الیکشن کمیشن صرف انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے، ایک جماعت کو پارلیمان سے باہر کر کے پابندی لگائی جا رہی ہے، پی ٹی آئی کے تمام امیدوار آزاد انتخابات لڑیں گے اور کنفیوژن کا شکار ہوں گے“۔اس موقع پر جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل لطیف کھوسہ سے سوال کیا کہ کیا آپ کو لگتا ہے انتخابات شفاف نہیں ہیں“؟پاکستان بھر میں اس سوال پر ہی حیرت ظاہر کی جاتی ہے کہ کوئی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں بیٹھا جج یہ سوال بھی کیسے کر سکتا ہے کہ ”کیاانتخابات شفاف نہیں ہے“؟بہر حال عدالتی روایت کے مطابق وکیل کو جواب دینا ہوتا ہے تو لطیف کھوسہ نے بھی دیا کہ”انتخابات بالکل غیرمنصفانہ ہیں، ہم نے عدلیہ کے لیے خون دیا، قربانیاں دیں“۔چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ”اب آپ ہمیں بھی بولنے کی اجازت دیں، دوسرے کیس کی بات اس کیس میں کرنا مناسب نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کا ملبہ ہم پر نہ ڈالیں“۔یہ بات چیف جسٹس ہی کہہ سکتے ہیں کہ اُن کی عدالت کافیصلے کا ملبہ بھی اُن پر نہ ڈالا جائے۔ یہاں صرف اتنا ریکارڈ پررہنا چاہئے کہ جب بلے کے انتخابی نشان پر الیکشن کمیشن کی اپیل کی سماعت میں پی ٹی آئی کے وکلاء نے اپنے دلائل مکمل کر لیے تو آخرمیں حامد خان ایڈوکیٹ نے کاغذات سمیٹتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت جو بھی فیصلہ دے گی، تاریخ بھی اُس کے متعلق ایک فیصلہ دے گی۔ آئندہ کی تاریخ کی یہ آہٹیں، عہد ٹلنے کا انتظار کیے بغیر زمانہ حال میں ہی سنائی دے رہی ہیں۔ یہ آوازیں سپریم کورٹ سے ابھی سے سنائی دے رہی ہے کہ فیصلے کا ملبہ ہم پر نہ ڈالیں۔سپریم کورٹ سے لیول پلیئنگ نہ دینے کی درخواست واپس لیتے ہوئے لطیف کھوسہ نے مزیدواضح کیا کہ ”ہم نے جس جماعت سے اتحاد کیا اس کے سربراہ کو اٹھا لیا اور پریس کانفرنس کروائی گئی، اتحاد کرنے پر بھی اب ہم پر مقدمات بنانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، آپ کے فیصلے سے ہمیں پارلیمانی سیاست سے نکال دیا گیا، آپ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے لوگ آزاد انتخابات لڑیں گے، عدالت کے فیصلے سے جمہوریت تباہ ہو جائے گی“۔چیف جسٹس نے کہا کہ ”لیول پلیئنگ فیلڈ پر ہم نے حکم جاری کیا تھا، عدالت حکم دے سکتی ہے حکومت نہیں بن سکتی“۔ یہ عجیب بات ہے کہ سپریم کورٹ اپنے ہی فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے پر کس طرح ہاتھ کھڑے کر رہی ہے؟جسٹس مسرت ہلالی نے اس موقع پر وکیل لطیف کھوسہ سے سوال کیا کہ”آپ بتا رہے تھے کہ آپ نے کسی جماعت سے اتحاد کیا ہے“؟وکیل لطف کھوسہ نے جواب دیا کہ ”میں وہی تو بتا رہا ہوں کہ ہمیں اتحاد بھی نہیں کرنے دیا گیا“۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ”الیکشن کمیشن فیئر نہیں ہے، الیکشن کمیشن ایک پارٹی کے پیچھے بھاگ رہا ہے، الیکشن کمیشن کو دوسری جماعتیں نظر نہیں آتیں“؟حیرت انگیز بات یہ ہے یہی معاملہ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کا بھی تھا، جس میں الیکشن کمیشن نے دوسری جماعتوں کے بجائے صرف تحریک انصاف کو تنہا ایک کیس بنایا۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے وکیل بیر سٹر علی ظفر نے بلے کے انتخابی نشان کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کو ثبوتوں کے ساتھ بتایا تھا کہ الیکشن کمیشن نے جو مقدمہ تحریک انصاف پر قائم کیا وہی صورت حال باقی جماعتوں کی بھی ہے۔ جب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب جمہوریت کی روح کی بھی روح کھنگالتے ہوئے پارٹی کے اندر ”بلامقابلہ انتخابات“کے نکتے کو بار بار، بتکرار، بصد اِصرار اُجاگر کر رہے تھے تو بیرسٹر علی ظفر نے اس موقع پر مسلم لیگ نون کے انٹر ا پارٹی انتخابات میں نوازشریف کے بلامقابلہ منتخب ہونے کی دلیل پیش کردی جس پر چیف جسٹس نے پہلو بچاتے ہوئے کہا کہ ”وہ بات چھوڑیں“۔ جسٹس مسرت ہلالی صاحبہ کو یہی بات تب بھی تو سمجھائی جا رہی تھی، مگر اب وہ یہی بات ان ریمارکس کی صورت میں کہہ رہی ہے کہ ”الیکشن کمیشن فیئر نہیں ہے، الیکشن کمیشن ایک پارٹی کے پیچھے بھاگ رہا ہے“۔ درحقیقت ججز اپنے ریمارکس سے نہیں اپنے فیصلوں سے تاریخ میں اچھے یا بُرے الفاظ میں یاد رکھے جاتے ہیں۔جن ریمارکس کو کسی معاملہ پر اثرانداز نہیں ہونا اسی کی قدروقیمت کیا ہو سکتی ہے۔ مگر یہ ریمارکس کسی فیصلے میں جھلک کر سامنے آتا تو ملک کی کوئی راہ متعین ہوتی۔سپریم کورٹ کو بہت جلد یہ اندازہ ہو جائے گا کہ وہ کس طرح خود اپنی ہی زندگی سے دستبردار ہوا ہے؟مگر تحریکِ انصاف نے بغیر کسی گھن گرج اور شور شرابے کے عملاً سپریم کورٹ پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے۔ یہ سنگین حقیقت چیف جسٹس کے احاطہ ادراک میں ضرور بالضرور کچھ تو آ رہی ہوگی جو انہوں نے اس درخواست کی واپسی کا قدرے بُرا منایا اور یہ کہا کہ”لطیف کھوسہ صاحب یہ درست طریقہ کار نہیں ہے، آپ سینئر وکیل ہیں، آپ پاکستان کے سارے ادارے تباہ کر رہے ہیں“۔کیا چیف جسٹس صاحب یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ہم جو فیصلے جیسے بھی دیں، آپ اپنی ہی درخواستوں سے اس کا موقع ہمیں دیتے چلے جائیں؟کیا یہ رویہ اداروں کوتباہ نہ کرنے کی دلیل بنے گا؟ اس معاملے میں سپریم کورٹ کے ججز کیا کر سکتے تھے جب وہ خود ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم حکم دے سکتے ہیں، حکومت نہیں کرسکتے۔ اور جب اسی درخواست پر اُن کے پہلے حکم پر عمل درآمد ہی نہیں ہوا اور جس کا تماشا خود سپریم کورٹ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہ تمام متضاد پہلو آشکار کرتے ہیں کہ پاکستان میں قومی ادارے کیوں رفتہ رفتہ اپنا اعتبار کھوتے جا رہے ہیں؟ یہ بات جتنی جلدی قومی اداروں کی سمجھ میں آجائے تو اچھا ہے کہ سپریم کورٹ عدم اعتماد کے مسئلے سے دوچار ہونے لگی ہے اور مسئلہ پی ٹی آئی کا نہیں، نظام پر اعتماد کا ہے!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں