میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
خود بڑھ کے لگائے گا گلے باب اثر بھی

خود بڑھ کے لگائے گا گلے باب اثر بھی

ویب ڈیسک
اتوار, ۵ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

”ہم نے آزاد فضاوں کو چھونے کی آرزو کی….تو ہم سے ہماری دنیا چھین لی گئی“
کشمیری افسانے سے ایک اقتباس
وادی کشمیر کے معروف ادیب و افسانہ نویس نو ر شاہ کی ایک کتاب ” کشمیر کہانی”ہے جس پر مایہ ناز افسانہ نویس اور دانشو ر ڈاکٹر ریاض توحیدی کا حال ہی میں ایک تبصرہ سری نگر کے ایک مو¿قر اخبار "کشمیر عظمیٰ "میں شائع ہوا ہے ۔تبصرے میں جہاں اس کتاب کی اہمیت اور خصوصیت بیان کی گئی ہے ،وہیں اس تبصرے میں کچھ افسانوں سے چند اقتبا سات بھی درج ہیں۔ان اقتبا سات کو پڑھ کر یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ کس طرح اس جد ید اور نام نہاد مہذب دنیا میں ایک ثقافت سے بھرپورقوم کا صفایا کئی دہائیوں سے کیا جارہا ہے اور بڑی ڈھٹائی و بے شرمی کے ساتھ یہ سلسلہ جاری ہے ۔
کشمیر کہانی میں شامل افسانے کا ایک کردار بوڑھا عقاب ہے۔وہ مسجد کے اونچے گنبد پر بیٹھ کر قریبی قبرستان کو گھورتا رہتا ہے ،جیسے کچھ تلاش کررہا ہو کیونکہ پہلے تو یہ قبرستان اتنا بڑا نہیں تھا لیکن چند برسوں کے اندر ہی یہ قبروں سے بھرا پڑا ہے۔اسی دوران کسی انسانی پنجر کو قبر سے باہر آتا دیکھ کر عقاب اپنے پر پھڑا پھڑا کر ہوشیار ہوجاتا ہے۔پنجر نما انسان جب نزدیک آتا ہے تو عقاب اس سے پوچھ بیٹھتا ہے کہ وہ کون ہے اور اس نے عقاب کی سی زندگی کیوں چھوڑ دی؟اس کے بعد افسانہ نگار نے مردہ جسم کے پنجر کی زبان سے اپنے قتل کیے جانے اور کشمیریوں کے جذبات و احساسات کو کچلنے کی عکاسی یوں کی ہے:”تم آسمان کی بلندیوں میں تب بھی اُڑتے تھے اور اب بھی اُڑ رہے ہو اور ہم۔۔۔ہم نے جب تمہاری طرح بلندیوں کو چھونے کی کوشش کی‘آزاد فضاوں کو چھونے کی آرزو کی۔تہذیبی قدروں کی آبیاری اور انسانی عظمت کی بلندیوں کے لئے اپنی آواز بلند کی ،تو ہم سے ہماری دنیا چھین لی گئی۔ہمارے پاو¿ں میں بیڑیاں ڈالی گئیں۔ ہمارے لئے دوقدم چلنا مشکل ہوگیا اور جب ہم نے اپنے پاو¿ں کو، اپنے وجود کو ان بیڑیوں سے آزاد کرنے کی کوشش کی تو ہمارے بے بس ،بے حرکت اور بے آوازجسموں کوان قبروں کی گہرائیوں میں دھکیل دیا گیا۔“
ڈاکٹر ریاض توحیدی آگے لکھتے ہیں کہ :افسانے کا مرکزی کردار”انسانی پنجر“کشمیر کے ان سینکڑوں انقلابی انسانوں کی ترجمانی کررہا ہے جنہوں نے شعوری طور پر قید و بند کے گھٹن زدہ ماحول میں عقاب بننے کی کوشش کی تاکہ وہ آزاد فضاﺅں میں اڑان بھر سکیں لیکن کالے دیونے ان کے پر نوچ ڈالے اور انہیں زندگی کی سانسوں سے آزاد کر ڈالا۔عقاب اس کی درد بھری کہانی سن کر جب دوبارہ پوچھتا ہے کہ اب وہ قبر سے باہر کس لئے آیا ہے؟تو اس کا جواب سن کر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وہ اگرچہ جسمانی طور پر مر چکا ہے لیکن اس کی روح آج بھی آزادی کا سورج دیکھنے کے لئے تڑپ رہی ہے۔لیکن یہاں کے اندھیرے سے پھر مایوس ہوجاتا ہے۔
”ذرا سی آہٹ سنائی دی تو قبروں کے اندھیاروں سے باہر نکل آیا۔یہ دیکھنے کے لئے شاید صبح کی بے داغ روشنی نے اس دھرتی کو اپنی آغوش میں لے لیا ہوگالیکن یہاں۔۔۔یہاںتو اب بھی گھٹن ہے‘مایوسی ہے‘خالی ہاتھ اور خالی پیٹ ہیں‘خون خرابہ ہے‘ناانصافی اور عدم مساوات کا ماحول ہے۔ظلم ہے اور ظالم‘بندوق ہے اور بندوق سے اگلتی گولیاں ہیں۔۔۔یہاں ہر صبح اپنے ساتھ موت کا پیغام لاتی ہے اور ہر رات لاتعداد روحیںبھٹک کررہ جاتی ہیں۔“
مقبول بٹ،رواں تحریک حریت کے اولین شہید
ترہگام کپواڑہ کے سپوت جناب مقبول بٹ نے کشمیری جوانوں کو بھارتی ہٹ دھرمی توڑنے کے لیے عسکری سطح پر منظم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ گرفتار ہوگئے اور بعد ازاں 11فروری 1984کو تہاڑ جیل میں پھانسی کاپھنداچوم کر شہادت سے سرفراز ہوئے۔مقبول بٹ ؒکی شہادت نے کشمیری نوجوانوںکو عسکری مزاحمت کی راہ اختیار کرنے کی ترغیب ضرور دی لیکن انقلاب ایران اورافغانستان میں سویت یونین کے خلاف جاری عسکری جدوجہد کی کامیابی نے بھارتی تسلط کےخلاف کشمیریوں کی بے چینی کو سرگرم بغاوت اور مزاحمت میں بدلنے میںکلیدی کردار ادا کیا۔اسی دوران دیوار برلن کا گرنا اور سویت یونین کا شیرازہ بکھرنا بھی جلتی پر تیل کا کام کرگیا،یوںکشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں عسکریت کا عنصر بھی شامل ہوگیا۔
8جولائی 2016: برہان وانی کی شہادت
” میرے عمل نے غلام قوموں کو حریت کا سبق دیا ہے
بہار تازہ کب آئے گی تو،میرا لہو اب بھی بہہ رہا ہے “
برہان مظفروانی کی شہادت کے بعدمقبوضہ کشمیر کے نہتے عوام پر قابض بھارتی فوج نے جبر و تشدد کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ عالمی برادری کی آنکھیں کھولنے کے لیے کا فی تھا،لیکن عالمی امن کے ٹھیکیدار ابھی بھی ٹس سے مس نہیں ہورہے ۔ 8جولائی 2016سے تادم تحریر کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی بھی جاری ہے اور جارح و قابض دہلی سرکار کی ظلم و زیادتی بھی عروج پر ہے۔ 15ہزار سے زائد کشمیری زخمی ہیں۔ 12سو افراد پیلٹ گن سے شدید متاثر ہیں اور سینکڑوں بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔10ہزار سے زائد افراد گرفتار ہیں۔ ایک ہزار افراد پر بدنام زمانہ کالا قانون پی ایس اے لاگو کیا گیا ہے۔ قتل و غارت گری کے بعد قابض بھارتی افواج نے کشمیریوں کے کھیت کھلیان اور باغ تباہ کردیئے ہیں۔ فصلوں کو آگ کی نذ ر کیا گیا ہے۔ پھلوں سے لدی گاڑیاں لوٹی گئیں ہیں۔ چار دیواری محفوظ نہیں ہے ۔لیکن دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ ان مظالم کے باوجود کشمیری عوام ،اپنے مو قف پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں