تھر میں گورانو ڈیم کی تعمیر پر مقامی لوگوں کی بے چینی اوراعتراضات دور کرنے کی ضرورت
شیئر کریں
ماہرین ماحولیات اور حقوق انسانی کی تنظیموں نے گزشتہ روز حکومت اور تھر پارکر میں کوئلہ نکالنے اوراس سے بجلی کی تیاری کے تھر کول منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی پر زور دیاہے کہ وہ علاقے میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے گورانو ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے کھڑے ہونے والے سوالات اور تنازعات کو فوری طورپر طے کرے اور اس حوالے سے عوام خاص طورپر اس علاقے کے عوام کے مفادات اور خواہشات کو اولیت دی جائے۔تاکہ صوبے کی ترقی کے ایجنڈے میں کوئی رکاوٹ پیداہونے کا خدشہ نہ رہے۔کراچی میں حقوق انسانی کے حوالے سے کام کرنے والی ایک تنظیم قومی کمیشن برائے حقوق انسانی نے گزشتہ دنوں اس حوالے سے ایک سیمینار کا بھی اہتمام کیا۔اس سیمینار میں معاشرے کے مختلف طبقہ خیال سے تعلق رکھنے والے لوگوں جن میں سرکاری افسران کے علاوہ اس پراجیکٹ پر کام کرنے والے ادارے سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے افسران اور ماہرین نے حصہ لیا اور اس پراجیکٹ کے حوالے سے اپنے خیالات کااظہار کیا۔
اس علاقے میں گورانو ڈیم کی تعمیر کا اصل مقصد اس پروجیکٹ کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ ارد گرد کے ماحول کو بہتر بنانا ہے۔ قومی کمیشن برائے حقوق انسانی کے صدر ریٹائرڈ جسٹس علی نواز چوہان نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے تھر کے عوام کی مفلوک الحالی اور بے بضاعتی پر روشنی ڈالتے ہوئے حکومت پر اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ نہ دینے کا الزام عایدکیا۔اس حوالے سے انھوں نے تھرپارکر کے اپنے دوروں کاذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں اس علاقے میں ہر طرف غربت اور بھوک رقص کرتی نظر آئی۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ تھر جیسے دور افتادہ علاقے میں سرکاری اداروں کی بد انتظامی،سرکاری افسران اور سیاستدانوں کی مبینہ کرپشن اور علاقے کے عوام کے مسائل سے حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے نہ تو علاقے کے لوگوں کو پینے کاصاف پانی میسر ہے اور نہ ہی تعلیم اور علاج معالجے کے سہولتیں۔اس علاقے کے عوام کو درپیش مسائل اور لوگوں کی بے بسی کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران اس علاقے میں 400کمسن بچے غیر طبعی موت کاشکار ہوئے۔
ریٹائرڈ جسٹس علی نواز چوہان نے یہ بھی بتایا کہ انھوں نے مجوزہ گورانو ڈیم کی تعمیر سے متاثر ہونے والے افراد کے علاوہ اردگرد کے لوگوںسے بھی ملاقات کی اوران لوگوں نے اس ڈیم کی تعمیر سے علاقے کے ماحول پر ممکنہ طورپر پڑنے والے منفی اثرات کے بارے میں اپنے خدشات سے انھیں آگاہ کیااور اس حوالے سے ان کے خدشات درست معلوم ہوتے ہیں۔ ریٹائرڈ جسٹس علی نواز چوہان کاکہناتھا کہ علاقے میں ترقیاتی کاموں میں علاقے کے عوام کی بہبود کو نہ صرف یہ کہ مدنظر رکھاجانا بلکہ اولیت دی جانی چاہئے ۔علاقے کے عوام کی بہبود کو نظر انداز کرکے انجام دئے ہوئے کاموں کے حوالے سے تشویش کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔
سیمینار کے پہلے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے علاقے تھر ڈیپ مائیکرو فنانس کے چیف ایگزیکٹو افسر ڈاکٹرسونو کھنگرانی نے کہا کہ اس علاقے میںڈیم کی تعمیر سے علاقے کی ریگستانی حیثیت پر سنگین اور تباہ کن اثرات رونما ہوں گے۔تھر پارکر کے کمیونٹی رہنما علی اکبر راہمون نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا۔علی اکبر راہمون نے کہا کہ اس پراجیکٹ سے صرف اسلام کوٹ اور مٹھی ہی کو نہیں بلکہ اس پورے علاقے کو نقصان پہنچے گا،انھوں نے کہا کہ اس علاقے میں حکومت کی جانب سے کوئی سرگرمی نظر نہیںآرہی اور ایسا محسوس ہوتاہے کہ حکومت اس حوالے سے عوام کے اعتراضات اور اس ڈیم کی تعمیر کی صورت میں علاقے کے ریگزار بن جانے کے بارے میں عوام کے ذہنوں میں پیداہونے والے شکوک شبہات کو دور کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔انھوں نے کہا کہ علاقے کے لوگ تھر کی ترقی کے مخالف نہیں ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ یہ ترقی انھیں مزید بھوک افلاس اور پسماندگی میں دھکیلنے کاسبب نہ بنے۔انھوں نے کہا کہ تھر کے عوام غریب اور بے بس ہیں اور خدشہ ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے وہ اپنے گھروں اور صاف ہوا سے بھی محروم ہوجائیں گے۔
سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو افسرشمس الدین اے شیخ نے اس موقع پر اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے اس اہمیت پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ یہ پراجیکٹ پاک چین اکنامک کوریڈور کاایک حصہ ہے اور اس کی تکمیل سے علاقے کو کم قیمت پر ان کی ضرورت کے مطابق بلاتعطل بجلی ملنے لگے گی جس سے علاقے کی ترقی کاپہیہ تیزی سے گردش کرنے لگے گااور یہ منصوبہ سندھ کی ترقی میں اہم اور کلیدی کردار ادا کرے گا۔انھوںنے اس منصوبے سے علاقے کے لوگوں کو ہونے والے نقصانات کے بارے میں اعتراضات اور خدشات کوبے بنیاد قرار دیتے ہوئے انھیں این جی اوز کاپراپیگنڈا قرار دیا اور کہاکہ کمپنی نے اس پراجیکٹ سے متاثرہ لوگوں کی بحالی کاپروگرام تیار کرکے حکومت سے اس کی منظوری حاصل کرلی ہے اس لیے کسی بھی شخص کے بے گھر ہونے کاکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔انھوں نے کہا کہ ہم مقامی لوگوں کو اس پراجیکٹ سے فائدہ اٹھانے والا تصور کرتے ہیں انھیں متاثرین تصور نہیں کرتے ۔انھوں نے بتایا کہ اس منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی نے تھر فائونڈیشن کے نام سے ایک ادارہ قائم کردیا ہے جو علاقے کے لوگوں کی بہبود کے لیے کام کررہاہے اور اس حوالے سے منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ ملک کے دیگر علاقوں میں تعمیر کیے گئے تربیلہ اورمنگلہ ڈیمز کے برعکس اس پراجیکٹ پر 77 فیصد تھر کے باشندوں کوروزگار دیاجائے گا۔اس کے علاوہ اس علاقے کے عوام کی تعلیم ، روزگار اور علاج معالجے کی سہولتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوگا جس سے علاقے کے لوگوں کے مسائل اور مشکلات میں کمی آئے گی۔
سیمینار کے دوسرے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے شہری منصوبہ بندی کے ماہر عارف حسن نے دعویٰ کیا کہ اس منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی نے ابھی تک اس ڈیم سے متاثر ہونے والے لوگوں کی دوبارہ آبادکاری اور بحالی کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ہے اس لیے علاقے کے متاثرین کے مسائل حل کرنا مشکل ہوجائے گا۔انھوںنے کہاکہ یہ بات واضح ہے کہ تھر میں شروع کیے گیے اس منصوبے میں وعدے اور دعوے کے مطابق تھر کے تمام باشندوں کوملازمت نہیں دی جاسکے گی اور اس پراجیکٹ کے لیے شہروں سے افرادی قوت لانا پڑے گی جس سے علاقے کے باشندوں کے ساتھ ان کاانضمام ایک مسئلہ بن سکتاہے جبکہ اس طرح تھر کے باشندے پھر ان سے ملنے والی امدا د یا ان کے ذریعے ہونے والی آمدنی کے محتاج ہوکر رہ جائیں گے،انھوں نے کہا کہ علاقے کی ترقی کے لیے ایک مضبوط ادارہ جاتی انتظامی ڈھانچے اور انفرااسٹرکچر کی ضرورت ہے جس کااس علاقے میں فقدان ہے اس کے بغیر تھرکول پر کام کرنے والے ادارے کے ارباب اختیار اس علاقے کے لوگوں کوترقی کاخواب کس طرح دکھارہے ہیں اور وہ اس خواب کو کس طرح شرمندہ تعبیر کرسکیں گے یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس علاقے میں تھرکول پراجیکٹ کے حوالے سے شکوک وشبہات اور خدشات جنم لے رہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط تر ہوتے جارہے ہیں۔
سیمینار میں شریف ڈاکٹر سونوکھنگرانی کاکہناہے کہ تھر کول پراجیکٹ کی انتظامیہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس پراجیکٹ میں تھر کے 50 ہزار افراد کو ملازمتیں فراہم کی جائیں گی لیکن ابھی تک یہ دعویٰ محض سراب نظر آتاہے کیونکہ اس پراجیکٹ پر کام کے لیے زیادہ تر ہنر مند اور تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت ہوگی جبکہ تھر کے عوام کی اکثریت ناخواندہ ،نیم خواندہ اور بے ہنر ہے ، اگر ادارہ واقع مقامی لوگوں کو ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنا چاہتا ہے تو اسے مقامی لوگوں کو اس ادارے کی ضرورت کے مطابق ہنر سکھانے کا انتظام کرنا چاہئے تھا یہ کام ہنر سکھانے کے چند اچھے ادارے قائم کرکے کیاجاسکتاتھا اور جوں جوں یہ پراجیکٹ مکمل ہوتاجاتا ان اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوان جنھیں دوران تربیت اس پراجیکٹ میں انٹرن شپ دی جاسکتی ادارے میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے جاتے اس سے مقامی آبادی کو یک گونہ سکون ملتا کہ ان کے بچے کوئی ہنر سیکھ رہے ہیں اور اس پراجیکٹ کی وجہ سے ان کا مستقبل تابناک ہوجائے گا لیکن اس ادارے نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں کی ہے،اس لیے مقامی لوگوں کو ملازمتوں کی فراہمی کا وعدہ بھی سراب ہی نظر آتاہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس معاملے میں مداخلت کرے اور اس پراجیکٹ پر کام کرنے والے ادارے کو مقامی لوگوں کو ادارے کی ضرورت کے مطابق ہنر سکھانے انھیں انٹرن شپ کے مواقع فراہم کرنے اور فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں کو ملازمتوں کی فراہمی کا پابند بنائے۔جب تک ایسا نہیں ہوگا اس ادارے اور پراجیکٹ کے بارے میں شکوک وشبہات تقویت پکڑتے جائیں گے اور مقامی آبادی میں اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیچینی کے نتیجے میں پراجیکٹ کی تکمیل میں رکاوٹیں پیداہوسکتی ہیں۔امید کی جاتی ہے کہ ارباب اختیار اور خود اس پراجیکٹ کے ذمہ دارحکام خود اپنے اور اپنے ادارے کے مفاد کے تحت اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ دیں گے۔