میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اپنے پوتے یا پوتی کے نام کھلا خط

اپنے پوتے یا پوتی کے نام کھلا خط

جرات ڈیسک
اتوار, ۱۷ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

(ارجنٹینا کے مشہور شاعر کا وہ خط جو آمرانہ فوجی حکومت میں غائب ہونے والے اپنے جوان بیٹے اور حاملہ بہو سے ہونے والی اولاد کے نام لکھا گیا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(خوان خیل مان Juan Gelman ارجنٹینا کا معروف شاعر ہے۔ ارجنٹینا کی آمرانہ فوجی حکومت نے 1975ء اور 1982ء کے درمیانی عرصے میں ہزاروں نوجوانوں کو غائب کردیا۔ خیل مان کے جوان بیٹے اور حاملہ بہو کو فوجی اٹھا لے گئے تھے۔ یہ اس خط کا پس منظر ہے۔ انگریزی میں تذکیر و تانیث نہ ہونے کی وجہ سے ترجمے میں دقت نہیں ہوتی۔ خط چونکہ پوتے یا پوتی کے نام ہے اس لیے اردو میں مذکر یا مونث میں سے کسی کا انتخاب ناگزیر ہے۔ اگر ترجمے میں گا/گی وغیرہ سے کام لیا جائے تو علمیت کے تقاضے شاید پورے ہو جائیں لیکن خط کی دل دوزی میں فرق آ جائے گا۔ خیل مان کی اس تحریر تک رسائی کے لئے سہیل احمد خان کا ممنون ہوں۔ مترجم)

……………………..
اگلے چھ مہینوں میں تم انیس برس کے ہو جاؤں گے۔ یہ تقریباً یقینی ہے کہ تم ایل پوزودے کیل میس نامی قیدی کیمپ میں اکتوبر 1976ء میں کسی دن پیدا ہوئے ہو گے۔ اس وقت سے ذرا پہلے یا ذرا بعد میں انہوں نے تین فٹ سے بھی کم فاصلے سے تمہارے بابا کو سر میں گولی مار کر ہلاک کرڈالا تھا۔ وہ بے بس تھا اور اس کام پر متعین کسی فوجی دستے کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔ شاید یہ وہی فوجی دستہ ہو جس نے 24 /اگست کو بیونوس آئرس میں تمہارے بابا، تمہاری امی اور تمہیں اغوا کر کے اس قیدی کیمپ میں پہنچا دیا تھا جو اوتو موتوریس اور لینی کے نام سے مشہور تھا۔ یہ کیمپ فلوریستا کے عین پڑوس میں قائم تھا اور فوج والوں نے اسے گلشن کا نام دے رکھا تھا۔ تمہارے بابا کا نام مارسیلو تھا، تمہاری امی کا کلا دیا۔ دونوں تب بیس بیس سال کے تھے اور جب یہ واقعہ پیش آیا تو تمہیں ماں کے پیٹ میں سات مہینے ہو چکے تھے۔ جب وضع حمل کا وقت آیا تو انہوں نے کلادیا کو اور ساتھ میں تمہیں بھی ایل پوزو پہنچا دیا۔ وہاں اس نے فوجی آمریت کے کسی ڈاکٹر/ شریک جرم کے زیرنظر تمہیں جنا ہوگا۔ اس کے بعد وہ تمہیں تمہاری امی کے پاس لے گئے اور فوج یا پولیس سے تعلق رکھنے والے کسی بانجھ جوڑے یا کسی ایسے جج یا صحافی کے حوالے کردیا جس کے پولیس یا فوج سے دوستانہ مراسم ہوں گے۔ عام طور پر یہی کچھ ہوتا رہتا تھا۔ ان دنوں ہر قیدی کیمپ میں انتظار کرنے والوں کی ایک منحوس فہرست موجود ہوتی تھی۔ جن کے نام فہرست میں درج ہوتے وہ منتظر رہتے کہ انہیں کوئی نوزائیدہ بچہ پالنے کو مل جائے، بچہ جسے فوج والے قیدیوں سے چرا لیتے تھے اور جن کی ماں کو، چند استثناں کو چھوڑ کر، بچہ جننے کے فوراً بعد قتل کردیا جاتا تھا۔ فوج کو حکومت سے بے دخل ہوئے تیرہ برس گزر چکے اور تمہاری امی کی کوئی خبر نہیں۔ اس کے برعکس اس واقعے کے تیرہ برس بعد تمہارے بابا کی باقیات ایک ساٹھ گیلن والے تیل کے ڈرم میں ملیں جسے فوجیوں نے ریت اور کنکریٹ سے بھر کر دریائے سان فرناندو میں پھینک دیا تھا۔ اسے اب لاتا بلادا میں دفنایا جا چکا ہے۔ کم از کم اس کے معاملے میں کوئی بات طے تو ہے۔ یہ بڑا عجیب معلوم ہوتا ہے کہ میں اپنے بچوں کا اس طرح ذکر کروں جو تمہارے والدین کے طور پر کبھی موجود ہی نہیں رہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ تم لڑکا ہو یا لڑکی۔ اتنی خبر ہے کہ تم پیدا ہوئے تھے۔ فروری 1978ء میں ویٹی کن سیکریٹریٹ کے فادر فیوریلو کوالی نے میرے روبرو اس امر کی تصدیق کی تھی۔ میں اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں، اس کے بعد تم پر کیا بیتی؟ متضاد خیالات میرے ذہن میں گردش کرتے ہیں۔ ایک طرف تو یہ خیال مجھے ہمیشہ گھناؤنا معلوم ہوتا ہے کہ تم کسی فوجی یا پولیس کے غنڈے کو جو تمہیں چرا لے گیا تھا یا جنہوں نے تمہارے بابا کو قتل کیا تھا، ان کے کسی دوست کو ابو کہتے ہو گے۔ دوسری طرف میری ہمیشہ یہ آرزو رہی ہے کہ تم خواہ کسی گھرانے میں پلے بڑھے ہو، تمہاری پرداخت اور تعلیم کا بڑا خیال رکھا گیا ہو، تمہیں بہت سا پیار ملا ہو۔ تاہم یہ خیال مجھے ہمیشہ رہا کہ تم سے جو پیار کیا گیا اس میں ضرور کوئی رخنہ یا ناکامی کا پہلو ہوگا۔ اس کا اصل سبب یہ نہیں کہ یہ والدین تمہارے حیویاتی والدین نہیں، حالانکہ دعویٰ انہیں یہی ہے۔ بلکہ اس لیے کہ انہیں تمہاری کہانی سے کچھ نہ کچھ آگاہی ہو گی اور یہ علم بھی ہو گا کہ اس کہانی کو جھوٹ میں بدلنے میں وہ کسی طرح شریک رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تم سے بہت زیادہ جھوٹ بولا گیا ہوگا۔ پھر میں ان تمام برسوں کے دوران میں یہ بھی سوچتا رہا کہ اگر تم مل گئے تو کیا کروں گا۔ آیا تمہیں اس گھر سے، جو تمہارا جانا پہچانا ہو گا، گھسیٹ کے لے آؤں گا، آیا تمہیں منہ بولی اولاد بنانے والے والدین سے گفت و شنید کر کے تم سے ملتے رہنے کا اختیار حاصل کروں گا، اس شرط پر کہ یہ بات ہمیشہ تمہارے علم میں رہے کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ جب بھی یہ امکان سر اٹھاتا کہ پلازو دے مایو کی نانیوں دادیوں (کی تنظیم) نے تمہیں ڈھونڈ لیا ہو گا تو یہی دبدھا بار بار درپیش ہوتا اور اردگرد منڈلانے لگا۔ میں ہر مرتبہ، اس لمحے تمہاری عمر کو ملحوظ رکھ کر اس مسئلے کا مختلف حل ڈھونڈ نکالتا۔ مجھے یہ پریشانی لاحق ہو جاتی کہ تم بہت چھوٹے ہو گے یا اتنے چھوٹے نہیں ہو گے کہ سمجھ سکو کہ اصل میں ہوا کیا ہے،یہ سمجھ سکو کہ تمہارے والدین، جنہیں تم اپنے والدین سمجھتے رہے، تمہارے والدین نہیں ہیں، خواہ بطور والدین تمہیں ان سے پیار ہی کیوں نہ ہو۔ مجھے پریشانی تھی کہ اس طرح تمہیں دُہرا گھاؤ لگے گا، ایسا گھاؤ جو تمہاری شناخت کی بناوٹ کو، عین اس وقت جب یہ شناخت تشکیلی مرحلے سے گزر رہی ہو گی، مسخ کر ڈالے گا۔ لیکن اب تم بڑے ہو گئے ہو۔ اب تم یہ سمجھنے کے قابل ہو کہ تم کون ہو اور فیصلہ کرسکتے ہو کہ جو تم تھے اس سے کس طرح نمٹو، نانیاں دادیاں یہاں موجود ہیں۔ ان کے پاس خون اور گوشت پوست کے ذریعے سے شناخت کی جملہ تفصیلات ہیں جن سے وہ گم شدگان کے بچوں کے حسب نسب کا سائنسی وثوق سے تعین کرسکتی ہیں، تمہارے حسب نسب کا۔ تم اب تقریباً اتنے ہی ہو جتنے تمہارے والدین اس وقت تھے جب انہیں ہلاک کردیا گیا اور جلد ہی ان سے بڑے ہو جا ؤگے، جتنے بڑے وہ نہ ہو پائے۔ وہ جو ہمیشہ سے بیس برس کے ہی چلے آ رہے ہیں۔ انہوں نے تمہارے لئے خواب دیکھے تھے، ایسی دنیا کے خواب جو زیادہ باقرینہ اور زیادہ قابل سکونت معلوم ہوتی تھی۔ ان کے بارے میں تم سے باتیں کرنا مجھے اچھا لگے گا اور یہ بھی کہ تم مجھے اپنے بارے میں بتاؤ۔ مجھے اچھا لگے گا کہ تم میں اپنے بیٹے کو پہچاننے کے قابل ہو جاؤں اور تم بھی اسے ڈھونڈ لو جو مجھ میں تمہارے باپ کی پہچان کے طور پر موجود ہے ہم دونوں ہی اس کے یتیم ہیں۔
میں کسی نہ کسی طرح اس بہیمانہ جدائی یا خاموشی کی اصلاح کرنا چاہوں گا جس نے میرے کنبے کے عین تن بدن میں فوجی آمریت کو گھونپ رکھا ہے۔ میں چاہوں گا کہ تمہیں خود اپنی تاریخ کے سپرد کردوں لیکن جس سے تم جدا نہ ہونا چاہو اس سے تمہیں جدا نہ کروں۔ جیسا میں نے کہا، تم اب بڑے ہو گئے ہو۔ مارسیلو اور کلادیا کے خواب ابھی سچ ثابت نہیں ہوئے۔ تمہارے سوا، تم جو پیدا ہوئے اور جانے کہاں ہوں، کس کے پاس ہو۔ شاید تمہاری آنکھیں بھی ہیں، میرے بیٹے کی آنکھوں کی طرح سرمئی سبز یا اس کی بیوی کی آنکھوں کی طرح گہری لال کتھئی، جن میں ایک خاص طرح کی چمک تھی، بیک وقت نرم بھی،شوخ بھی۔ کون جانے کہ اگر تم لڑکے ہو تو کس پر گئے ہو؟ کون جانے کہ اگر تم لڑکی ہو تو کس پر گئی ہو؟ شاید تم اس قابل ہو جاؤ کہ اس اسرار سے باہر آ کر کسی دوسرے اسرار میں قدم رکھ سکو، اپنے دادا سے ملاقات کرو جو تمہاری راہ دیکھ رہا ہے۔( ترجمہ:محمد سلیم الرحمن)
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں