فلسطین میں جارحیت، اسرائیلی کابینہ میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے
شیئر کریں
غزہ میں جاری جارحیت پر اسرائیلی حکومت کے اندر اختلافات رواں ہفتے کھل کر سامنے آگئے جب وزیر دفاع نے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے واضح حکمت عملی سامنے لانے کا مطالبہ کیا جب کہ فوجیں ان علاقوں میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف لڑنے کے لیے واپس آ گئیں جہاں وہ مہینوں پہلے لڑ رہی تھیں۔تفصیلات کے مطابق وزیر دفاع گالینٹ کا وہ بیان، جس میں جنہوں نے کہا کہ وہ غزہ میں فوجی حکومت قائم کرنے پر راضی نہیں ہوں گے ، نتن یاہو کی طرف سے اس بارے میں کوئی ہدایت نہ ملنے پر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں بڑھتی ہوئی بے چینی کی عکاسی کرتا ہے کہ لڑائی ختم ہونے کے بعد غزہ کو کون چلائے گا۔وہ کابینہ میں موجود سینٹرسٹ 2 سابق فوجی جرنیلوں، بینی گینٹز اور گاڈی آئزن کوٹ جنہوں نے وزیر دفاع کے مطالبے کی حمایت کی اور سخت دائیں بازو کی قوم پرست مذہبی جماعتیں جن کی قیادت وزیر خزانہ بیزلیل اسموٹریچ اور داخلی سلامتی کے وزیر اتمار بین-گیویر کر رہیں جنہوں نے ان کے بیان کی مذمت کی، کے درمیان شدید تقسیم کو بھی سامنے لائے ۔دائیں بازو کے ’اسرائیل ٹوڈے ‘جریدے نے اپنے جمعرات کے ایڈیشن میں نیتن یاہو اور وزیر دفاع گیلنٹ لی مختلف سمتوں میں آمنے سامنے کھڑے ہوئے لی گئی ایک تصویر کے ساتھ یہ ہیڈلائن لگائی کہ ’یہ جنگ جاری رکھنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے ‘۔حماس کو ختم کرنے اور اسلامی تحریک کے زیر حراست تقریباً 130 یرغمالیوں کی واپسی کے علاوہ نیتن یاہو نے جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی واضح اسٹریٹجک ہدف بیان نہیں کیا، جنگ میں اب تک تقریباً 35 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور اسرائیل عالمی سطح پر تیزی سے تنہائی کا شکار ہوگیا ہے ۔