میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر پاکستان کا میانمار سے احتجاج

روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر پاکستان کا میانمار سے احتجاج

ویب ڈیسک
منگل, ۱۲ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے میانمار کے سفیر یو ون مائینٹ کو دفتر خارجہ طلب کر کے روہنگیا مسلمانوں پر جاری ظلم و بربریت کے خلاف شدید احتجاج ریکارڈ کرا دیا۔دفترخارجہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق پاکستان نے میانمار کی ریاست رخائن میں جاری روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف شدید احتجاج کیااورسیکریٹری خارجہ نے میانمار کے سفیر سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری ظلم و بربریت کو ختم کرنے کے حوالے سے مناسب اقدامات کا مطالبہ کیا۔اعلامیہ کے مطابق سیکریٹری خارجہ نے میانمار کے سفیر سے ریاست رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کو سیکورٹی فراہم کرنے،ان کے حقوق کا تحفظ کرنے اور انھیں بلا امتیاز اور بغیر کسی خوف کے نقل و حمل کی اجازت دینے کا بھی مطالبہ کیا۔پاکستانی وزارت خارجہ نے میانمار کے سفیر سے مطالبہ کیا کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری ظلم کی تحقیقات کرائی جائے اور ان کی خون ریزی میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے رخائن میں جاری تنازع کے پائیدار حل کے لیے اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان کے کمیشن کی سفارشات پرفوری طور پر عمل درآمد پربھی زور دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان کے کمیشن کی سفارشات میں میانمار کی ریاست رخائن میں فوری طور پر جاری شورش کو ختم کرنے کے لیے اقدامات، امن بحال رکھنے، رضا کارانہ مصالحت، غیر جانبدارانہ طور پر متاثرہ لوگوں تک رسائی اور شہریت کے مسائل کے حل پر مشتمل تجاویز شامل ہیں۔میانمار کے سفیر یو ون مائینٹ نے سیکریٹری خارجہ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ میانمار کی حکومت تک پاکستانی حکومت اور پاکستانی عوام کے تحفظات پہنچائیں گے۔
میانمار کی سیکورٹی فورسز نے ریاست رخائن میں فوجی بیس پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد اس کوبنیاد بناکر روہنگیا کے مسلمانوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا تھا اور اس کارروائی کے دوران ظلم وبربریت کی انتہا کردی اور بچوں اور خواتین کو بھی سفاکانہ طریقہ سے قتل کردیا ، ان کے اعضاء کاٹ کر انھیں زندہ جلایاگیا۔میانمار کی فورسز کی ان سفاکانہ کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت روہنگیا مسلمانوں کی ہے۔میانمار کی سیکیورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ روہنگیا کے مسلمانوں نے ان پر حملے کیے تاہم روہنگیا کے مسلمان اس کی ترید کر رہے ہیں۔روہنگیا کے مسلمان میانمار کی فوج کے مظالم سے بچنے کے لیے پڑوسی ملک بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کر رہے ہیں۔بنگلہ دیش میں موجود اقوامِ متحدہ کے نمائندے نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ گزشتہ ایک ماہ میں میانمار سے 3 لاکھ مسلمان بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ بنگلہ دیش پہنچنے والے افراد کے مطابق ان لوگوں کو میانمار میں بربریت کا نشانا بنایا گیا، میانمارکے فوجیوں نے ان کی خواتین کوجنسی تشدد کا بھی نشانا بنایا۔بدھ مت کی اکثریت کے حامل اس ملک کی فورسز کی نہتے مسلمانوں پر جاری مظالم کے خلاف پوری دنیا کی جانب سے شدید ردِ عمل سامنے آرہا ہے اور بین الاقوامی فورم پر میانمار کو شدید تنقید کا نشانا بھی بنایا جارہا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتاہے کہ میانمار کی حکمراں خاتون آنگ سان سوچی کو پوری دنیا کی جانب سے ظاہرہونے والے اس شدید ردعمل کی کوئی پروا نہیں ہے یا پھر انھیں اپنی فوج کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی ہمت نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ آنگ سان سوچی روہنگیا مسلمانوں کے خلاف اپنی سیکورٹی فورسز کی بربریت کی حقیقت تسلیم کرنے کے بجائے اس مسئلے کو کشمیر سے جوڑنے کی کوشش کررہی ہیں، جبکہ اس کام میں بھارت کے مسلم دشمن وزیر اعظم نریندرا مودی ان کی معاونت اور رہنمائی کے لیے گزشتہ دنوںخود میانمار پہنچ گئے تھے ،اگرچہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے میانمار کی صدر آنگ سانگ سوچی کی ملاقات کے بعد جاری کیے جانے والے بیان میں یہ ظاہر کیاگیا ہے کہ دونوں رہنمائوں نے دوطرفہ ملاقات میں باہمی مفادات کے تحفظ اور قریبی شراکت داری قائم کرنے کے لیے مل جل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے لیکن اس ملاقات کے بعد آنگ سان سوچی کی جانب سے ریاست راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کو مقبوضہ کشمیر کے تنازع سے تشبیہ دینے اور روہنگیا اور کشمیریوں کے معاملہ میں مماثلت قراردیتے ہوئے یہ کہنا کہ میانمار اور بھارت کو ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے یہ ظاہرکرتاہے کہ مودی نے سوچی کو مسلمانوں کے خلاف میانمار کے فوجیوں کی کارروائی جاری رکھنے اور عالمی رائے عامہ کا اثر قبول نہ کرنے کامشورہ دیاہوگا ۔ مودی فطرتاً مسلمانوں کا دشمن اور قاتل ہے جبکہ سوچی عالمی امن کی علمبردار سمجھی جاتی ہے، اسے نوبل انعام سمیت بے شمار ایوارڈز مل چکے ہیں مگر اب وہ ایک ڈائن کے روپ میں دنیا کے سامنے آ رہی ہے۔مسلمانوں کے قتل عام پر ان کی خاموشی پر پہلے یہ گمان کیاجارہا تھا کہ شاید انھیں صورتحال کا پتہ نہ ہو مگر اب وہ کہتی ہیں کہ مسلمانوں کا قتل و غارت ایک پروپیگنڈاہے۔ اب مودی اور سوچی ملے ہیں تو اسے مسلمانوں کے قاتلوں کی ملاقات قرار دیا جا سکتا ہے جس میں ہو سکتا ہے مسلمانوں کے قتل عام کے اپنے اپنے تجربات و مشاہدات شیئرکیے گئے ہوں۔ جس کے بعد ہی سوچی نے راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کو مقبوضہ کشمیر کے تنازع سے تشبیہ دی ہے۔ ظلم و بربریت بلا شبہ کشمیریوں اور میانمار کے مسلمانوں کا مشترکہ دکھ ضرور ہے لیکن اس کے سواان دونوں میں مسئلہ کے لحاظ سے کوئی مماثلت اور مشابہت نہیں ہے۔ روہنگیا مسلمان صرف زندہ رہنے کا حق مانگتے ہیں جبکہ مقبوضہ وادی میں کشمیری اپنی آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ کشمیریوں کا بھارت نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ روز روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کشمیریوں نے احتجاجی مارچ کیا۔ اس مارچ پر بھی بھارتی فورسز نے فائرنگ کرکے کئی افراد کو زخمی کر دیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بار پھر اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ وہ کشمیریوں کے قتل میں ملوث بھارت پر پابندیاں لگائے۔ سوچی سے نوبل امن پرائز کی واپسی کے لیے مہم بھی زور پکڑ رہی ہے۔
روہنگیا کے مسلمانوں پر جاری مظالم پر اگرچہ پوری دنیا کے مسلمان تڑپ اٹھے ہیں لیکن اسلامی ممالک کے سربراہوں کی جانب سے اس مسئلے پر خاموشی معنی خیز ہے ، اسلامی دنیا کے صرف تین ممالک نے اس حوالے سے عملی طورپر اپنی ناراضی اور روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے ، اس ضمن میں سب سے پہلے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے آنگ سان سوچی کو فون کر کے مسلمانوں کا قتل عام رکوانے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے اس مسئلے میں فوری مداخلت نہ کی تو ترکی روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کے لیے اپنی فوجیں میانمار میں اتارنے سے گریز نہیں کرے گا، مالدیب نے بھی اس صورت حال پر شدید ردعمل کاا ظہار کرتے ہوئے اسلامی اخوت کاثبوت دیاتھا اور میانمار کے ساتھ اس وقت تک کے لیے تمام تجارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیاتھا جب تک میانمار کی حکومت روہنگیا کے مسلمانوں کو مکمل تحفظ فراہم نہیں کرتی۔ ترکی کے صدر نے اسی پر اکتفا نہیں کیابلکہ روہنگیا کے مسلمانوں کی امداد کے لیے اپنی اہلیہ کے ذریعے امدادی سامان بنگلہ دیش بھیج دیاہے، جہاں ان کی اہلیہ اور بعض وزرا ء روہنگیا مسلمانوں کی مدد کررہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ترک صدر نے بنگلہ دیش کی حکومت سے کہاہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے لیے کوئی ایک جگہ مختص کردے تاکہ وہاں خیمے وغیرہ نصب کرکے ان مصیبت زدہ مسلمانوں کو سہولتیں بہم پہنچائی جاسکیں۔جب کہ پاکستان سمیت کئی ملکوںکی جانب سے اس مسئلے پر ابھی تک زبانی احتجاج پر ہی اکتفا کیاگیا ہے ۔
ترکی کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ میانمار کی ریاستی دہشت گردی پر شدید ردعمل پر ایران نے بھی ترکی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ترکی ایران اور مالدیپ کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کی حمایت میں کیے جانے والے اقدامات بلاشبہ دیگر ممالک خاص طورپر اسلامی ممالک کے لیے قابلِ تقلید ہیں۔
انسانی حقوق کی بدترین پامالی پر سخت نوٹس لینے اور پابندیاں لگانے کی ضرورت ہے۔ مسلم ممالک کے پاس ساٹھ کے قریب ممالک کا فورم موجود ہے۔ او آئی سی، اردگان اور مالدیپ کے بیانات اوراقدامات کی تقلید کرے اور پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک روہنگیا مسلمانوں کو تحفظ دینے تک میانمار کے ساتھ تعلقات منقطع کرلیں۔ سوچی کے خلاف بھی عالمی سطح پر ان سے نوبل امن پرائز کی واپسی کی مہم چلانا ضروری ہوگیا ہے۔ جن ممالک نے اسے ایوارڈز دیے ہیں وہ بھی واپسی کے لیے کہیں تو شاید کل کی مظلوم اور آج کی ظالم خاتون کے ہوش ٹھکانے آجائیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں