میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ضمنی انتخابات منظم دھاندلی کے شاہکار، مگر عمران خان کے لیے لمحہ فکریہ بھی!

ضمنی انتخابات منظم دھاندلی کے شاہکار، مگر عمران خان کے لیے لمحہ فکریہ بھی!

جرات ڈیسک
جمعرات, ۲۵ اپریل ۲۰۲۴

شیئر کریں

ضمنی انتخابات بخیر و خوبی انجام پا گئے۔الیکشن کے انتظامات اور ٹرن آؤٹ کے معاملے میں الیکشن کمیشن کی کارکردگی ایک بار پھر غیر تسلی بخش دکھائی دی۔ انتخابات عام ہوں یا ضمنی ان سے پہلے میڈیا یا سوشل میڈیا کا جائزہ لیں تو ایسا لگے گا جیسے انقلاب کی راہ میں واحد رکاوٹ بس یہی انتخابات ہیں۔اس بار بھی معاملہ مختلف نہیں تھا۔ نتائج پر نظر دوڑائیں تو ن لیگ انتخابی سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کرتے نظر آئی جبکہ نتائج تحریک انصاف کے توقعات کے برعکس آئے۔ ضمنی انتخابات میں دھاندلی کے برہنہ ثبوتوں نے ایک مرتبہ پھر نظام پر اعتبار کا مسئلہ پیدا کردیا۔ 8/ فروری کے انتخابات میں فارم 45سے مختلف فارم 47 کے نتائج دیے گئے، جس نے پورے ملک میں ایک ہنگامہ برپا کردیا۔ الیکشن کمیشن رسوا ہو گیا۔ قومی ادارے بتدریج اپنی وقعت کھونے لگے۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی اس پر کافی لتّے لیے۔ اور ثبوتوں کے ساتھ اس دھاندلی زدہ انتخابات کو عریاں کیا تھا۔ مگر 21اپریل کے ضمنی انتخابات میں اس سے ایک مختلف سبق سیکھا گیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ 8/ فروری کے دھاندلی زدہ انتخابات پر جگ ہنسائی کے بعد ہاتھ روک لیے جاتے اور مذموم عزائم سے دست کش ہو کر ایک سجدہئ سہو کر لیا جاتا۔ مگر8/ فروری کی جگ ہنسائی سے یہ سبق سیکھا گیا کہ دھاندلی کو عریاں کرنے والے فارم 45 کا ناس مار دیا جائے۔ چنانچہ ضمنی انتخابات میں انتخابی عمل کے دوران ہی اور نتائج مرتب ہونے سے بہت پہلے اکثر پولنگ اسٹیشنوں پرفارم 45 پر دستخط کر الیے گئے۔ یوں دباؤ کے ذریعے نتائج مرتب کرنے کا عمل پولنگ کے دوران ہی شروع ہو گیا۔کچھ پولنگ اسٹیشنوں پر مجموعی ووٹوں کی تعداد سے زیادہ ووٹ نکل آئے۔ اکثر پولنگ اسٹیشنوں پر ٹھپے لگائے گئے۔ کچھ کی ویڈیوز بھی سامنے آئیں۔ بدقسمتی سے ان دھاندلیوں کو سامنے لانے کی کوشش کرنے والے آزاد صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی بھی شکایتیں ملیں۔ کنٹرولڈ میڈیا میں دھاندلی کی خبروں کو روکا گیا۔اس پورے حبس زدہ ماحول میں مسلم لیگ نون کی برتری کے شادیانے بجا دیے گئے۔اعلان کیا گیا کہ”پنجاب میں قومی و صوبائی اسمبلی کی 14 نشستوں کے ضمنی انتخابات میں غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔اب تک کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن نے پنجاب میں قومی اسمبلی کی دونوں جبکہ صوبائی اسمبلی کی 12 میں سے 10 نشستیں اپنے نام کی ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی بھی گجرات سے اپنے بھتیجے موسیٰ الٰہی کے ہاتھوں صوبائی اسمبلی کی نشست پر شکست کھا گئے ہیں۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کو وزیرآباد میں اپنی ہی چھوڑی ہوئی سیٹ پر شکست کا سامنا کرنا پڑا اور یہاں بھی مسلم لیگ ن کے عدنان افضل چٹھہ نے کامیابی حاصل کی“۔
ان انتخابی نتائج پر نون لیگی رہنماؤں نے فتح کا کوئی جشن تو نہیں منایا کیونکہ پورے ملک میں شاید ہی کوئی باشعور شخص ایسا ہو جو ان نتائج کی حقیقت سے آگاہ نہ ہو۔البتہ نون لیگی رہنماؤں نے اپنے بیانات میں اپنی فتح کے شادیانے خوب بجائے۔ مسلم لیگ ن کی کامیابی کے حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے دعویٰ کیا کہ ’ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کی کامیابی عوام کے اعتماد کا منہ بولتا ثبوت ہے اور یہ بھی کہ عوام جان چکے ہیں کہ اس ملک کی ترقی کے لیے محمد نواز شریف کی قیادت ضروری ہے۔ اسی لیے عوام نے شفاف انتخاب میں مسلم لیگ ن کو بھرپور اعتماد سے نوازا ہے۔ ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کی کامیابی کے حوالے سے پنجاب اسمبلی کے قائد حزب اختلاف احمد خان نے اسمبلی احاطے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم 12 سیٹوں کی وجہ سے مایوس نہیں بلکہ ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ مسلم لیگ ن کو عوامی مینڈیٹ نہیں ملا بلکہ انہیں ہم پر مسلط کیا گیا ہے۔اس ساری صورت حال اور مسلم لیگ ن کی ضمنی انتخاب میں کامیابی کے حوالے سے اس وقت جو صورت حال ہے اس میں اس بات کی امید تھی کہ پی ایم ایل این کے لیے پنجاب میں ضمنی انتخاب میں اچھی کارکردگی دکھانا مشکل نہیں ہوگا کیونکہ اب جو حالات ہیں ان میں پی ٹی آئی کے چانسسز کم ہیں اس لیے کم از کم پنجاب کے اندر اسی قسم کے نتائج کی ہی امید تھی۔انہوں نے وہ نشست ہارنی ہی تھی ہاں اگر چوہدری پرویز الٰہی کا تعلق پی ایم ایل این سے ہوتا تو وہ وہاں سے نشست جیت جاتے۔ ضمنی انتخابات میں عام طورپر ٹرن آؤٹ کم ہوتاہے اور پھر عوام یہ سوچ کرعام طورپر حکمراں پارٹی ہی کو ووٹ دیتے ہیں کہ حکمراں پارٹی کا منتخب شاید ان کے کچھ مسائل حل کرادے اس لئے اس وقت پی ٹی آئی کے ممبران کے جیتنے کے امکانات نہیں تھے۔پاکستان مسلم لیگ ن تو یہی کہے گی کہ انہیں بڑی کامیابی ملی ہے کیونکہ وہ عام انتخابات کے نتائج کو بھی صحیح سمجھتی ہے اور ضمنی انتخاب کے نتائج کو بھی وہ پراجیکٹ کریں گے اور وہ یہی کہیں گے کہ یہ کامیابی ان کی کارکردگی کی وجہ سے ہے۔ اب حکومت کی کارکردگی کے بارے میں اسے جانچنے والے ہی بتا سکتے ہیں۔ ضمنی انتخابات اور اس کے نتائج کے حوالے سے کہا جاتاہے کہ ’جب عام انتخابات ہو رہے ہوتے ہیں تو لوگوں کو توقع ہوتی ہے کہ وہ حکومت تبدیل کر سکیں گے اور اپنی مرضی کے حکمران چنیں گے جبکہ ضمنی انتخاب میں انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے نتائج حکومت بنانے کے عمل پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ قدرتی طور پر عوام حکومتی پارٹی کو ترجیح دیتے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں حکمرانوں کے ساتھ انتظامیہ کا تعاون ڈھکا چھپا نہیں ہے، تیسری بات یہ کہ گزشتہ مہینوں میں پی ٹی آئی کے ساتھ جو بھی رویہ رہا وہ کمزور ہوئی اس لیے مسلم لیگ ن کی جیت کوئی اچنبھے والی بات نہیں۔’حیرانی کی بات کامیابی اور ناکامی کا فرق ہے جو کہ کم و بیش اتنا ہی ہے جو عام انتخابات میں تھا۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے جیت کا سہرا مریم نواز کے طرز حکومت کے سر باندھا جا رہا ہے جبکہ ایسانہیں ہے؟ 2مہینے میں کیا ہوتا ہے اورانہوں نے ان دو مہینوں میں کیا کیا ہے۔ پہلے 2مہینے تو نئی حکومت چلانے والے بہت متحرک ہوتے ہیں۔ اس میں ان کا پروفائل بنتا ہے ان کی سمت کا تعین ہوتا ہے لیکن ابھی تک اس حکومت نے تو ایسا کچھ نہیں کیا۔ان انتخابات میں تحریک انصاف کو توقع کے برعکس نتائج نہ ملنے کی ایک یہ بھی ہے کہ 8 فروری کے مقابلے میں پی ٹی آئی کا چارجڈ ووٹر اور سپورٹر کم ہی نظر آیا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جب ووٹر یہ سمجھ جائے کہ ان کے ووٹ سے کیا فرق پڑے گا تو وہ ووٹ ہی کیوں ڈالے؟
ضمنی انتخابات دھاندلی کے منظم ماحول کے باوجود تحریک انصاف کے لیے ایک لمحہ فکریہ بھی بن چکے ہیں۔ کیونکہ ان انتخابات کے حوالے سے تحریک انصاف کے اندرپائے جانے والی بے سمتی سمیت کچھ مسائل آشکار ہوئے ہیں۔ ان انتخابات میں ضلع باجوڑ پختونخوا کا ایک قومی اور ایک صوبائی حلقہ ایسا ہے جس نے سیاسی پنڈتوں اور تجزیہ کاروں سمیت پورے سیاسی نظام کو بجلی نما جھٹکا دیا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تحریک انصاف پختونخوا کی مقبول ترین جماعت ہے اور وہاں ان سے الیکشن جیتنا خصوصاً جب حکومت ہی پی ٹی آئی کی ہو، انتہائی مشکل ہے، لیکن باجوڑ کے نتائج نے انہونی ہی کر دی۔ وہاں قومی اور صوبائی دونوں حلقوں سے تحریک انصاف کے امیدواروں کو آزاد امیدوار مبارک زیب نے حیرت انگیز شکست دی۔مبارک زیب کے بھائی ریحان زیب8 فروری کے انتخابات میں باجوڑ سے ہی قومی اسمبلی کے انتخابات آزاد حیثیت میں لڑ رہے تھے کیونکہ تحریک انصاف نے انہیں ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔9مئی سے پہلے اور بعد میں قید و بند برداشت کرنے والے ریحان زیب عمران خان کی جانب سے وعدے کے باوجود مقامی قیادت کی جانب سے ٹکٹ نہ ملنے پر دلبرداشتہ ہو کر آزاد الیکشن لڑ رہے تھے۔اس دوران طاقت پیسے اور موروثیت کے بل بوتے پر سیاست کے خلاف ان کی تقاریر کافی مقبول ہوئیں لیکن الیکشن سے چند دن پہلے وہ ایک قاتلانہ حملے میں جان سے چلے گئے، جس کے بعد باجوڑ میں انتخابات ملتوی ہو گئے۔ضمنی انتخابات میں ریحان زیب کے بھائی مبارک زیب نے قومی اور صوبائی دونوں نشستوں سے انتخابات لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کے ٹکٹ کے لیے درخواست دی لیکن مقامی قیادت اور عوامی مقبولیت کے باوجود ان سے بااثر اور رسوخ رکھنے والے امیدواروں کو ٹکٹ دے دیا گیا۔اس دوران مبارک زیب نے ایک ٹی وی انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ انہیں الیکشن نہ لڑنے کے عوض پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے 7 کروڑ روپے اور نوکری آفر کی اور جب وہ نہ مانے تو انہیں ڈرایا دھمکایا بھی گیا، لیکن انہوں نے الیکشن سے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا، اور ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی قیادت کو دھچکا دیتے ہوئے انہوں نے قومی اور صوبائی دونوں نشستیں اپنے نام کر لیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی خالی ہوئی جن نشستوں پر ”ضمنی انتخاب“ میں ”تخت یا تختہ“ والا ماحول نہیں بن پایا۔ جمہوری سیاست کا عمل اگر جاندار اور توانا مراحل سے گزررہا ہو تو ضمنی انتخابات ’تخت یا تختہ‘ والے معرکوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ سیاسی عمل کو متحرک رکھنے کے لیے تحریک انصاف اور دیگر حکومت مخالف جماعتیں اگر واقعتا سنجیدہ ہوتیں تو محض قومی اسمبلی کی لاہور سے خالی ہوئی ایک نشست پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے سیاسی محاذ پر تخت یا تختہ والی رونق لگائی جاسکتی تھی۔قومی اسمبلی کی 5اور صوبائی اسمبلی کی 16نشستوں پر جو انتخاب ہوئے ان کی تیاری کے لیے ایسی فضا بنی ہوئی نظر نہیں آئی چند مقامات پر سخت مقابلے کی فضا یقینا نظر آئی۔ پنجاب بھر میں بالعموم اور خصوصاََ لاہور میں مقابلہ ”یک طرفہ“ ہی رہااور مسلم لیگ (نون) 8فروری کے دن جیتے ہوئے حلقے بچانے میں کامیاب رہی۔ یہ حلقے بچالینے کے بعد مسلم لیگ (نون) اس تاثر کو شدت سے جھٹلانے کی کوشش کرے گی کہ اس نے نام نہاد ”فارم47“ کے ذریعے ”فارم 45“ کی بدولت رونما ہوئے انتخابی نتائج کو مبینہ طورپر اپنے حق میں دھونس دھاندلی کے ذریعے ”تبدیل“ کرلیا تھا۔اگر تحریک انصا ف ضمنی ا نتخاب کو جاندار بنانے میں سنجیدہ تھی تو اسے لاہور میں قومی اسمبلی کی اس نشست پر اپنی تمام تر توانائی مرکوز کردینا چاہیے تھی جو پنجاب کا وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کی خاطر مریم صفدر نے خالی کی تھی۔ فقط اس نشست پر ہوئے ضمنی انتخاب کو ”تخت یا تختہ“ والا معرکہ بناتے ہوئے تحریک انصاف اپنے اس دعویٰ کو ٹھوس مواد فراہم کرسکتی تھی کہ 8فروری کے انتخاب میں اس نے لاہور سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی زیادہ تر نشستیں جیت لی تھیں۔ نام نہاد ”فارم 47“ کے ذریعے انتخابی نتائج کو مگر دھونس اور دھاندلی سے بدل دیا گیا۔ مریم صفدر کی جانب سے مقابلے کی خاطر خالی چھوڑی قومی اسمبلی کی نشست جیتنے کیلئے تحریک انصاف کی قیادت کیلئے لازم تھا کہ وہ لاہور کو ”بیس کیمپ“ میں بدل دیتی۔ تحریک انصاف کے صف اوّل کے رہ نما اس شہر میں جمع ہوکر گلی محلوں میں روزانہ کی بنیاد پر عوامی رابطہ مہم کے سہارے یہ پیغام اجاگر کرسکتے تھے کہ شہر لاہوراب شریف خاندان کا قلعہ نہیں رہا۔ اس کے باسیوں کی اکثریت اپنا دل اب زمان پارک سے اڈیالہ جیل بھیجے گئے کپتان کے سپرد کرچکی ہے۔

تحریک انصاف اپنے دفاع میں یہ عذر تراش سکتی ہے کہ پولیس اور انتظامیہ اس کے بارے میں ”وحشی“ بن چکی ہے۔ ”ایجنسیاں“ اس کے سرگرم کارکنوں کا سراغ لگانے کو بے چین رہتی ہیں۔ ان کا پتہ چل جائے تو انہیں اٹھاکر سنگین مقدمات میں ملوث کردیا جاتا ہے۔ دوران گرفتاری تفتیش کے بہانے ظالمانہ تشدد کا شکار ہوا کارکن سیاسی جدوجہد میں حصہ لینے کے ناقابل بنایا جارہا ہے۔ تحریک انصاف کا جو دعویٰ ہے وہ مبالغہ آرائی کے باوجود قطعاََ غلط بھی نہیں۔ وطن عزیز میں برطانوی دور ہی سے حکمران مخالف سیاسی جماعتوں یا کارکنوں کی زندگیاں شدید مشکلات کا شکار رہی ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ہماری پولیس اور انتظامیہ حکمرانوں کے ناپسندیدہ افراد کو سبق سکھانے کو ہمہ وقت بے قرار رہتی ہے۔ اس کے با وجود 1950کی دہائی سے 1990کی دہائی تک حکومت مخالف سیاسی جماعتیں اور کارکن ضمنی انتخابات کو ”تاریخ بدلنے“ کیلئے استعمال کرنے کی سرتوڑ کوششیں کرتے رہے ہیں۔

ضمنی انتخابات میں جوہوا اسے 8فروری کے تناظر میں غیر متوقع نہیں کہا جاسکتا، تحریک انصاف کے متحرک حامیوں کو کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگا کہ تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود انہوں نے 8فروری2024ء کے روزِ انتخاب جو ”جلوہ“ دکھایا تھا اس کی گرم جوشی برقرار رکھنے میں وہ ناکام رہے ہیں۔ بانی تحریک انصاف ان دنوں جیل میں ہیں۔ ان سے وہاں مل کر آنے والا تقریباََ ہر شخص الگ الگ پیغام دیتا ہے۔ تحریک انصاف کے عام کارکنوں کی سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ ان کے کپتان کا ”حقیقی ترجمان“ کون ہے۔ وہ شیر افضل مروت کے بیانات کو بانی تحریک انصاف کے خیالات کا حقیقی عکاس تصور کریں یا بیرسٹر گوہر سے رہ نمائی کے طلب گار ہوں۔ اصولی طورپر قائد
حزب اختلاف تعینات کئے جانے کے بعد تحریک انصاف کی حتمی کمانڈ عمر ایوب خان کے سپرد ہونا چاہیے تھی۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ امریکہ میں ایک محاورہ ہے جو گلہ کرتا ہے ”اس قبیلے کا ہر شخص چیف یعنی سردار ہے“۔ تحریک انصاف اب ایسا ہی قبیلہ نظر آنا شروع ہوگئی ہے جس کی حمایت سے قومی یا صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں پہنچا ہر شخص اب ”سولو“ یا تنہا پرواز کو ترجیح دے رہا ہے۔
تنہا پروازی کی روش نے لاہور میں ہوئے ضمنی انتخابات کو سنجیدگی سے نہیں لیا وگرنہ اس شہر میں فقط مریم صفدر کی جانب سے خالی کردہ قومی اسمبلی کی نشست کو جیتنے کی بھرپور کوشش شریف خاندان کو شدید پریشان کرسکتی تھی۔ اس پہلو کی جانب عدم توجہی سے یہ نتیجہ اخذ کیاجاسکتاہے کہ8فروری کے بعد تحریک انصاف کی حمایت سے منتخب ایوانوں میں پہنچے افراد کے رویے نے عاشقان عمران خان کو مایوس کرنا شروع کردیا ہے۔ ان کی اکثریت نے سیاسی عمل سے دوری اختیار کرنا شروع کردی ہے۔ہماری سیاسی جماعتوں اور فرسودہ سیاسی نظام کے لیے اس ضمنی الیکشن کا سب سے حیرت انگیز اور سبق آموز نتیجہ باجوڑ کے انتخابات ہی تھے۔باجوڑ سے مبارک زیب کی جیت اس فرسودہ سیاسی نظام کی شکست ہے جہاں الیکشن صرف اور صرف پیسے، پاور اور موروثیت کا کھیل بن چکا ہے۔ یہی نظام پہلے تو ریحان زیب جیسے ایک غریب، محنتی اور ٹیلنٹڈ ورکر کو نگل گیا جس کے قاتلوں کا پی ٹی آئی ہی کی حکومت میں آج تک کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا۔پھر جب اس کے قتل کے بعد اس کا بھائی ریحان زیب میدان میں اترا تو اسے الیکشن سے دستبردار کروانے کے لیے دھمکیاں دی گئیں، لالچ دی گئی، لیکن داد دینی پڑے گی باجوڑ کے باشعور عوام کو جنہوں نے اپنے ووٹ کی طاقت سے فرسودہ سیاسی نظام کو جھنجھوڑ دیا۔یہ سبق صرف تحریک انصاف کے لیے نہیں جن کا دعویٰ ملک میں ووٹ کی طاقت سے حقیقی انقلاب برپا کرنا ہے، بلکہ ان تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ہے جن کی صفوں میں ایک عام ٹیلنٹڈ ورکر کا آگے آنا اب معیوب ہو چکا ہے۔عام انتخابات سے لے کر سینیٹ تک میں امیدواروں کا انتخاب کرنے میں جن عوامل کا کردار ہے اگر سیاسی جماعتوں نے اس پر توجہ نہ دی تو ان کو عوام کی جانب سے جھٹکوں کے لیے خود کو تیار کرنا پڑے گا۔یہ بات درست ہے کہ ریحان زیب کا تعلق بھی تحریک انصاف سے ہی تھا لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس نے اس فرسودہ سیاسی نظام کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے تحریک انصاف اور عمران خان ہی کے نامزد کردہ امیدواروں کو بری طرح شکست دی ہے۔پی ٹی آئی کو بھی یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اب عوام صرف انقلاب کے دعوے نہیں بلکہ میرٹ پر مبنی ایسا نظام چاہتے ہیں جہاں پیسے، طاقت اور اثر و رسوخ کے بل بوتے پر آنے والوں کی بجائے ریحان زیب جیسی عوام کی حقیقی آوازیں گونجیں۔ورنہ عمران خان ہوں، نواز شریف، بلاول زرداری یا پھر مولانا فضل الرحمن سب کے ’انقلاب‘ کی اصلیت کو عوام باجوڑ کے نتائج کے جھٹکے کی صورت میں سامنے لاتے رہیں گے۔
۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں