میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عمران خان کی سزا پر حکمرانوں کے شادیانے

عمران خان کی سزا پر حکمرانوں کے شادیانے

جرات ڈیسک
بدھ, ۹ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

بالآخر توشہ خانہ کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کو نااہل قرار دیتے ہوئے مجرم قرار دے دیا گیا۔ 3 سال قید 5 سال کے لیے نااہل بھی قرار دیا گیا ہے۔ ان پر ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی نے فیصلے کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔وکلا کاکہناہے کہ 3 سال کی سزا ایک کم سزا ہے، اس لیے عام طور پر کم سزا کو اپیل کے نتیجے میں آخری فیصلہ آنے سے قبل ہی معطل کر دیا جاتا ہے۔ وکلا کے مطابق جیل انتظامیہ نے ابتدا میں عمران خان کے وکلا کو ان سے ملنے نہیں دیاتھا جس کی وجہ سے وکلا کو ان سے وکالت نامے پر دستخط کرانے میں دشواری پیش آرہی تھی، جیل انتظامیہ کی جانب سے سیاسی قیدیوں کے حوالے سے یہ طرز عمل نیا نہیں ہے اکثر جیل انتظامیہ وکالت نامے پر دستخط کروانے میں تاخیری حربے استعمال کرتی ہے لیکن اگر ٹھوس وجوہات کی بنا پر کچھ کاغذات موجود نہ ہونے کی صورت میں جج اعتراضات کے باوجود کیس کو قابل سماعت قرار دے سکتا ہے۔چونکہ عمران خان کی سزا کم ہے اس لیے ایسے کیسسز میں اعلیٰ عدالتیں اس سزا کو عام طور پر معطل کر دیتی ہیں اس کے علاوہ عمران خان کے کیس میں کچھ شہادتیں ریکارڈ نہیں کی گئیں جو ان کی سزا کی معطلی کی درخواست کے لیے ایک اہم نکتہ ثابت ہو سکتا ہے جس کی بنا پر ہائی کورٹ ان کی سزا کو معطل کر سکتی ہے۔ اپیل کے فیصلے تک انتظار کی صورت میں سماعتوں میں 2-3سال تو لگ ہی جاتے ہیں اور سزا ویسے ہی پوری ہو جاتی ہے۔ اس لیے قوی امکان ہوتا ہے کہ سیشن کورٹ کے سزا والے فیصلے کو معطل کر دیا جائے اور عمران خان چند روز کے اندر ہی جیل سے باہر اور عوام کے درمیان واپس آجائیں،لیکن اس کے باوجود اہم بات یہ ہے کہ عمران خان پر مزید مقدمات بھی ہیں اور حکومت ان کی رہائی کے احکامات ملنے پر کسی بھی دوسرے مقدمے میں ان کی گرفتاری ڈال سکتی ہے، جس کی وجہ سے عمران خان کی رہائی میں مشکل پیش آسکتی ہے۔ جو کچھ عمران خان کے ساتھ ہوا ہے وہ کسی کے ساتھ پہلی مرتبہ نہیں ہوا اور ایسا لگ رہا ہے کہ آخری مرتبہ بھی نہیں ہوا ہے۔ یہ کھیل برسوں سے جاری ہے۔ پس پردہ قوتیں یہ کھیل کھیلتی ہیں اور سامنے بیٹھے کھلاڑی بدنام ہوتے ہیں۔ برسوں قبل ذوالفقار علی بھٹو کو استعمال کرکے ایوب خان سے چھٹکارا حاصل کیا گیا۔ بھٹو جان نہیں چھوڑ رہے تھے تو جنرل ضیا الحق آگئے اور حتیٰ کہ انہیں بھی راستے سے ہٹادیا گیا۔ لیکن جو کچھ سیاستدانوں کے ساتھ ہورہا ہے اس میں ان ہی کے بھائی استعمال ہوتے ہیں، نواز شریف کو ہٹانے کے لیے بے نظیر کو متبادل کے طور پر لایا گیا، الزامات ایسے ہی لگے پھر نواز شریف اور بے نظیر نے باریاں لگائیں، زیادہ باریوں کے سبب قوم اس کھیل کو سمجھنے لگی تو تبدیلی کا نعرہ لگایاگیا اور ان دونوں کو ان ہی کے ساتھیوں کی مدد سے ایسے ہی الزامات لگا کر کھیل سے باہر کردیا گیا۔ لوگوں کو یاد ہوگا کہ آف شور کمپنیوں کے الزامات میں صرف نواز شریف کو لپیٹا گیا باقی سارے لوگ محفوظ رہے۔ اس وقت کے فیصلے پر مسلم لیگ والوں نے عدالتوں اور فوجیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اسے متعصب ججوں کا فیصلہ قرار دیا تھا۔ حالات بدلنے پر نیا کھیل شروع ہوا اور توشہ خانہ کا شوشا چھوڑا گیا۔ اگرچہ اس معاملے میں یہ سب رنگے ہوئے ہیں لیکن لپیٹ میں صرف عمران خان کو لیا گیا۔ جس طرح آف شور کمپنیوں کے معاملے میں دیگر 400سے زائد لوگوں کو کلین چٹ دے دی گئی اسی طرح توشہ خانہ سے فائدے اٹھانے، غلط اعداد و شمار دینے والے دوسرے تمام لوگ پاک صاف قرار دے دیے گئے۔امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بجا طور پراس جانب توجہ دلائی ہے کہ توشہ خانہ سے فائدہ اٹھانے والے تمام افراد کو سمن جاری کیا جائے۔ توشہ خانہ ایسی چیز ہے جس سے پاکستانی حکمرانوں نے اندھا دھند فائدہ اٹھایا اور تمام ہی ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کے تحفے لیتے اور دوسروں کو منتقل کرتے رہے۔ لیکن پکڑا گیا تو عمران خان کو،لیکن جو سیاستدان آج عمران خان کے خلاف فیصلے پر خوشیاں منارہے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے اپنے ہاتھوں سے ان کے اپنے خلاف قوانین بنوا دیے گئے ہیں اب یہی قوانین ان کے خلاف استعمال ہوں گے۔ اس وقت یہ لوگ عدالت کو متعصب، نظام کو امریکی اور حکمرانوں کو ایجنٹ کہہ رہے ہوں گے۔اگرچہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد اب حکمراں اتحاد کے رہنما اور کارکن یہ تاثر پھیلا رہے ہیں کہ اب عمران خان کا چیپٹر ختم ہوگیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن تو اکثر یہ بیان دیتے رہے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں عمرانی باب ختم ہو گیا ہے، دراصل جب 2018 میں عمران خان کی حکومت قائم ہوئی تھی تو سب سے زیادہ شدت سے مولانا فضل الرحمن نے اس کی مخالفت شروع کی تھی۔ یہ صبح شام اٹھتے بیٹھتے اس اسمبلی کو جعلی اسمبلی کہتے تھے، اس لیے کہ کے پی کے میں 2018 کے انتخاب میں سب سے زیادہ سیاسی نقصان جے یو آئی کو ہوا تھا حالانکہ اور جماعتوں کو بھی اس کا نقصان ہوا تھا۔ جماعت اسلامی کے ارکان کی تعداد کم ہوگئی اور دیگر جماعتیں بھی کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کرسکی تھیں، لیکن چونکہ یہ صوبہ مولانا کی سیاست کا بیس کیمپ ہے جس طرح صوبہ سندھ پیپلز پارٹی اور صوبہ پنجاب ن لیگ کے بیس کیمپ ہیں۔ پھر مولانا نے اس جعلی اسمبلی کے خلاف اپنی سیاسی جدوجہد شروع کی۔ کئی روز پر مشتمل دھرنے بھی دیے۔ اب اسی جعلی اسمبلی کے ذریعے سے انہوں نے کے پی کے میں اپنے بھائی کو گورنر بنایا ہوا ہے۔ مرکز میں اپنے بیٹے کو وفاقی وزیر بنایا ہے اور کے پی کی70 فی صد صوبائی وزارتیں بھی جے یو آئی کے لوگوں کے پاس ہیں۔ لیکن اگلے عام انتخابات میں مولانا فضل الرحمان ایک دفعہ اندھیرے میں نظر آرہے ہیں جبکہ مختلف ذرائع سے کرائے گئے سروے رپورٹوں سے عمران خان کی حالیہ مشکلات جلد ہی ختم ہوجانے اور عام انتخابات میں ان کے مزید مضبوط ہو کر سامنے آنے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے اور یہی سروے رپورٹیں ہیں جن کی وجہ سے موجودہ اتحادی حکومت انتخابات میں ممکنہ طورپر تاخیر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں