میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاناما پیپرز ۔۔۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی(قسط نمبر 24)

پاناما پیپرز ۔۔۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی(قسط نمبر 24)

منتظم
اتوار, ۲۳ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

پاناما کے صدر نے مالیاتی شفافیت کااعلان کرکے ٹیکس چوروںمیں کھلبلی مچادی
نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کااجلاس جاری تھا، پاناما کے صدر جوآن کارلوس ویریلا بھی تقریر کرنے آئے ہوئے تھے ہم یہ منظر آن لائن دیکھ رہے تھے ،جب جوآن کارلوس تقریر کرنے آئے تو ان کے ہاتھوں میں کاغذوں کاایک پلنداتھا جس سے ظاہرہوتاتھا کہ وہ طویل تقریر کاارادہ لے کر آئے ہیں۔ہال میں داخل ہوکر انھوںنے اپنے کاغذات کی ترتیب ٹھیک کی اور 16 منٹ تک بولتے رہے، اپنی تقریر میں انھوں نے پاناما کی جانب سے مالیاتی شفافیت کے لیے بین الاقوامی تعاون کے عزم کااظہار کیااور کہاکہ پاناما مالیاتی شفافیت کے لیے بین الاقوامی برادری سے ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہے ،انھوں نے دوطرفہ بنیادوں پر معلومات کے خودکار تبادلے کے نظام کے قیام پر بھی رضامندی کااظہار کیا۔
ویریلانے کہا کہ سب ہی یہی چاہتے ہیں کہ ٹیکسوں سے استثنیٰ کانظام ختم کیاجائے یعنی پاناما کو ٹیکس چوروں کی جنت کے طورپر استعمال نہیں کیاجاسکے گا۔پاناما کے صدر کی یہ تقریر سن کر ہم سوچ میں پڑ گئے ،ہم سوچنے لگے کہ اگر پاناما کے صدر اپنے اس عزم پر قائم رہتے ہوئے پاناما کو ٹیکس چوروں سے پاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر ہماری یہ پوری کوشش رائیگاں چلی جائے گی۔کیونکہ جب ہماری تحقیق منظرعام پر آئے گی اس وقت تک تمام معاملات ہی الٹ چکے ہوں گے۔لیکن اس خیال سے ہمیں کچھ اطمینان ہوا کہ ہماری تحقیق صرف پاناما تک محدود نہیں تھی اس میں برٹش ورجن آئی لینڈ کے معاملات بھی ہماری تحقیق کا محور تھیںکیونکہ موزاک فونسیکا برٹش ورجن آئی لینڈ، سیشلز، برمودا ،سموعا، برٹش انگولا، اور امریکی ریاست نیویڈا ور وویومنگ کی کمپنیوں کے معاملات بھی چلاتی تھی۔اس کے علاوہ یہ بات بھی ہمارے پیش نظر تھی کہ پاناما کے صدر اپنی بات پر کس حد تک قائم رہتے ہیں یعنی ان کی باتوں پر کس حد تک یقین کیاجاسکاتاہے۔
اس کے چند دن بعد ہی ہمارے ایک ذریعے نے ہمیں ایک خط کی کاپی بھیجی۔موزاک فونساک کی جانب سے یہ خط اپنے تمام کلائنٹس کو بھیجاگیاتھا جن میں بینک ،وکلا کی فرمز اور اسیٹ مینجمنٹ فرمز شامل تھیں،اس خط کے ذریعے موسفون نے ان اداروں کو اطمینان دلانے کی کوشش کی تھی۔اپنے خط میں موسفون نے لکھا تھا کہ ہم آپ کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ پاناما کے قوانین میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آرہی ہے ،اور پاناما کے صدر کی تقریر کے باوجود پاناما کے موجودہ قوانین اور ضوابط قطعی تبدیل نہیں کیے جائیں گے۔
پاناما کے صدر نے معلومات کے خودکار تبادلے کے انتظامات کی بات کی تھی لیکن موسفون کو پختہ یقین تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا پاناما میں کچھ نہیں بدلے گا اور تمام معاملات ایسے ہی چلتے رہیں گے اور موسفون پاناما کے طریقہ کار کے مطابق تمام معاملات طے کرلے گا۔اس حوالے سے یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جانی چاہئے کہ رامن فونسیکا نہ صرف یہ کہ پاناما کے صدر کا قریب ترین مشیر تھا بلکہ حکمراں پارٹی کا نائب سربراہ بھی تھا۔ظاہر ہے کہ ایسے شخص کو صدر کاقرب حاصل تھا بلکہ وہ قوانین میں مناسب تبدیلی کرانے کی پوزیشن میں تھا۔خط میں موزاک فونسیکا نے یہ یقین دلایاتھا کہ پاناما کے صدر جوآن کارلوس ویریلا ملک کے مفادات کا دفاع کرتے رہیں گے۔
اب ہم نے چند روز تک موزاک فونسیکا کو اپنی توجہ کامحور بنائے رکھا۔ہم نے اس فرم کے مختلف قسم کے کاروبار کاجائزہ لینا شروع کیا۔ہماری مشکل یہ تھی کہ یہ صرف ایک فرم نہیں تھی اس کے زیر انتظام درجنوں فرمز کام کررہی تھیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے اورہمارے ساتھیوں کے سامنے حیرت انگیز انکشافات ہونا شروع ہوگئے ہمارے سامنے انکشاف ہوا کہ پوری دنیا میں موسفون کی کمپنیاں موجود تھیں۔تاہم اس کو ثابت کرنابہت مشکل تھاکیونکہ ان کمپنیوں کے شیئرز موزاک فونسیکا یا ان کے شراکت داروں کے نام نہیںتھے۔
موزاک فونسیکا نہ صرف اپنے کلائنٹس کے نام خفیہ رکھتے تھے بلکہ خود اپنی کمپنیوں کو بھی خفیہ رکھتاتھا۔اس سے موزاک فونسیکا کو یہ فائدہ حاصل تھا کہ اگر اس کی یااس کے زیر انتظا م کوئی کمپنی کسی معاملے میں پھنس جاتی تھی تو موزاک فونسیکا اس سے فوری طورپر قطع تعلقی کا اظہار کردیتاتھا اور دوری اختیار کرکے معاملے کوسلجھانے کی کوشش کی جاتی تھی۔امریکہ سابق سرکاری تفتیش کار نے وائس میگزین نے میں اس کے اس طریقہ کا ذکر کیاتھا۔یہ حربہ صرف موزاک فونسیکا ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سی کمپنیاں اختیار کرتی تھیں اور مختلف کمپنیوںکے ساتھ وابستگی کو پلک جھپکتے ختم کردیتی تھیں۔اس سسٹم کے تحت ہر ایک یہ حلف لیتاتھا کہ وہ اس سسٹم کے کسی اور کے بارے میں کچھ جانکاری نہیں رکھے گا یعنی اس کاکسی اور سے کوئی تعلق نہیںہوگا۔یہ بالکل ایک ایسا بھول بلیاں والا کھیل تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہوتے ہوتے کسی طرح کی تحقیقات شروع ہوتے ہی اچانک عمارت زمین بوس ہوجاتی تھی۔
موسفون اپنی تمام کمپنیوں کاانتظام خود ہی سنبھالتاتھا ہمارے پاس اس کاتمام ریکارڈ موجود تھا۔اس کی تازہ ترین مثال امریکی ریاست نیویڈا میں موسفون کی ایک ذیلی کمپنی تھی جس پر گزشتہ چند سال سے مقدمہ چل رہاتھا یہ مقدمہ ایک مالیاتی کمپنی این ایم ایل کے سربراہ پال سنگر نے قائم کرایاتھا ،یہ دراصل ارجنٹائن کی حکومت اور این ایم ایل کے درمیان ایک تنازع کامعاملہ تھا ، این ایم ایل کے سربراہ پال سنگر کادعویٰ تھاکہ ارجنٹائن کے سابق صدر نیسٹر کرچنر اور ان کی اہلیہ سابق صدرکرسٹینا کرچنر نے موزاک فونسیکا کی قائم کردہ 123 آف شور کمپنیوں کی مدد سے مبینہ طورپر 65 ملین ڈالر ملک سے باہر منتقل کیے تھے۔کرچنر فیملی اس الزام کوتسلیم کرنے کوتیار نہیں تھی وہ سختی سے اس الزام کی تردید کررہی تھی اور آج تک پال سنگر کو اس کاکوئی ثبوت نہیں مل سکاتھا۔چونکہ پال سنگر کے وکلا پاناما کے اندرونی ڈاکومنٹس دیکھنے کاحق نہیں رکھتے تھے اور ان میں سے بیشتر کمپنیاں امریکی ریاست نیویڈا میں قائم کی گئی تھیں اس لیے مقدمہ نیویڈا میں قائم کیاگیا تاکہ ان کمپنیوں کے مالکان اور مالکانہ حقوق ظاہر کرنے پرمجبور کیاجاسکے۔
موزاک فونسیکا یہ اندیشہ سامنے آنے پر کہ اس کی کمپنی ایم ایف نیویڈا پر چھاپہ پڑ سکتاہے انتہائی چالاکی سے اس کا انتظام اس طرح کردیا کہ ایم ایف نیویڈا کا موزاک فونسیکا سے کوئی رابطہ ثابت نہ کیاجاسکے۔اس حوالے سے جرگن موزاک نے حلف اٹھاکر یہ اعلان کردیاتھا کہ موزاک فونسیکا کاایم ایف نیویڈا کاکوئی تعلق نہیں ہے۔اس کے ساتھ جرگن موزاک نے ایم ایف نیویڈا کو اپنی ذیلی کمپنی یا اس کسی طرح کے تعلق سے بھی انکار کردیاتھا۔
تھوڑی سی جدوجہد کے بعد ہمیں ایم ایف نیویڈا کی جانب سے اکاﺅنٹ کھولنے کے لیے دی گئی ایک درخواست مل گئی اس میںموسفون نے کمپنی کی ملکیت کااسٹرکچر کچھ اس طرح ظاہر کیاتھا کہ ایم ایف نیویڈا کے تمام شیئرز ٹورن بیل ایسوسی ایٹس نامی ایک ا?ف شور کمپنی کے پاس تھے اس میں سے45 فیصد جرگن موزاک کے نام ،45فیصدرامن فونسیکا کے نام اور10فیصد جونئیرسوئس پارٹنر کرسٹوف زولنگر کے نام تھے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں