میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ملک کی سا لمیت اور وفاقی ڈھانچے کو لاحق خطرات

ملک کی سا لمیت اور وفاقی ڈھانچے کو لاحق خطرات

ویب ڈیسک
منگل, ۱۰ جون ۲۰۲۵

شیئر کریں

ڈاکٹر سلیم خان

 

مرکزی حکومت ملک کے وفاقی ڈھانچے کو اپنے مقرر کردہ گورنرس کی مدد سے اندر ہی اندر کھوکھلا کرنے پر تلی ہوئی ہے لیکن اس راستے میں عدالتِ عظمیٰ رکاوٹ کھڑی کردیتی ہے ۔اس بناء پر ملک کے اندر عدلیہ اور مقننہ کے درمیان ایک سرد جنگ جاری ہے مگر اس کو ہندو مسلم یا ہندوستان پاکستان تنازع کی دبیز چادر سے ڈھانپ دیا جاتا ہے ۔ عدالت کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے کی ذمہ داری فی الحال نائب صدر مملکت جگدیپ دھنکھراور رکن پارلیمان نشی کانت دوبے جیسے لوگ ادا کرتے ہیں۔ عدلیہ اور مقننہ کے درمیان جو ‘چیک اینڈ بیلنس’ کا نظام ہے اس کو بگاڑنے کی ناپاک مہم میں نائب صدر دن رات لگے رہتے ہیں اور کوئی موقع نہیں گنواتے کیونکہ ان کے سر پر اقتدار کا سایہ ہے ۔ دہلی یونیورسٹی کے اندر ماہِ اپریل میں جگدیپ دھنکھر نے عدلیہ پر مقننہ کی برتری کے زیرِ موضوع بہت طویل اور واضح پروچن دیا اور بولے آئین پارلیمنٹ سے اوپر کسی طاقت کا تصور نہیں کرسکتا ۔
عدلیہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا پارلیمنٹ سپریم ہے اور یہ صورتحال ہر شہری پر لاگو ہوتی ہے ۔ یعنی عدلیہ کو مقننہ کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا ہوگا۔ نائب صدر مملکت نے اپنے اس دعویٰ کی دلیل میں کہا ‘ہم ہندوستانی عوام آئین کے تحت اپنے عوامی نمائندوں کے ذریعہ اپنی امنگوں اور خواہشات کا اظہار کرتے ہیں اور انتخاب کے ذریعہ نمائندوں کو جوابدہ ٹھہراتے ہیں۔موصوف فرماتے ہیں آئین عوام کے لیے ہے اور اس کے تحفظ کی ذمہ داری منتخب نمائندوں پر عائد ہوتی ہے ۔ آئین کے مندرجات کیا ہوں گے اس کے حتمی مالک وہی ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی گروہ کسی تکڑم سے اقتدار پرقابض ہوجائے تو اسے آئین کے ساتھ کھلواڑ کا پورا اختیار حاصل ہوجائے گا اور وہ اپنی من مانی کرنے کے لیے شتر بے مہار ہوگا ۔عدلیہ کو آئین میں تسلیم شدہ بنیادی اصول وضوابط کو پامالی سے روکنے کے اختیارکو اس سے چھین لینے کی ایک سازش کا حصہ بن کر نائب صدر نے فرمایا کہ عدالت کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ گورنروں کی زیادتی پر صدر کو ہدایت دے ۔ پہلے تو یہ بات اشاروں میں تھی مگر آگے چل کر بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ تمل ناڈو کے نامزد گورنر جب وہاں کے چنندہ نمائندوں کے ذریعہ منظور شدہ نمائندوں کے قوانین پر سانپ بن کر بیٹھ گئے تو جگدیپ دھنکھر کو ان کی مخالفت کرنی چاہیے تھی مگر بھلا ہو منافقت کا کہ جب عدلیہ نے گورنر کی سرزنش کرتے ہوئے صدر مملکت کو تین ماہ بعد ان فیصلوں پر دستخط کرنے کی سفارش کی تو دھنکھر نے پینترا بدل دیا ۔تمل ناڈو کے گورنر کی زیادتی پر جب سپریم کورٹ نے نکیل کسی تو اس فیصلے پر نہ صرف نائب صدر نے تنقید کی بلکہ صدر جمہوریہ نے بھی اعتراض کردیا ۔
صدر مملکت محترمہ دروپدی مرمو نے سپریم کورٹ سے پوچھا کہ گورنر کے سامنے کوئی بل پیش کیا جاتا ہے ، تو آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت اس کے پاس کیا اختیارات ہیں؟ کیا گورنر ان اختیارات کے باوجود وزراء کی کونسل کے مشورے کا پابند ہے ؟ کیا آرٹیکل 200 کے تحت گورنر کی طرف سے لیا گیا فیصلہ عدالتی نظرثانی سے مشروط ہو سکتا ہے ؟ کیا آرٹیکل 361 آرٹیکل 200 کے تحت گورنر کے فیصلوں پر عدالتی نظرثانی کو مکمل طور پر روک سکتا ہے ؟ کیا عدالتیں آرٹیکل 200 کے تحت گورنر کے فیصلوں کے لیے ایک وقت کی حد مقرر کر سکتی ہیں، جب کہ آئین میں ایسی کوئی مدت مقرر نہیں کی گئی ہے ؟ کیا آرٹیکل 201 کے تحت صدر کی طرف سے لیے گئے فیصلے پر نظرثانی کی جا سکتی ہے ؟ کیا عدالتیں آرٹیکل 201 کے تحت صدر کے فیصلے کے لیے وقت کی حد مقرر کر سکتی ہیں؟ اگر گورنر نے بل کو فیصلے کے لیے محفوظ کر رکھا ہے تو کیا سپریم کورٹ کو آرٹیکل 143 کے تحت ان سے مشورہ لینا چاہیے ؟
صدر مملکت نے یہ بھی دریافت کیا کہ گورنر اور صدر کی جانب سے آرٹیکل 200 اور 201 کے تحت جو فیصلے کیے گئے ہیں کیا نفاذ سے قبل عدالتیں ان کی سماعت کر سکتی ہیں؟ کیا سپریم کورٹ آرٹیکل 142 کے ذریعے صدر اور گورنر کے آئینی اختیارات کو تبدیل کر سکتی ہے ؟ کیا ریاستی حکومت آرٹیکل 200 کے تحت گورنر کی منظوری کے بغیر قانون بنا سکتی ہے ؟ مندرجہ بالا سوالات کی بھر مار کا مقصد گورنر کے ذریعہ مرکزی حکومت کی داداگیری کو جواز فراہم کرکے عدلیہ پر دباو ڈالنا نہیں تو کیا ہے ؟ یہ ملک کے وفاقی ڈھانچے کی کھلی خلاف ورزی ہے اس لیے تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے ان سے ناراض ہو کر کہا کہ”میں مرکزی حکومت کے صدر سے متعلق معاملے کی سخت مذمت کرتا ہوں، جو عزت مآب سپریم کورٹ کے ذریعہ طے کردہ آئینی حالت کو الٹنے کی کوشش ہے ”۔
تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ نے ان سوالات ناراضی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ تمل ناڈو بمقابلہ گورنر معاملے میں سپریم کورٹ کے ذریعہ دیے گئے فیصلے کو مرکزی حکومت پلٹنا چاہتی ہے ۔ اس سے یہ صاف ہو گیا ہے کہ تمل ناڈو کے گورنر نے بی جے پی کے اشارے پر عوامی مینڈیٹ کو کمتر کیا۔ اسٹالن نے مزید کہا کہ یہ جمہوری طور سے منتخب کردہ حکومت کو کمزور کرنے اور انھیں مرکزی حکومت کے ایجنٹ کی طرح کام کرنے والے گورنرس کے کنٹرول میں دینے کی کوشش ہے ۔ ساتھ ہی یہ آئین کی تشریح کرنے والے سپریم کورٹ کو بھی چیلنج ہے ۔ صدر جمہوریہ کے ذریعہ کیے گئے سوالات کے جواب میں انہوں نے پوچھا کہ آخر گورنرس کے لیے مدت کار طے کرنے میں کیا اعتراض ہے ؟ کیا بی جے پی بلوں کو روکنے کی گورنرس کی کوشش کو جائز کرنا چاہتی ہے ؟ کیا مرکزی حکومت غیر بی جے پی حکمراں ریاستوں اور ان کی اسمبلیوں کو اپاہج بنانا چاہتی ہے ؟
وزیر اعلیٰ اسٹالن نے اس معاملے میں غیر بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں کو متحد ہو کر ایک پلیٹ فارم پر آنے کی گزارش کی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا ملک ایک اہم موڑ پر ہے ۔ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا بی جے پی کی مرکزی حکومت آئین میں موجود طاقتوں کی تقسیم کو بگاڑنا چاہتی ہے ، تاکہ اپوزیشن پارٹیوں کی حکومت والی ریاستوں کو کمزور بنایا جا سکے ۔ یہ ریاست کی خود مختاری کے لیے براہ راست خطرہ ہے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں سبھی غیر بی جے پی حکمراں ریاستوں اور پارٹیوں کے لیڈران سے اس قانونی اور آئین کو بچانے کی جنگ میں متحد ہونے کی اپیل کرتا ہوں۔ ہم اس جنگ کو پوری طاقت سے لڑیں گے اور تمل ناڈو جیتے گا۔ اس طرح مودی حکومت نے اقتدار کے نشے میں ملک
کی سالمیت کے لیے خطرات پیدا کردئیے اور عدلیہ کو کمزور کرکے نظام عدالت کو کھوکھلا کرنے کی جو کشش کی ہے اس کی قوم کو بہت بڑی قیمت چکانی پڑے گی؟
نام نہاد جمہوریت پسند نائب صدر کو چاہیے تھا کہ اس تنازع میں عوامی نمائندوں کی حمایت میں گورنر کی مخالفت اور عدلیہ کی تائید کرتے مگر وہ بولے اب آرٹیکل 142 ایک ‘نیوکلیئر میزائل’ بن گیا ہے جو جمہوریت کو 247 دھمکاتا رہتا ہے ۔ انہوں نے سوال کیا کہ ‘اگر عدالت صدر کو ہدایت دینے لگے کہ اتنے وقت کے اندر فیصلہ کریں ، ورنہ وہ قانون بن جائے گا تو کیا یہ آئین کی حدود کی خلاف ورزی نہیں ہے ؟’ جواب یہ ہے کہ بالکل نہیں ہے ۔ گورنر کو عوام منتخب نہیں کرتے بلکہ ان کا تقرر ہوتا ہے مگر اسمبلی کے ارکان تو منتخب شدہ ہوتے ہیں ۔ اس طرح دھنکھر خود اپنے جال میں پھنس گئے ۔ جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی پر اظہار خیال کرنے والے جگدیپ دھنکھر بھول گئے کہ سرکاری قوانین کو منظور کرانے کے لیے ڈیڑھ سو سے زیادہ ارکان پارلیمان کو معطل کرکے ان کا گلا گھونٹنے کا اعزاز انہیں کو حاصل ہے ۔ اس لیے بڑی بڑی باتیں کرنے والوں کو کبھی کبھاراپنے گریبان میں جھانک کر اپنا عمل بھی دیکھ لینا چاہیے ۔
ملک کے 52 ویں چیف جسٹس نے حلف اٹھانے کے بعد بار کونسل مہاراشٹر و گوا کی جانب سے منعقدہ ایک استقبالیہ تقریب میں ریاستی وکلا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عدلیہ و مقننہ کے تنازع پر کھل کر اظہا ر کیا کیونکہ وہ طول پکڑ کر اپنے حدود سے تجاوز کرنے لگا تھا۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی نے اس بابت زور دے کر کہا کہ نہ عدلیہ، نہ انتظامیہ اور نہ ہی پارلیمنٹ اعلیٰ ترین ادارہ ہے بلکہ اصل بالادستی آئینِ ہند کی ہے ، اور آئین کے مطابق تمام ستونوں کو مل کر کام کرنا چاہیے ۔چیف جسٹس گوائی نے واضح کیا کہ ملک کا بنیادی ڈھانچہ مضبوط ہے اور آئین کے تمام تین ستون برابری کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔انہوں نے نائب صدر کا نام لیے بغیراشارے کنائے میں یہ تلقین کردی کہ ” آئینی اداروں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ احترام کا رویہ اپنائیں اور تعاون کریں۔ اس دوٹوک موقف نے عارضی طور پر حکومت کو آئینہ دکھا دیا لیکن چونکہ یہ سنگھ پریوار کے بنیادی اہداف میں سے ایک ہے اس لیے یہ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آئیں گے اور نادانستہ طور پر ملک کی سالمیت و استحکام کے لیے خطرہ بن جائیں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں