میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
فاٹابل پر حکومت کانامناسب رویہ

فاٹابل پر حکومت کانامناسب رویہ

منتظم
هفته, ۲۳ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

اپوزیشن جماعتوں نے فاٹا اصلاحات کا بل ایجنڈے پر نہ لانے کے خلاف گزشتہ روز 9 ویںدن بھی قومی اسمبلی اجلاس سے واک آئوٹ کیا۔ سینیٹ و قومی اسمبلی میں وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کی طرف سے جمعرات کو بل پیش کرنے کے اعلان کی پاسداری نہیں کی گئی جس پر اپوزیشن کی طرف سے حکومت پر فاٹا اصلاحات کے معاملے پر مسلسل انحراف کرنے کا الزام عائد کیا گیا ،گزشتہ روز جب قومی اسمبلی کااجلاس شروع ہواتو وزیر سیفران کے ایوان میں کیے گئے واضح اعلان کے باوجود فاٹا اصلاحات کا بل قومی اسمبلی کے ایجنڈے پر نہیں تھا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے کہا کہ حکومت مسلسل وعدے کی پاسداری سے روگردانی کر رہی ہے۔ حکومت اپنے اعلانات سے انحراف کر رہی ہے۔ قبائلی عوام کو آئینی قانونی حقوق دینے میں کیا رکاوٹ ہے۔ حکومتی انحراف پر ایوان میں نہیں بیٹھ سکتے۔ ان کے اعلان پر تمام اپوزیشن جماعتوں کے ارکان لابی میں چلے گئے۔ اس دوران پی پی پی کے رکن رمیش لال نے کورم کی نشاندہی کر دی ا سپیکر نے گنتی کروائی کورم پورا نہیں تھا جس پر اسپیکر نے کورم پورا ہونے تک کارروائی کو معطل کر دیا۔اس موقع پر وزیر سیفران نے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ یہ کہہ کر حکومت کی کاریگری پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی کہ جلد بازی سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا مشاورت کے بعد بل منظوری کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔ وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ مشاورت جاری ہے۔ بل جلد قومی اسمبلی میں پیش ہو جائے گا۔ وہی فیصلہ ہو گا جو ملکی اور قبائلی عوام کے مفاد میں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ قبا ئلی عوام کو بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح مساوی حقوق ملیں گے۔ فاٹا اصلاحات کا اقدام مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اٹھایا ہے اور یہ کریڈٹ کسی اور کو نہیں لینے دیں گے۔ یہ اپوزیشن نہیں حکومت کا بل ہے جلدبازی سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی سید نوید قمر نے کہا کہ قومی خزانے سے بھاری رقم ایوان پر خرچ ہوتی ہے لیکن کچھ حاصل نہیں، قومی اسمبلی ایجنڈے سے فاٹا سے متعلق نکات راتوں رات نکال لیے جاتے ہیں.انہوں نے کہا کہ حکومت کے وزیر نے خود تسلیم کیا کہ دھرنے پر حکومت تنہا ہوگئی، حکومت کو تنہا رہ جانے کے معاملے سے سبق سیکھنا چاہیے۔اپوزیشن کے واک آؤٹ کے دوران وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا بل پر تھوڑا سا موقع اور دے دیں ، اپوزیشن نے صرف فاٹا پر ایک نکتہ ذہن میں رکھا ہوا ہے، فاٹا بل میں مزید تاخیر نہیں کریں گے اور جلد پیش کردیا جائے گا۔عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ اپوزیشن کی تین بار حکومت آئی انہیں کبھی فاٹابل لانے کی توفیق نہیں ہوئی، فاٹا کے لوگوں کو جو حقوق ملنے ہیں مل جائیں گے۔
فاٹا سات ایجنسیوں پر مشتمل ایک بڑا علاقہ ہے، ماضی میں فاٹا کو” علاقہ غیر” بھی کہا جاتا تھا، پاکستان کے قیام کے بعد اس خوبصورت علاقے کی ترقی وتعمیر کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی تھی، حالانکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک سے زائد مرتبہ کہا تھا کہ قبائلی علاقوں کی ترقی کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہئے، لیکن قائد اعظم مشکل سے ایک سال زندہ رہے، اگر انہیں اللہ پاک کی طرف سے طویل حیات ملتی تو یقینا فاٹا ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا اور اس کووہ سہولتیں اور مراعات ملتیں جو پاکستان کے دوسرے علاقوں کو میسر ہیں ، موجودہ حکومت نے دیگر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ملکر یہ فیصلہ کیا تھا کہ فاٹا کو کے پی کے(خیبر پختون خواہ) میں ضم کردینا چاہئے، اس سلسلہ میں سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں ہر پارٹی کا نمائندہ شامل تھا، اس کمیٹی کے سامنے دو اہم ایشوز تھے، پہلایہ کہ فاٹا کو ایک علیحدہ صوبے کا درجہ دے دیا جائے، یا پھر اس کوکے پی کے ساتھ ملا دیا جائے، اکثریت کی رائے یہ تھی کہ اس کوکے پی کے ساتھ شامل کرکے اس میں اصلاحات کا عمل کیاجاناچاہئے، ابتدا میں فاٹا کو 5سال کے لیے کے پی میں ضم کیا جائے، بعد میں معروضی حالات کے تقاضوں کے تحت اس کو مکمل طورپر کے پی کے ساتھ ضم کردیا جائے، فاٹا کمیٹی سرتاج عزیز کی سربراہی میں نومبر2015میں تشکیل پائی تھی، انہوںنے مشاورت کے بعداپنی رپورٹ کابینہ کے سامنے پیش کردی اور کابینہ نے بحث و تمحیص کے بعد اس کی منظوری دیدی ، اس سے قبل فاٹا اصلاحات کمیٹی کی رپورٹ پر قومی اسمبلی میں زبردست بحث ہوئی تمام سیاسی جماعتوں نے حکومت پر زور دیا کہ جتنی جلد ی ممکن ہو سکے فاٹا کو کے پی کے ساتھ ملا دینا چاہئے، حکومت نے ا س سلسلے میں ایک بل تیار کرلیا ہے جس کو ابھی تک اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا ہے، اس سلسلے میں حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت پر زور دے رہی ہیں کے وہ اس کو اسمبلی میں پیش کرے تاکہ اس پر مزید غور حوض کے بعد منظور کرلیا جائے،تاہم موجودہ حکومت کی حمایت کرنے والی دو سیاسی جماعتیں یعنی مولانا فضل الرحمن کی جماعت اور محمود خان اچکزئی کی جماعت بل کی قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی مزاحمت کررہی ہیں، حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ جلد ان دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کی فاٹا بل سے متعلق تحفظات کو دور کردے گی۔
جہاں تک فاٹا کے عوام کا تعلق ہے یا جو ان کے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندوں کا تعلق ہے وہ یک زبان ہوکر فاٹا کو کے پی میں شمولیت کی حمایت کررہے ہیں، پاکستانی فوج کے سپہ سالار نے بھی خواہش ظاہر کی ہے کہ فاٹا کو جلد از جلد کے پی میں شامل کردینا چاہئے اور اس کے ساتھ ہی اصلاحات کا عمل بھی شروع کردینا چاہئے، یہاں یہ بات لکھنی بہت ضروری ہے کہ فاٹا کے عوام پاکستان کی فوج کی نہ صرف عزت کرتے ہیں بلکہ پاک فوج سے پیار بھی کرتے ہیںاور وہ ضرب عضب اور اب ردالفساد کی صورت میں فاٹا میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت بھی کررہے ہیں کیونکہ ان علاقوں میں خصوصیت کے ساتھ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی وجہ سے جہاں مقامی و غیر ملکی دہشت گردوں کا صفایا کیا گیاہے وہیں یہاں امن کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی کے آثار پیدا ہورہے ہیں، خصوصیت کے ساتھ جب باقاعدہ طورپر فاٹا کے پی میںضم ہوجائے گا تو اس صورت میں یہاں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام شروع کیے جاسکیں گے، اس کے علاوہ تعلیم و صحت کے شعبوں کو ترقی دے کر فاٹا کے عوام کو وہ سہولتیں مہیا کی جائیں گی جو پہلے موجود نہیں تھیں، ابھی تک جو لوگ فوجی آپریشن کی وجہ سے اپنے گھروں کو چھوڑ کر کے پی کے مختلف علاقوں میں بس گئے ہیں انہیں واپس بھیجا جائے گا، اور ان کے مسمار شدہ گھروں کی تعمیر میں مدد بھی کی جائے گی۔ فاٹا کی کے پی میں شمولیت کی وجہ سے اس علاقے کو ترقی کے بے پناہ مواقع میسر آئیں گے، خصوصیت کے ساتھ نوجوان نسل کو جو ماضی میں بہتر تعلیم سے محروم تھی، بلکہ اس کا فقدان تھا،اور ان کو دہشت گرد روپے پیسے کی لالچ دے کر اپنے ساتھ شامل کررہے تھے، لیکن یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اب ایسا نہیں ہوسکے گا، فاٹا کی کے پی میں شمولیت کے بعد پشاور اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی رٹ وہاں تک پہنچ سکے گی، پاکستان کی سیاسی پارٹیاں بھی اپنے اپنے منشور کی روشنی میں فاٹا کے عوام تک رسائی حاصل کرسکیں گی، وزیراعظم صاحب کو چاہئے کہ وہ فاٹا بل کو اسمبلی میں پیش کریں تاکہ فاٹا کی کے پی میں شمولیت کا با قاعدہ آغاز ہوسکے، جہاں تک بعض سیاسی پارٹیاں این ایف سی ایوارڈ میں اپنے حصے کی رقم (صرف 3 فیصد) نہیں دینا چاہتے ہیں تو وفاقی حکومت اس سلسلے میں پہل کرکے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرے اور فاٹا کے عوام کی خواہشات کے پیش نظر فاٹا کو کے پی میں شامل کرنے میںاب مزید تا خیر نہیں کی جانی چاہئے۔
امید کی جاتی ہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سپریم کورٹ سے نااہل قرار دئے گئے نواز شریف اور ان کے حواریوں کو فاٹا بل اسمبلی میں پیش کرنے میں مزید تاخیر کی صورت میں اپوزیشن کی جانب سے کوئی نئی تحریک چلائے جانے کے امکانات اورنوبت دوبارہ دھرنوں تک پہنچنے کے امکانات اور خدشات سے آگا ہ کرکے انھیں فاٹا اصلاحات بل مزید کسی تاخیر کے بغیر اسمبلی میں پیش کرکے اسے منٖظور کرنے کی اہمیت اور ضرورت سے آگاہ کرنے کی کوشش کریں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں