میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مجدد کی تعریف اور اس کی ضرورت

مجدد کی تعریف اور اس کی ضرورت

جرات ڈیسک
جمعه, ۸ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی

حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ تفہیمات الہیہ میں مجدد کی تعریف میں فرماتے ہیں: مجدد وہ شخص ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن وحدیث کے علم میں خاص مقام عطا فرمایا ہو اور اس کو وقار اورسکینت سے مزین کیا ہو، وہ حرام ووجوب، مکروہ، استحباب واباحت سب کو ان کے مقامات پر رکھے، شریعت کو احادیث موضوعہ سے اور غلط قیاس کرنے والوں کے قیاس سے پاک صاف فرما دے، وہ ہر افراط وتفریط سے پاک کرے، اللہ تعالیٰ اس کی طرف لوگوں کے قلوب کو متوجہ کر دے، اس سے لوگ آکر اپنی علمی پیاس بجھائیں، حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں:مأۃ کا لفظ تخمین کے لیے ہے،تعیین کے لیے نہیں ہے، پھر اس کا اعتبار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سے کیا جائے گا، مجددیت سے سب سے قریب قدماء محدثین کی جماعت ہے، جن میں امام بخاری وامام مسلم اور ان جیسے محدثین شامل ہیں۔ (التفہیمات الالہیہ:1/40)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:إن اللہ یبعث لھذہ الأمۃ علی رأس کل ماءۃ سنۃ من یجدد لھا دینھا.(اخرجہ أبوداود:4291) اس حدیث کی تخریج کی مزید تفصیلات بذل المجھود(12/366) کے حاشیہ میں موجود ہے۔
عام طور پرلوگوں کے ذہن میں اس طرح آتا ہے کہ من سے مراد علمائے امت سے کوئی ایک شخصیت ہو گی جو اپنے زمانے میں دین کی تجدید ونصرت میں امتیازی شان رکھتی ہو گی، اسی طرح سنت کو رائج کرنے اوراس کو طاقت پہنچانے میں اوربدعت کا قلع قمع کرنے میں اور اس کے راستے بند کرنے میں غیر معمولی کام انجام دے گی، وہ علم دین کی اشاعت کرے گی، ان کارناموں کو دیکھ کر بہت سے لوگوں نے یہ مقرر کیا کہ فلاں شخصیت پہلی صدی کی مجدد ہے، لیکن صاحب جامع الاصول نے لفظمن کو ایک شخص کے بجائے پوری جماعت پر اطلاق کرنے کو بہتر قرار دیااو رکہتے ہیں:اگرچہ لفظ من واحد وجمع دونوں پر اس کا اطلا ق ہوتا ہے، اس لیے مجدد کا اطلاق صرف فقہاء ہی پر نہیں، بلکہ اس سے قراء ومحدثین وزہاد وغیرہ بھی مراد لیے جائیں گے، ان میں سے جس عالم نے اپنے فن میں غیر معمولی خدمت کی ہو، صحیح وسنت کا راستہ پیش کیا ہو، لیکن اگر اس کو تمام عالم کے لیے عام کر دیا جائے کہ ہر زمانے میں ایک مجدد یا کئی مجددین رہتے ہیں تو یہ بھی ممکن ہے۔
حدیث شریف میں آیا ہے:علی رأس کل ماءۃ سنۃ ہر صدی کے اخیر میں، اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ یہ مدت ختم ہو جانے کے بعد دوسرا مجدد آئے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے، لہٰذا اس دین کی بقا کے لیے، قیامت تک محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انتظامات کر دے گئے ہیں او رامت اسلامیہ کو اس پیشین گوئی کے ذریعہ آگاہ کرکے مطمئن کر دیا گیا، بعض اہم انتظامات کی خبر قرآن کریم میں ہے، بعض کی احادیث صحیحہ میں آیا ہے۔
مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں علماء نے مستقل تصانیف کی ہیں، حافظ ابن حجر کی کتاب:الفوائد الجمۃ فیمن یجدد الدین لھذہ الأمۃ اور علامہ جلال الدین سیوطی کی کتاب:التنبیہ بمن یبعثہ اللہ علی رأس کل ماءۃ موجود ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ ہر صدی کے شروع یا اخیر میں مجددین پیدا ہوں گے تو درمیان صدی میں کیا ہوگا؟ اس میں اگر باطل پرست اسلام کے خلاف سازش کرنے لگیں یا بدعتوں کو پھیلانے لگیں اورسنتوں کو مٹانے لگیں، حدیث شریف میں آیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس میں بھی اس مجدد کے تلامذہ اور اس سے وابستہ جماعت باقی رہے گی جو دین کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کرتی رہے گی:لا تزال طائفۃ من أمتی ظاہرین علی الحق لا یضرھم من خذلھم. (صحیح مسلم:1920)
یعنی ہر زمانے میں ایک جماعت موجود رہے گی جو دین کی حفاظت کرتی رہے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ صدی کے اندر بھی سلف کے خلف یعنی جانشین موجود رہیں گے، صدی کے اندرونی حصے اور درمیانی حصے میں کوئی ایسا زمانہ نہیں ہو گا کہ امت کے سلف کے نمونہ نہ ملیں، بلکہ ضرور ملیں گے، جو مؤید من اللہ ہیں، جیسا کہ حدیث بالا سے ثابت ہے۔ یہ اس نبی کی امت ہے، جس کے دین کی بقا کا قیامت تک وعدہ ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:(إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ).(الحجر:9)
ترجمہ:ہم نے قرآن کریم کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں تو جس طرح شریعت کو آپ پر ختم کر دیا گیا تو ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ فتنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ایسی شخصیتیں پیدا کرتا رہے گا جو دین کے چشمہ صافی کو گرد وغبار سے صاف کرکے اصلی صورت میں باقی رکھیں گے، اس لیے جس زمانے میں مجدد یا مصلح کی ضرورت ہو گی اللہ تبارک وتعالیٰ پیدا کرتا رہا ہے، وہی اس دین کا محافظ وپاسبان ہے، اس پر اسلام کی تاریخ شاہد ہے۔ایک حدیث شریف میں حضو راکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:یحمل ھذا العلم من کل خلفٍ عدولہ، ینفون عنہ تحریف الغالین، وانتحال المبطلین، وتأویل الجاھلین.(اخرجہ البیہقی:10/209)
ترجمہ: اس علم کے ہر نسل میں ایسے عادل ومتقی حامل ووارث ہوں گے جو اس دین سے غلو پسند لوگوں کی تحریف، اہل باطل کے غلط انتساب ودعوے او رجاہلوں کی دور ازکارتاویلات کو دور کرتے رہیں گے۔یعنی اسلام کو تحریف وغلط انتساب، جاہلانہ تاویلات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں گے، یہ سلسلہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سے ہر صدی اور عالم اسلام کے بڑے بڑے ملکوں میں جار ی ہے۔
بے شک جتنا زمانہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے دور ہوتا جائے گا وہ پہلے کے مقابلے میں بد تر زمانہ ہو گا، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت وارد ہے:لا یأتی علی أمتی زمان إلا الذی بعدُ شر منہ. (صحیح بخاری:7068)
یعنی: میری امت پر جو زمانہ آئے گا اس سے گزرے ہوئے زمانے سے بدتر ہو گا۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:آنے والے سالوں میں کوئی ایسا سال نہیں ہو گا جس میں لوگ بدعت جاری کریں گے، سنتیں مٹائیں گے اور بدعت کو زندہ کریں گے؛ اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ ان بدعتوں کو مٹانے کے لیے او راسلام پر جو گردوغبار آجائے گا اسے صاف کرنے کے لیے مجددین ومصلحین پیدا کرتا رہے گا۔ (المعجم الکبیر:4/50، رقم:11962)
ملا علی قاری مرقاۃ میں یہ فرماتے ہیں: بمن یجدّد سے مراد شخص واحد نہیں ہے، بلکہ ان سب کی ایک جماعت مراد ہے؛ بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مجددین کی ایک جماعت ایک ہی زمانے میں موجود رہے۔ ان میں سے ہر شخص کسی شہر میں علوم شرعیہ میں سے کسی خاص فن کی تجدید کرتا ہو اور علوم شرعیہ میں سے جس کی ضرورت تھی تحریراً تقریراً رواج دے رہا ہو اور یہ شخص علوم شرعیہ کے بقا کا سبب بن جائے، تاکہ دین کم زور نہ ہو سکے او رنہ اسے کوئی مٹا سکے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آجائے۔
بے شک دین کی تجدید اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے ہوتی رہی ہے؛ کیوں کہ علم شرعی زوال پذیر ہے اور جہالت میں اضافہ وترقی ہے، زمانہ میں علماء کی ترقی کا معیار زمانے میں علم کے زوال سے وابستہ رہے گا، بے شک متقدمین اور متاخرین کے علم وفضل اور تحقیق وتدقیق میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بُعد زمانہ کی وجہ سے بہت دوری رہے گی۔ متقدمین کے فضل ومقام کا اعتراف کرنا او ران کی برکات کو تسلیم کرنا ضروری ہے، انہوں نے ہمارے لیے علوم شرعیہ کو محفوظ کر دیا، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو۔ (مرقاۃ المفاتیح:1/507)لیکن اس زمانے کے لحاظ سے مجددین ومصلحین کا سلسلہ باقی رہے گا۔
حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ نے ابوداؤد شریف کی تقریر جو حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے سن کر نقل کی ہے اس میں یہ فرمایا:قولہ:من یجدد لھا دینھا یعنی اس امت میں کچھ خاص افراد ہوں گے جو دین کی تجدید کافریضہ انجام دیں گے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ کوئی ایک ہی شخص ہو گا، اگرچہ یہ بھی بعض علماء کی رائے ہے، کیوں کہ ہماری توجیہ کے مطابق بہت سے ایسے افراد اس امت میں گزرے ہیں، جو تجدید دین کے شرف سے مشرف ہیں، ان میں سے کسی کی تجدید دین کسی ایک ہی نوع میں ہے، مثلاً بہت سے ایسے محدث ہیں جنہوں نے علم حدیث میں کارنامہ انجام دیا، لیکن فقہ میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے اور بہت سے ایسے افراد ہیں جن کا کارنامہ مشہور ہے، انہوں نے تجدیدی کام انجام دیا ہے، لیکن یہ ضرور ی نہیں کہ ان کی شہرت او ران کا فیض عالمی ہو۔ لیکن جو بات ہم کہہ رہے ہیں اس سے یہ بات سہل ہے کہ کلمہ من سے ایک شخص مراد نہیں ہے، ہاں! اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کبھی ایک شخص کی تاثیر باطنی غیر معمولی ہو، اس کا فیض عام ہو، جس کا ہمیں احساس نہ ہو، اسی طرح یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مختلف ملکوں میں ہر صدی میں ایک ایک مجدد پیدا ہو۔ (بذل المجھود:12/337،338)
دین کی تجدید یہ امراضافی ہے، کیوں کہ علم میں ہر ساعت تنزلی ہے اورجہل میں ہر ساعت ترقی ہے، ہمارے زمانے کے علماء کی ترقی کا اس اعتبار سے لحاظ کیا جائے گا جس طرح سے علم میں گراوٹ ہے، اس دور کے اعتبار سے ان کے تجدیدی کام کا اعتبار کیا جائے گا، جیسے روشنی کے مرکز سے جتنی دوری ہو گی اسی لحاظ سے اندھیرا نظر آئے گا، جیسا کہ بخاری شریف میں روایت ہے۔
یہاں یہ شبہ پیدا ہو رہا ہے کہ ہر صدی کے سرے پر ایک مجدد پیدا ہوتا ہے،لیکن جیسا کہ ہم نے بتایا کہ محققین کے یہاں لفظ من میں عموم ہے، اس سے ایک دو اور چند بھی سمجھے جاسکتے ہیں کہ ایک ہی وقت میں کئی بزرگوں کو مجدد مانا جائے اور حدیث علی رأس کل ماءۃ سنۃ ہر صدی کے سرے پر، ابتدا اور انتہا دونوں پر بولا جاتا ہے۔ صدی کے سرے پر مجدد کی پیدائش کا ہونا ضروری نہیں، بلکہ اس وقت اس کے تجدیدی مشن کا آغاز ہوتا ہے، جسے حدیث میں بعث کے لفظ سے بتایا گیا، خود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پیدائش کے 40 سال بعد مبعوث ہوئے اوراس کا واضح کرنا ضروری ہے کہ حدیث کا لفظ یجدد دین سے رسوم وبدعات اور فسادات کو دور کرکے اصل دین کو چمکا دے گا، اس لیے مجدد کی بڑی پہچان یہ ہے کہ خواص اس کو پہچان لیں اور عوام علماء کے بتانے سے جان لیں، اس کی تعلیم وتلقین، جدوجہد اور اس کے کارنامے خود شہادت دیں گے کہ یہ مجدد ہیں۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ
یہاں جو شبہ پیدا ہوتا تھا کہ ہر صدی کے شروع یا اخیر میں ایک مجدد آئے گا اس غلط فہمی کا ازالہ کردیا گیا ہے، ہو سکتا ہے درمیان صدی میں کوئی مجدد آجائے، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:ماءۃ سنۃ کی قید تخمین ہے، تعیین نہیں ہے، مثلاً حضرت شاہ و لی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ کے بعد حضرت سیداحمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کو مجدد مانا گیا ہے، درآنحالیکہ ان کی وفات1176ھ میں او ر حضرت سیداحمد شہید کی ولادت1201ھ اور شہادت1246 میں ہے، بعض اکابر نے حضرت شاہ اسماعیل شہید کو مجدد مانا ہے،یہ دونوں حضرات بھی صدی کے اندر ہیں،ا گرچہ جمہور علماء کی شہادت یہ ہے کہ حضرت سیداحمد شہید رحمہ اللہ مجدد ہیں او ران کے اصحاب وخلفاء ان کے تجدیدی کارنامے میں شریک ہیں، اس طرح کی تفصیلات تاریخ اسلام میں ملتی ہیں، جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔

نبی او رمجدد کی دعوت میں فرق
نبی اور مجدد کی دعوتوں میں نوعیت کا فرق ہے، نبی ہر شخص کو اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے، نبی پر ایمان لانا جزء ایمان ہے، جس کے بغیر کوئی مومن نہیں ہوسکتا، لیکن مجدد اپنی شخصیت کی دعوت نہیں دیتا، یہاں تک کہ مجدد کو مجدد ماننا ایمان کا ادنی جز بھی نہیں ہے، اس لیے نبی کو اپنا نبی ہونا یقینی اور قطعی طور پر معلوم ہوتا ہے، اس کو اللہ کی تعلیم وحی کے ذریعے دی جاتی ہے، مجدد کا اپنا مجدد ہونا ظن اور تخمین سے زیادہ معلوم نہیں ہوتا، بلکہ اگلے زمانے کے مجددین کا مجدد ہونا بالعموم ان کی وفات کے بعد ان کے کارناموں اور مساعی سے خواص امت پر ظاہر
ہوا، اس کے بعد لوگوں نے مانا۔ البتہ حضرات انبیاء علیہم السلام کو ان کا منصب نبوت اللہ کی طرف سے دہبی ہوتا ہے، جس کے لیے غیبی انتخاب سے افراد چنے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جس طرح قرآن کریم نے انبیاء علیہم السلام کے لیے بعث من اللہ کا لفظ استعمال کیا ہے، جیسے:(ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّینَ رَسُولًا مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ).سورۃ االجمعہ:2)
ٹھیک اسی طرح حدیث نبوی نے مجددین کے لیے بھی بعث من اللہ کا لفظ استعمال کیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ نبوت اصل ہے اور تجدید اس کا ظل ہے، یہاں الہام قطعی ہے،اس کو وحی کہتے ہیں، وہاں ظنی ہے۔ نبی کا منکر خارج عن الاسلام ہے، مجدد کا منکر خارج عن الاصلاح والتقویٰ ہے، مجدد علم اورعمل کے لحاظ سے نبی کا سایہ، اخلاق ِ وعمل کے اعتبار سے نبی کا نمونہ ہوتا ہے، بہرحال مجددیت نبوت کا ایک نہایت روشن ودرخشاں پرتو ہے۔ (علماءِ ہند کا شان دار ماضی، ارشادات حضرت قاری محمد طیب صاحب:1/146)
امت میں مختلف ادوار وزمانہ گزرتے رہے ہیں،جس قسم کے فتنوں کا ظہور ہوتا رہا اسی قسم کے اصلاحی طریقوں کے لیے مجددین مبعوث ہوتے رہے، بہرحال ہر مجدد کے متعلق اس کے کارناموں کو دیکھ کر کہ اس کی تعلیم وتلقین کس قدر موثر او رمفید ہوئی، اس کی شخصیت کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ چناں چہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے پہلی صدی ہجری کی خاتمہ کا مجدد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ المتوفی 101ھ کو اور دوسری صدی کا حضرت امام شافعی رحمہ اللہ متوفی204ھ کو مجدد مانا ہے۔
شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:مجدد میں سارے خیر کی صفات کا جمع ہونا ضروری نہیں، یہ ضرور ی نہیں کہ ایک ہی شخص میں سارے کمالات پائے جائیں، اس سے مستثنیٰ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ہیں، جو سارے صفات کے حامل تھے، وہ پہلی صدی میں حکومت کے امیر المؤمنین تھے، عدل وانصاف کا نظام قائم کیا تھا، ان کے بعد امام شافعی کا دور آیا،اگرچہ وہ تمام صفات حسنہ سے متصف تھے،لیکن وہ کسی حکومت کے حاکم نہیں تھے کہ جہاد کا حکم دیتے اور عدل کا نظام قائم کرتے۔ علی کل حال جس شخص میں کوئی ایک صفت ان صفات میں سے پائی جائے جو مجدد کے لیے بتائی گئی ہیں اس کا شمار بھی مجددین میں ہو گا، خواہ ایک شخص ہو یا کئی اشخاص ہوں۔
ہندوستان میں دسویں صدی کے خاتمہ پر مجدد حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی رحمہ اللہ ہیں او رگیارہویں صدی میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ، ان کے بعد ایک جماعت نے حضرت سید احمد شہید رحمہ اللہ کو اس منصب کا اہل تسلیم کیا ہے، بعض لوگوں کا خیا ل ہے کہ حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ اس صدی کے مجدد ہیں، واللہ اعلم۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں