میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ریلوے میں بڑے پیمانے پر چھانٹیوں کا خطرہ ‘ ایشیائی ترقیاتی بینک سے نیا قرضہ لے لیا گیا

ریلوے میں بڑے پیمانے پر چھانٹیوں کا خطرہ ‘ ایشیائی ترقیاتی بینک سے نیا قرضہ لے لیا گیا

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۹ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

صرف آٹھ دنوں میں حکومت کا ایشیائی ترقیاتی بینک سے قرضوں کے حصول کے لیے دوسرا بڑا معاہدہ خطرے کی گھنٹی ہے
ادارے کی آمدنی کا70 فیصد سے زیادہ حصہ ملازمین کی تنخواہوں پنشن اور دیگر مراعات میں خرچ ہوجاتاہے
پاکستان نے انتہائی خاموشی کے ساتھ ایشیائی ترقیاتی بینک سے 30 کروڑ ڈالر کے ایک نئے قرض کے حصول کیلئے معاہدے پر دستخط کردیے ہیں گزشتہ 8 دن کے اندر ایشیائی ترقیاتی بینک سے قرض کا یہ دوسرا بڑا معاہدہ ہے۔ قرض کے ان معاہدوں پر ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ژیائو ہونگ یانگ اور پاکستان کے اقتصادی امور ڈویژن کے سیکریٹری طارق پاشا نے دستخط کیے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق جون کی 21 تاریخ کو طے پانے والے اس معاہدے کے تحت ایشیائی ترقیاتی بینک سے ملنے والے قرض کی یہ رقم پاکستان کی ادائیوں کے توازن کے بڑھتے ہوئے فرق کو کم کرنے،بجٹ کے خسارے کو پورا یاکم کرنے اور زرمبادلہ کے کم ہوتے ہوئے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے ہے جو اطلاعات کے مطابق کم ہوکرگزشتہ ہفتے کے اختتام پر صرف 15.4 بلین یعنی 15ا رب 40 کروڑ ڈالر رہ گئے تھے۔
مذکورہ رقم پاکستان ریلویز کے عملے کو فعال بنانے اور حکومت کے زیر انتظام اداروں میں بہتر کارپوریٹ طریقہ کار رائج کرنے کے اقدامات پر خرچ کی جائے گی۔جبکہ اس قرض کے حوالے سے ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے جاری کردہ ہینڈ آئوٹ کے مطابق قرض کی یہ رقم پاکستانی حکومت کے زیر انتظام چلنے والے اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے ،ان میں شفافیت پیدا کرنے اور ان کومضبوط ومستحکم کرنے اور اصلاحات کیلئے فراہم کی جارہی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے جاری کردہ ہینڈ آئوٹ میں یہ بھی کہاگیاہے کہ پاکستان میں حکومت کے زیر انتظام بیشتر اداروںجن میں مجموعی طورپر کم وبیش 4 لاکھ افراد ملازم ہیںکی مالی حالت گزشتہ چند برسوں کے دوران حکومت کی جانب سے فراہم کی جانی والی وافر امداد کے باوجود انتہائی خستہ ہوچکی ہے،اور ان اداروں کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنے اوران کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے ان میں اصلاحات ضروری ہوچکی ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق قرض کی اس رقم سے حکومت کو اصلاحات کیلئے مالی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملے گی ، اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیاجاسکتاہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک سے یہ قرض حکومت کے زیر انتظام اداروں میں موجود ضرورت سے زائد ملازمین کو فارغ کرنے کے کسی پروگرام کے تحت حاصل کیاجارہاہے تاکہ حکومت کے زیر انتظام اداروںپر فاضل ملازمین کے بوجھ کو ختم کرکے ان کو مالی طورپر خود کفیل بنایا جاسکے ۔اگر ایسا ہے جس کا قوی امکان ہے تو اس کے نتیجے میں ملک میں جہاں پہلے ہی بیروزگاری کی شرح اس خطے کے دیگر بیشتر ملکوں سے زیادہ ہے بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوگا جس سے غربت میں کمی کے منصوبوں کو دھچکالگے گا اور فاقہ کش لوگوں کی موجودہ فوج ظفر موج میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ایشیائی بینک سے قرض کے حصول کا یہ تازہ ترین معاہدہ گزشتہ 8 دن کے دوران اس بینک سے قرض کے حصول کا یہ دوسرا بڑا معاہدہ ہے کیونکہ حکومت ایک ہفتہ قبل ہی ایشیائی ترقیاتی بینک سے توانائی کے شعبے میں اصلاحات نافذ کرنے کے نام پر30 کروڑ ڈالر کے قرض کے ایک معاہدے پر دستخط کرچکی ہے۔پاکستان نے ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ نئے قرضوں پر جس جلد بازی میں دستخط کیے ہیں ان سے ظاہرہوتاہے کہ پاکستان رواں مالی سال کے اختتام سے قبل ہی قرض کی یہ رقم حاصل کرنے کا متمنی ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک نے گزشتہ سال جون میں بھی پاکستان کو اس وعدے پر 600 ملین ڈالر یعنی 60 کروڑ ڈالر کا قرض فراہم کیاتھا کہ پاکستان مالیاتی شعبے میں نجکاری کے عمل کو انتہائی جدید تر بنائے گا،اور پاکستان میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں ،پاکستان اسٹیل ملز، اور پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز میں ضروری اصلاحات کرنے کے علاوہ ان کو سہارا دینے کیلئے ان میں مناسب سرمایہ کاری کو یقینی بنائے گا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے اس رقم کا نصف حصہ یعنی 30کروڑ ڈالرگزشتہ سال جون میں ہی جاری کردیاتھا ۔ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے حکومت کے زیر انتظام جن اداروں میں اصلاحات کے نام پر نیا قرض حاصل کیاہے، ان میں پاکستان ریلویز سرفہرست ہے ۔ یہ وہ ادارہ ہے حکومت نے جس کی نجکاری کے حوالے سے ابھی کسی عندیئے کا اظہار نہیں کیاہے اور اس ادارے کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔ایشیائی ترقیاتی بینک کے جائزے کے مطابق پاکستان ریلویز کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے گزشتہ کئی برسوں کے دوران کوئی کوشش نہیں کی گئی جس کے باعث اس ادارے کا تمام کام عمومی افرادی قو ت کے ذریعے چلایاجارہاہے جن کی تعداد اب بڑھتے بڑھتے 78 ہزار تک پہنچ چکی ہے جس کی وجہ سے اس ادارے کو اپنے ملازمین کو تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کیلئے سالانہ کم وبیش 375 ملین ڈالر یعنی کم وبیش 37 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے،اس طرح اس ادارے کی آمدنی کا70 فیصد سے زیادہ حصہ ملازمین کی تنخواہوں پنشن اور دیگر مراعات میں خرچ ہوجاتاہے،ایشیائی ترقیاتی بینک کاموقف یہ ہے کہ پاکستان ریلویز میں ملازم 78 ہزار افراد اس ادارے کانظام چلانے کیلئے درکار افرادی قوت سے بہت زیادہ ہے۔ اس جائزے کے ساتھ پاکستان ریلوے کی تنظیم نو اور اس ادارے میں اصلاحات کیلئے مزید 300 ملین ڈالر کا قرض فراہم کرنے پر ایشیائی ترقیاتی بینک کی رضامندی سے صاف ظاہرہوتاہے کہ ایشیائی ترقیات بینک نے یہ رقم ادارے میں موجود فاضل ملازمین کو فارغ کرکے اس ادارے کو مالی طورپر مستحکم کرنے کی یقین دہانی پر ہی دی ہے۔
وزارت خزانہ کے ذرائع نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حکومت نے پاکستان ریلوے کی تنظیم نو اور اس کیلئے درکار افرادی قوت کے حوالے سے ابتدائی خاکہ یا منصوبہ تیار کرلیا ہے اور غالب امکان ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے قرض کی رقم جاری کیے جانے کے فوری بعد حکومت ریلویز سے فاضل ملازمین کی چھانٹی کے کسی بڑے پروگرام کا اعلان کردے گی اور اگر ملازمین نے بخوشی سبکدوشی کاپیکیج قبول نہیں کیاتو انھیں زبردستی سبکدوش کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔پاکستان ریلویز کے ایک ذریعے نے بتایا کہ حکومت نے پاکستان ریلویز میں نفری کم کرنے کے ایک غیر اعلانیہ پروگرام پر پہلے ہی سے عمل شروع کررکھاہے ،اور اب ریٹائر ہوجانے یا فوت ہوجانے والی ملازمین کی جگہ نئی بھرتیاں بالکل بند کردی گئی ہیںاور اب ایشیائی ترقیاتی بینک سے قرض کی رقم ملتے ہیں پاکستان ریلوے میں بڑے پیمانے پرچھانٹیوں اورفاضل ملازمین کوفارغ کرنے کاسلسلہ شروع کردیاجائے گا۔جبکہ ایک اور اطلاع کے مطابق حکومت کے قریبی حلقوں نے حکومت کو یہ مشورہ دیاہے کہ پاکستان ریلویز سے فوری طور پر فاضل ملازمین کو فارغ کرنے کا سلسلہ شروع نہ کیاجائے کیونکہ اس وقت جبکہ حکومت پہلے ہی مختلف مسائل میں گھری ہونے کی وجہ سے شدید دبائو میں ہے وہ ریلوے ورکرز کی کسی احتجاجی تحریک کو برداشت کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔واقف حال حلقوں کے مطابق حکومت کے قریبی حلقوں نے وزیر اعظم کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اگر ریلوے کے فاضل ملازمین کو جبری فارغ کرنے کی کوشش کی تو وہ لازما ً اس فیصلے کی مزاحمت کریں گے اور دیگر سرکاری اداروںجن میں پی آئی اے سر فہرست ہے کہ ملازمین بھی ان کی حمایت میں سڑکوں پر آنے میں دیر نہیں لگائیں گے اوراپوزیشن جماعتوں کو جنھیں حکومت کے خلاف لوگوں کو سڑکوں پر لانے میں دشواریوں کاسامنا ہے اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کیلئے فوری طورپر ان کی حمایت کااعلان کردیں گی۔ اس طرح سڑکوں پر اور اسمبلی کے ایوانوں دونوں جگہ حکومت کو انتہائی نازک صورت حال کا سامنا کرنے پرمجبور ہونا پڑے گا جس سے پہلے ہی سے ڈانواڈول اس حکومت کیلئے اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہوجائے گا۔
ایشیائی ترقیاتی بینک ، آئی ایم ایف یا عالمی بینک سے قرض کا حصول کوئی انوکھی بات نہیں ہے دنیا کے تمام ترقی پزیر کم وسیلہ ممالک اپنے عوام کو سہولتوں کی فراہمی اور مختلف شعبوں کی کارکردگی بہتر بناکر ان کی کارکردگی بڑھانے کیلئے قرض حاصل کرتے رہتے ہیں لیکن اصل تشویش اس بات پر ہے کہ ہماری موجودہ حکومت جس تیزی سے قرض پر قرض حاصل کررہی ہے اس کی ادائیگی کس طرح کی جائے گی اور اس قرض پر محض سود اور سروس چارجز وغیرہ ادا کرنے کیلئے ہمیں اپنی مجموعی ملکی پیداوار کاکتنے فیصد حصہ مختص کرنا پڑے گا اور مجموعی ملکی پیداوار کا ایک بڑا حصہ قرضوں پر سود اور سروس چارجز وغیرہ کی ادائیگی پر خرچ کرنے کے بعد عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کیلئے رقم کہاں سے آئے گی اور قرض پر قرض حاصل کرنے کا یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا۔یہاں سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے محدود وسائل اس طرح بے تحاشا بھاری قرضوں کا بوجھ برداشت کرنے کیلئے کافی ہیں،کیا ہمارے ملک میں ایسی کچھ چیزیں تیار ہورہی ہیں جن کی بیرون ملک زبردست مانگ ہے اور ہم ان کی پیداوار میں اضافہ کرکے قرضوں پر واجب الادا سود ادا کرسکیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں