میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نیٹو کے معاملے پر یورپ اور ٹرمپ میں تصادم کے آثار

نیٹو کے معاملے پر یورپ اور ٹرمپ میں تصادم کے آثار

منتظم
هفته, ۱۲ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

نومنتخب امریکی صدر کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یورپ کیا ہے اور کیسے کام کرتا ہے،یورپی یونین کمیشن کے سربراہ جان کلاڈیونکرکا طنز
او آئی سی ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ سے روابط بڑھانے کی خواہاں ۔ ٹرمپ کی جیت اور برطانیہ کی یورپ سے علیحدگی نے نظام کو ہلا کر رکھ دیا ،برطانوی تجزیہ کار
ابو محمد
یورپی کمیشن کے سربراہ جان کلاڈ یونکر نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکا کا صدر منتخب ہونا یورپی یونین اور امریکا کے درمیان تعلقات کے لیے خطرناک ہے۔لیکسمبرگ میں ایک کانفرنس میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے یونکر کا کہنا تھا کہ امریکی انتخابات میں حیرت انگیز صورت میں فتح یاب ہونے والی شخصیت یورپی یونین اور اس کے کام کرنے کے طریقہ کار سے ناواقف ہے۔یونکر نے مزید کہا کہ ٹرمپ کے منتخب ہونے سے دونوں براعظموں کے درمیان تعلقات کے بنیادی شکل میں عدم استحکام کا شکار ہونے کا خطرہ ہے۔ یونکر کا شمار یورپ میں با اثر ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔مذکورہ بیان ٹرمپ کے انتخاب کی وجہ سے یورپی حلقوں میں وسیع پیمانے پر پائی جانے والی بے چینی کی ترجمانی کرتا ہے۔ ٹرمپ نیٹو کے مشترکہ دفاع کے اصولی موقف کے متعلق متنازع بیان دے چکے ہیں۔یونکر نے سکیورٹی پالیسی کے بارے میں ٹرمپ کے بیان کے "بھیانک” نتائج سے خبردار کیا۔ انہوں نے اس بیان کا بھی ذکر کیا جس میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بیلجیئم جہاں یورپی یونین اور نیٹو کے صدر دفاتر واقع ہیں کوئی ملک نہیں بلکہ ایک شہر ہے۔یونکر کے مطابق "ہمیں منتخب صدر کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یورپ کیا ہے اور کیسے کام کرتا ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی عام طور پر یورپ کی طرف توجہ کا اظہار نہیں کرتے ہیں۔یونکر نے واضح کیا کہ ” میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں دو سال ضایع کرنے ہوں گے یہاں تک کہ جناب ٹرمپ اس دنیا کو گھوم لیں جس کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے”۔ یونکر نے ایک بیان میں عالمی تجارت ، ماحولیاتی تبدیلی اور مغربی دنیا میں سکیورٹی کے حوالے سے ٹرمپ کی آرا کو مشکوک نظر سے دیکھتے ہوئے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔دوسری جانب اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی )ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ سے روابط بڑھانے کی خواہاں ہے ۔ اوآئی سی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ریاست ہائے متحدہ امریکا کا پینتالیسواں صدر منتخب ہونے پر مبارک باد دی ہے اور ان کی انتظامیہ کے ساتھ دنیا میں امن کے فروغ کے لیے روابط بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔او آئی سی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس کے امریکا کے ساتھ گزشتہ برسوں کے دوران اچھے اور سود مند تعلقات استوار ہوئے ہیں۔اس نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکا کی نئی انتظامیہ کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی یہ تعمیری تعلقات جاری رہیں گے۔ستاون اسلامی ممالک پر مشتمل اس تنظیم نے کہا ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی موجودہ دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ قریبی روابط استوار کرنے کو تیار ہے تاکہ دنیا کو درپیش چیلنجز سے مشترکہ طور پر نمٹا جا سکے اور پرامن بقائے باہمی ،مفاہمت اور ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے۔
کرس ڈوئل جو برطانیہ میں قائم کونسل برائے عرب برطانیہ مفاہمت کے ڈائیرکٹر ہیں انہوں نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی (بریگزٹ ) اور ٹرمپ کی جیت کو دھماکا خیز قرار دیا اور تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سال 2016ء نے اکیسویں صدی کی سب سے بڑی ڈرامائی انتخابی مشقیں ملاحظہ کی ہیں۔بریگزٹ : ریفرینڈم جس میں برطانویوں نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا اور اب امریکا کے صدارتی انتخابات میں جیت کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا وائٹ ہاو¿س پہنچنا۔جون میں منعقدہ بریگزٹ ووٹ کے مضمرات و عواقب ابھی تک غیر واضح ہیں اور ٹرمپ کی جیت کے جائزے میں برسوں نہیں تو مہینوں ضرور لگیں گے۔ان ہر دو صورتوں کا اگر زیادہ باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے تو ان کے مضمرات بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ بہت سے لوگ ان دونوں زلزلوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ بھی ایک کوشش ہی ہے۔سیاسی ریکٹر اسکیل پر یہ دونوں زلزلے تھے اور ان سے ووٹ ڈالنے والوں کو سبکی ہوئی ہے۔دونوں ”مزاحمتی” مہمیں ایک حقیقی سیاسی منصوبے کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی ہیں۔ یہ دراصل موجودہ سیاسی آرڈر کا بڑے پیمانے پر استرداد ہے جہاں مہارت اور حقائق کی کچھ اہمیت نہیں ہوتی ہے اور انھیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔امید کی ایک کرن یہ ہے کہ ان دونوں انتخابات میں نوجوانوں کی بڑی اکثریت نے ووٹ نہیں دیا ہے اور یہ کوئی نوجوانوں کا انقلاب نہیں تھا۔
البتہ قابل تشویش پہلو یہ ہے کہ ان دونوں مہموں نے یہ واضح کردیا ہے کہ یہ دونوں قومیں کس قدر منقسم اور بٹی ہوئی ہیں۔اس معاملے میں یہ دونوں ممالک اکیلے نہیں ہیں۔آیندہ ماہ آسٹریا کے صدر کے انتخاب کے دوسرے مرحلے کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے اور دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت فریڈم پارٹی کے نوربرٹ ہوفر شاید جیت جائیں گے۔آیندہ سال فرانس کے صدارتی انتخابات میں میرین لی پین کی جیت کےامکان کو کون مسترد کرسکتا ہے؟ یورپ کے جمہوری کلچر کو ایک تاریخی چیلنج درپیش ہوگا۔
دونوں انتخابات میں مضحکہ خیز نعرے لگائے گئے تھے۔مثلاً ”کنٹرول واپس لیں” اور ”امریکیوں کو ایک مرتبہ پھر عظیم بنائیں” ایسے نعرے بلند کیے گئے۔ٹرمپ نے بہ ذات خود بریگزٹ سے آگے بڑھنے کا غلغلہ بلند کیا اور وہ ”بریگزٹ پلس، پلس ،پلس ” کے نعرے بلند کرتے رہے ہیں۔دونوں صورتوں میں مایوس ووٹروں نے منفی راستے کا انتخاب کیا،موجودہ نظام کو مسترد کیا اور انھوں نے یہ سب کچھ مکمل طور پر ایک غیر واضح راستے کے حق میں کیا۔
طبقہ اشرافیہ بری طرح ناکام ہوا ہے۔بریگزٹ کے صف اول کے سیلزمین بورس جانسن بھی شاید مشکل ہی سے جانتے ہوں گے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔برطانوی حکومت ابھی تک اس سے آگاہ نہیں۔ ٹرمپ صاحب کے پالیسی بیانات عام طور پر ایک سو چالیس الفاظ یا اس سے بھی کم پر مشتمل ہوتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ چند ایک اہم عہدوں کے سوا یقین سے کوئی نہیں جانتا کہ صدر ٹرمپ کیا کریں گے،بالکل ہماری طرح کوئی نہیں جانتا کہ بریگزٹ برطانیہ کے ساتھ بھی اسی طرح کا معاملہ ہوگا۔
تعصب ، نفرت اور نسل پرستی ان دونوں مہموں اور خاص طور پر ٹرمپ کی مہم میں ایک ایندھن کے طور پر کام کررہے تھے۔اب نسل پرستی ایک انتخابی اثاثہ ٹھہرا ہے۔برطانیہ میں اگرچہ بریگزٹ مہم کا مہاجرین ،تارکین وطن اور مسلم مخالف جذبات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔اس نے ٹرمپ کی ریلیوں کی گیرائی اور گہرائی کو سمجھنے کا آغاز بھی نہیں کیا تھا۔
ٹرمپ نے جان بوجھ کر اور کھلے عام منافرت ، نسل پرستی اور صنفی فاشسٹ پر مبنی مہم چلائی اور ایسی مہم تو شاید ہی کسی جمہوری قوم نے دیکھی ہوگی۔اگرچہ وہ اس بات سے آگاہ ہیں اور انھوں نے جیت کے بعد اپنی پہلی تقریر میں بھی اس جانب اشارہ کیا ہے کہ وہ نفرت اور تقسیم کی بنیاد پر افسوس ناک انداز میں انتخابات تو جیت سکتے ہیں لیکن وہ اتفاق رائے اور اتحاد کے ساتھ ہی ملک کا نظم ونسق چلا سکتے ہیں۔
برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلاءایک طویل المیعاد فیصلے کا نتیجہ تھا۔اس کے ذریعے اس نے نہ صرف یورپ بلکہ پوری دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات پر مکمل طور پر نظرثانی کی ہے۔اس سے برطانیہ بھی بکھر سکتا تھا۔جن لوگوں نے ٹرمپ کو ووٹ نہیں دیا ہے،ان کے لیے ریلیف یہ ہے کہ وہ آیندہ چار سال کے دوران انھیں اقتدار سے نکال باہر بھی کرسکتے ہیں۔
تقسیم اور نفرت بہت گہری ہے۔بریگزٹ والوں نے یورپی یونین کو مسترد کردیا تھا لیکن ان سب نے یہ دعوے کیے تھے کہ وہ پوری دنیا کے لیے اپنے در وا کرنا چاہتے ہیں اور نئے سرے سے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ آزاد تجارت کے مخالف ہونے کے دعوے دار ہیں (حالانکہ وہ ایک طویل عرصے تک اس سے مستفید ہوتے رہے ہیں)۔وہ اب امریکا کے مختلف تجارتی معاہدوں کو ختم کردیں گے۔بریگزٹ ایک مبہم مہم تھی اور اس نے ہیلری کلنٹن کی غیر جاذب اور کسی وژن کے بغیر کوشش کی طرح مشکل سے ہی متاثر کیا تھا۔تاہم ٹرمپ ہجوم سے کھیل رہے تھے اور ایک رومن شہنشاہ کی طرح لوگوں کی تفریح طبع کا ساماں کررہے تھے۔ان کی مہم توانا تھی ،اس سے لوگ محظوظ ہورہے تھے اور یہ کبھی شہ سرخیوں سے غائب نہیں رہی تھی۔ان کے جارحانہ انداز نے مہم کو اور مہمیز دی تھی۔اب اس بات کا کم امکان ہے کہ وہ اسی انداز میں حکومت بھی کریں۔
بہر کیف ،ان دونوں منصوبوں کو مکمل یا جزوی طور پر ناکام ہوتے ہوئے دیکھنا مشکل ہوگا۔بریگزٹ سے پورے یورپ کو نقصان پہنچ سکتا ہے،صرف یورپی یونین ہی کو نہیں۔عشروں تک وہ ایشوز حل نہیں ہوں گے جن کی برطانیہ میں بہت سے لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں۔ٹرمپ نے اپنی پالیسیوں کے حوالے سے بہت کم لب کشائی کی ہے،اس لیے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ وہ اپنی موٹی چھوٹی انگلیوں سے کوئی کرتب کر دکھائیں گے اور ان کے ذریعے ایک ہیٹ سے خرگوش نکال باہر کریں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں