میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
9 مئی والوں کے مقدمات ملٹری کورٹس میں کیوں گئے؟سپریم کورٹ

9 مئی والوں کے مقدمات ملٹری کورٹس میں کیوں گئے؟سپریم کورٹ

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۰ جنوری ۲۰۲۵

شیئر کریں

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے رکن جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہے کہ یہ تفریق کیسے ہوئی کہ کچھ ملزمان کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو گا اور کچھ کا انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) میں؟ عدالت عظمی نے مرکزی فیصلے میں آرمی ایکٹ کی شق 2 ڈی کالعدم قرار دی، کیا اب کلبھوشن یادیو جیسے ملک دشمن جاسوس کا کیس ملٹری کورٹس میں چل سکتا ہے؟ جمعرات کوجسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 9 مئی کے مخصوص ملزمان کے ملٹری ٹرائل پر سوالات اٹھا دئیے۔دوران سماعت جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال اٹھایا کہ ماضی میں دہشت گردانہ حملے ہوئے، ہمیں بتائیں ان حملوں کا کہاں ٹرائل ہوا؟ ان سب کا ٹرائل عام عدالتوں میں چلا تو 9 مئی والوں نے ایسا کیا کیا کہ ملٹری کورٹس جائیں؟جسٹس جمال خان مندو خیل نے سوال کیا انسداد دہشت گردی عدالت سے ملزم بری ہوتا ہے، فوجی عدالت سے سزا ہو جاتی ہے، کیا فوجی عدالتوں میں کوئی خاص ثبوت فراہم کیا جاتا ہے؟وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دینے سے متعلق 5 رکنی بینچ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا اور مقف اپنایا کہ آرڈر کے مطابق یہ تمام بنیادی حقوق ہیں جن کی وضاحت کر دی گئی ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا یہ دائرہ اختیار کون طے کرتا ہے کس کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہو گا کس کا نہیں؟ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے 9مئی کہ تمام ملزمان کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ تو ایک جیسی تھی۔سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب 9 مئی کے کتنے ملزمان تھے؟ جن ملزمان کو ملٹری کورٹس بھیجا گیا ان سے متعلق کوئی اے ٹی سی کا آرڈر تو دکھائیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ملٹری تحویل لینے کا عمل کون شروع کرتا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کوئی مثال دیں جہاں آئین معطل کیے بغیر سویلین کا ملٹری ٹرائل ہوا ہو۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال اٹھایا کہ جنرل ہیڈکوارٹرز، کراچی بیس سمیت مختلف تنصیبات پر ماضی میں دہشت گرد حملے ہوئے، ہمیں بتائیں ان حملوں کا کہاں ٹرائل ہوا؟ ایک آرمی چیف کا طیارہ ہائی جیک کرنے کی سازش کا کیس بنا تھا، خواجہ صاحب وہ کیس عام عدالت میں چلا، آپ ایک فریق کے وکیل تھے، ان سب کا ٹرائل عام عدالتوں میں چلا تو 9 مئی والوں نے ایسا کیا کیا کہ ملٹری کورٹس جائیں؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ان تمام مقدمات کی ایک ایک ایف آئی آر بھی ہمیں دیں۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے استفسار کیا ہم اپنے پراسیکیوشن کے نظام کو مضبوط کیوں نہیں کر رہے؟ انسداد دہشت گردی عدالت سے ملزم بری ہو رہا اور اسے فوجی عدالت سے سزا ہو رہی،کیا فوجی عدالتوں میں کوئی خاص ثبوت فراہم کیا جاتا ہے؟ انسداد دہشت گردی عدالتوں کو کیوں نہیں مضبوط بنایا جاتا؟ عدالتوں نے فیصلہ تو شواہد دیکھ کر ہی کرنا ہوتا ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کیا 9 مئی کا واقعہ دہشت گردی سے زیادہ سنگین جرم ہے جو ان کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہو رہا ہے؟ اچھے تفتیشی افسران اور پراسیکیوٹر رکھیں تو عدالتوں سے سزائیں بھی ہوں گی۔اس موقع پر جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے آپ سوالات کی بھری ہوئی باسکٹ لے کر جا رہے ہیں۔بعد ازاں عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت آج) جمعہ تک) ملتوی کردی۔وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں