میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مفاہمت کے بادشاہ آصف زرداری دوبارہ صدر مملکت!!

مفاہمت کے بادشاہ آصف زرداری دوبارہ صدر مملکت!!

جرات ڈیسک
پیر, ۱۱ مارچ ۲۰۲۴

شیئر کریں

پیپلزپارٹی (پارلیمنٹیرین) کے صدراورحکمراں اتحاد کے امیدوار آصف علی زرداری بھاری مجموعی طور پر 411 الیکٹورل ووٹ حاصل کرکے پاکستان کے 14ویں صدر مملکت منتخب ہوگئے ہیں۔ آصف علی زرداری پیپلزپارٹی کے نامزد امیدوارتھے جنہیں حکومتی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (ن)،ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق)، استحکام پاکستان پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی حمایت حاصل تھی جبکہ سنی اتحاد کونسل نے محمود خان اچکزئی کو صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا۔گزشتہ روز حکمران اتحادی جماعتوں کی قیادتوں نے وزیراعظم شہبازشریف کی میزبانی میں منعقد ہونیوالی عشائیہ تقریب میں صدر کے انتخاب کے حوالے سے حکمت عملی بھی طے کی تھی اور صدر کے انتخاب کے بعد وفاقی کابینہ کے ارکان کا نئے صدر مملکت سے حلف دلوانے کا بھی فیصلہ کیا تھا۔ آصف علی زرداری پاکستان کی تاریخ کے پہلے سویلین صدر ہیں جو دوسری مرتبہ اس عہدے کے لیے منتخب ہوئے۔پارلیمنٹ سے آصف علی زرداری نے 255 ووٹ لیے، سنی اتحاد کونسل کے محمود خان اچکزئی کو 119 ووٹ ملے۔سندھ اسمبلی میں آصف علی زرداری کو 58 الیکٹورل ووٹ ملے جبکہ محمود خان اچکزئی کو 3 الیکٹورل ووٹ ملے۔خیبر پختونخوا اسمبلی میں محمود اچکزئی کو 40 اعشاریہ 80 الیکٹورل ووٹ ملے جبکہ آصف علی زرداری کو 7 اعشاریہ 62 الیکٹورل ووٹ ملے۔بلوچستان اسمبلی میں آصف زرداری نے تمام 47 ووٹ حاصل کیے، ان کے مقابل محمود خان اچکزئی کوئی ووٹ حاصل نہیں کرسکے۔
پاکستا میں صدارتی انتخاب براہ راست نہیں ہوتا، بلکہ سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین کا تو سنگل ووٹ ہوتا ہے لیکن صوبائی اسمبلیوں کے ووٹ برابر کرنے کیلئے تناسب مقرر کیا جاتا ہے اس کے حساب سے کم تعدادوالی اسمبلی کے اراکین کا ووٹ تو ایک شمار ہوگا تاہم اس سے زیادہ تعداد کی حامل اسمبلیوں کے ووٹ کم از کم والی نمائندگی کے تناسب سے متعین کیا جاتا ہے،چنانچہ پنجاب کے2.6اراکین کا ایک ووٹ تصور ہوتاہے۔قومی اسمبلی کے ایوان میں اراکین قومی اسمبلی کے علاوہ سینیٹ کے اراکین بھی اپنے ووٹ کاسٹ کیا جبکہ صوبوں کے لئے متعلقہ صوبوں کی اسمبلیوں کو پولنگ اسٹیشن بنایا گیا تھا۔ فریقین نے اپنی اپنی کامیابی کے لئے پورا پورا زور لگایا ہے، اتحادی جماعتوں اور خود آصف علی زرداری نے ایک بڑی اور معقول اکثریت سے منتخب ہونے کیلئے منصوبہ کرلی تھی جو درست ثابت ہوئی۔صدارتی انتخاب بھی جمہوری عمل ہے۔ تحریک انصاف نے احتجاج کرتے ہوئے بھی اس میں حصہ لیا اور میدان خالی نہیں چھوڑا۔ اس طرح پاکستان تحریک انصاف نے صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ کرکے ایک اہم جمہوری عمل سے خود کو علیحدہ کرنے کے بجائے مقابلہ کرکے ثابت کیا کہ وہ ملک میں جمہوری اقدار کو آگے بڑھانا چاہتی ہے اور اختلافات کو جمہوری عمل میں حائل نہیں ہونے دینا چاہتی،یہ یقینا ایک مثبت سوچ ہے جس کی پزیرائی کی جانی چاہئے اور نواز شریف اور شہباز شریف کو تحریک انصاف کو اس کے اس فیصلہ پر سراہنا چاہئے جبکہ صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے مفاہمت پسند ہونے کی شہرت کو قائم رکھنے کیلئے حکومت وقت کو جو ان کی پارٹی کی اتحادی ہے تحریک انصاف اور بانی تحریک عمران خاں کے خلاف سیاسی بنیاد پر قائم کئے گئے تمام مقدمات ختم کرنے اور عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی ضمانت کی درخواستوں کی مخالفت نہ کرنے پر آمادہ کرنا چاہئے،اس سے نہ صرف آصف زرداری کی اپنی ساکھ میں اضافہ ہوگا بلکہ اس سے ملک میں ایک مفاہمانہ ماحول قائم کرنے میں بھی مدد ملے گی جس کا فائدہ یقینی طورپر ان کی پارٹی کی اتحادی پارٹی کو بھی پارلیمان کا نظام چلانے اور ملکی معاملات میں اہم فیصلے کرنے میں مدد ملے گی۔
آصف علی زرداری کے انتخاب کے بعدڈاکٹر عارف علوی عہدہئ صدارت کی مدت پوری ہونے پر اب ایوان صدر سے رخصت ہو جائیں گے انھیں گزشتہ روز ایوان صدر میں الوداعی گارڈ آف آنر بھی دیا جاچکا ہے وہ اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد بھی فرائض انجام دیتے رہے ہیں کیونکہ کہ نئے صدر کے انتخاب تک یہ عہدہ خالی نہیں رکھا جاتا۔ اس طرح اب آصف علی زرداری کا دوردوبارہ شروع ہوا چاہتا ہے۔بظاہر صدرِ مملکت کا عہدہ ایک آئینی اور علامتی ہے،اختیارات کے حوالے سے صدر کی بے اختیاری واضح ہے،مگر اس کے باوجود اس عہدے پر متمکن ہونے والی شخصیت اگر چاہے تو اس کا وقار اور معیار بڑھا سکتی ہے۔ ماضی کے صدر ممنون حسین کے مقابلے میں ڈاکٹر عارف علوی نے کئی مواقع پر اپنے وجود کا احساس دلایا جس کی وجہ سے اُنہیں کبھی اپوزیشن اور کبھی خود حکومت کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔یہ سلسلہ آخر تک چلتا رہا، حتیٰ کہ جب موجودہ اسمبلی کا اجلاس بلانے کا وقت آیا تو صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اسمبلی نامکمل ہونے پر اجلاس بلانے کی سمری واپس بھیج دی،اس پر بڑی لے دے ہوئی اور یہ تک کہا گیا اس اقدام کی وجہ سے ڈاکٹر عارف علوی پر آرٹیکل 6لگ سکتا ہے۔آئین کا آرٹیکل 6بھی کمال ہے اس کا ذکر پسند ناپسند کی بنیاد پر ہوتا ہے۔90دنوں میں انتخابات کرانے کی آئینی شق پر عملدرآمد نہ کیا جائے تو کسی کو یہ آرٹیکل یاد نہیں آتا۔آئین کے تحت اسمبلی مکمل ہونے کی شرط کو بنیاد بنا کر کوئی فیصلہ دیا جائے تو یہی آئینی شق سب کو یاد آ جاتی ہے۔اس طرح یہ کہا جاسکتاہے کہ ڈاکٹر عارف علوی کا دورِ صدارت خاصا ہنگامہ خیز رہا۔اپنے آخری دنوں میں انہوں نے خاصے چونکا دینے والے خطاب کئے،جن میں ملک کو درپیش چیلنجوں کے بارے میں بتایا اور ساتھ ہی تنبیہ بھی کی کہ اگر ملک کو آئین اور جمہوریت کے تحت نہ چلایا گیا تو بڑا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔اس دور میں کہ جب تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریاں جاری تھیں، ایک خوف و ہراس کی فضا تھی،کوئی آواز اٹھانے کو تیار نہیں تھا تو ڈاکٹر عارف علوی نے آواز اٹھائی اور فیئر ٹرائل کے مواقع دینے کی بات کی۔9 ماہ سے جیلوں میں بند تحریک انصاف کی خواتین رہنماؤں کے لئے بھی وہ توجہ دلاتے رہے۔مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کی طرف سے انہیں ملک کی بجائے تحریک انصاف کا صدر بننے کے طعنے بھی دیے گئے،مگر وہ اپنی دھن میں مگن رہے۔انہوں نے متعدد بار عمران خان سے زمان پارک جا کر ملاقاتیں بھی کیں۔پی ڈی ایم کے دور میں انہوں نے متعدد بار اپنی موجودگی کا احساس دلایا اور کئی سمریوں پر اعتراضات لگا کے دستخط نہیں کیے۔اُن پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ انہوں نے تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے باوجود ڈپٹی ا سپیکر کے مبینہ غیر آئینی اقدام پر قومی اسمبلی توڑی۔ بعدازاں اُن کے اس حکم کو سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دیا۔ ڈاکٹر عارف علوی پر ان الزامات سے ظاہر ہوتاہے کہ پاکستان میں ہر برسر اقتدار سیاسی جماعت یا اتحاد اپنا من پسند اور ہم مزاج صدر لانا چاہتا ہے جبکہ آئین بنانے والوں کی منشاء یہ  تھی کہ ا سپیکر قومی اسمبلی،چیئرمین سینیٹ اور صدرِ مملکت غیر جانبدار عہدے ہیں،ان پر تعینات ہونے والی شخصیات کو اپنی پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر فیصلے کرنے چاہئیں لیکن یہ صرف آئینی خواہش ہی رہی اس پر عمل آج تک نہیں ہو سکا۔ اسپیکر قومی اسمبلی بھرپور جانبداری سے ایوان چلاتا ہے،اسی طرح چیئرمین سینیٹ بھی اپنے ممدوحین کی طرف واضح جھکاؤ رکھتا ہے، رہ گئے صدرِ مملکت تواس ملک کے عوام تو ایسے ایسے صدور دیکھ چکے ہیں جن کی بے بسی اب ایک حوالہ ہے۔چودھری فضل الٰہی کے بارے میں متعدد واقعات مشہور ہیں جن میں ایک واقعہ یہ ہے کہ ہر روز دیواروں پر کوئی یہ لکھا جاتا تھا،”صدر فضل الٰہی کو رہا کرو“۔اب اس میں اتنی صداقت ہے، اس سے قطع نظر یہ حقیقت ہے ہمارے کئی صدور بے بسی کی تصویر بنے ایوانِ صدر کو رونق بخشتے رہے۔نواز شریف نے کراچی کے ممنون حسین کو صدر بنایا تو انہوں نے صدر کے عہدے کی بے توقیری میں ایک تاریخ رقم کر دی۔ان کے بارے میں مشہور تھا وہ سانس بھی نواز شریف سے پوچھ کر لیتے ہیں،مگر یہ بھی ایک تلخ سچائی ہے کہ آخری دِنوں میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے قومی خزانے کی لوٹ مار اور کرپشن پر بعض ایسی باتی کیں جو براہِ راست نواز شریف کے خلاف جاتی تھیں، جنہیں سپریم کورٹ سے سزائیں ہو چکی تھیں تاہم حکومت کی کارکردگی پر انہوں نے کبھی کوئی سوال اٹھایا اور نہ کوئی سمری واپس کی۔یہ مانا کہ صدر کا عہدہ آئینی ہے۔اُس کے اختیارات محدود ہیں۔ انتظامیہ پر اُس کا براہِ راست کوئی کنٹرول نہیں،مگر اس کے باوجود وہ یہ ملک کا سب س بڑا آئینی عہدہ ہے۔ صدر مملکت اور کچھ نہیں تو حکومت کو گڈگورننس کے حوالے سے کوئی مشورہ تو دے سکتا ہے یا کم از کم ملک میں موجود خامیوں کی نشاندہی تو کر ہی سکتا ہے۔صدر ڈاکٹر عارف علوی کو اِس حوالے سے یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے ایوان صدر کو ایک قید خانہ سمجھنے کی بجائے ایک ذمہ داری سمجھا اور وہی کیا جسے وہ آئینی طور پر درست سمجھتے تھے۔انہوں نے بڑے نازک حالات دیکھے، جب عمران خان وزیراعظم تھے تو اُن کی حکومت یہ سمجھتی تھی کہ ایوانِ صدر میں اُس کا ایک سیاسی کارکن بیٹھا ہے۔ ورکنگ ریلیشن شپ کے حوالے سے بھی عمران خان اور ڈاکٹر عارف علوی میں مثالی تعلقات تھے۔ مشکل دور تب شروع ہوا جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور پی ڈی ایم کی حکومت بنی۔ ایک طرف عمران خان کو اُمید تھی ڈاکٹر عارف علوی ایوانِ صدر میں بیٹھ کے اُن کی نمائندگی کریں گے اور دوسری طرف حکومت چاہتی تھی اُس کے ہر فیصلے پر مہر لگاتے رہیں۔اس دور میں مواخذے کی باتیں بھی ہوئیں،مگر حکومت کے پاس مطلوبہ اکثریت ہی نہیں تھی اور دو اسمبلیاں بھی ٹوٹ چکی تھیں۔
اب دورشروع ہورہا ہے آصف علی زرداری کا۔ وہ دوسری مرتبہ ملک کے صدر بن چکے ہیں۔ اُن کا پہلا عہدہئ صدارت اِس لئے شاندار رہا کہ اُس وقت حکومت بھی پیپلزپارٹی کی تھی۔انہوں نے ایوانِ صدر میں بیٹھ کے سرکاری ملازمین کو تنخواہوں اور پنشنوں کی مد میں جو فائدہ پہنچایا، ملازمین آج بھی اُن کے گن گاتے ہیں۔آصف علی زرداری آئینی صدر تو ہوں گے لیکن غیر سیاسی صدر نہیں ہوں گے اور خیال اغلب ہے کہ وہ عام صدور کی طرح کے صدر بھی نہیں بنیں گے،کیونکہ وہ اپنے اختیارات بھی جانتے ہیں اور انہیں استعمال کرنا بھی۔نواز شریف اگر وزیراعظم ہوتے تو شاید کہیں نہ کہیں ٹکراؤ ہو جاتا،لیکن وزارتِ عظمیٰ پر شہباز شریف کی موجودگی کے باعث لگتا یہی ہے ہ معاملات بڑے  ہموار طریقے سے چلیں گے۔اس وقت نئے حکومتی سیٹ اپ کو سب سے بڑا چیلنج یہ درپیش ہے۔ان چیلنجوں سے بہتر انداز میں نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ 8 فروری کے انتخابی نتائج پر عوام کا اعتماد بحال کیا جائے اس کا سوائے اس کے اور کوئی طریقہ نہیں کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے۔آئی ایم ایف کی طرف سے اچھی خبریں نہیں آ رہیں اور لگتا ہے اگلے پروگرام سے پہلے حکومت کو مزید شرائط ماننی پڑیں گی اور مزید بوجھ عوام پر ڈالنا ہو گا۔پیپلزپارٹی کو صدر کا عہدہ مل گیا اور مسلم لیگ(ن) کو وزیراعظم کا۔ بظاہر تو اس کے بعد سیاسی استحکام آنا چاہئے، مگر تحریک انصاف سے مفاہمت کے بغیر استحکام کیسے آ سکتا ہے۔کیا آصف علی زرداری صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اس خلیج کو کم کرنے کی طرف توجہ دیں گے۔کیا  وہ واقعی مفاہمت کے جادوگر ثابت ہوں گے؟ اس پورے نظام کا انحصار اسی سوال کے جواب پر ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں