دنیا میں چائے پینے کا رجحان
شیئر کریں
جاوید محمود
ایک تحقیق کے مطابق پانی کے بعد چائے دنیا کا مقبول ترین مشروب ہے اور دنیا میں روزانہ دو ارب لوگ اپنے دن کا آغاز چائے کی گرم گرم پیالی سے کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس دوران کم ہی لوگ کے دماغ میں یہ خیال آتا ہوگا کہ یہ مشروب جو ان کے مزاج کو فرحت اور دماغ کو چستی بخشتا ہے، ان تک کیسے پہنچا۔ چائے کی یہ کہانی کسی سنسنی خیز ناول سے کم نہیں ۔یہ ایسی کہانی ہے جس میں حیرت انگیز اتفاقات بھی ہیں ،پرفریب جاسوسی مہم جوئیاں بھی، سامراجی ریشہ دوانیاں بھی، خوش قسمتی کے لمحات بھی اور بدقسمتی کے واقعات بھی۔
چائے کا آغاز کیسے ہوا اس کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں۔ایک کے مطابق قدیم چینی دیو مالائی بادشاہ شونگ کو صفائی کا اس قدر خیال تھا کہ اس نے تمام رعایا کو حکم دیا کہ وہ پانی اُبال کر پیا کرے۔ ایک دن کسی جنگل میں بادشاہ کا پانی اُبل رہا تھا کہ چند پتیاں ہوا سے اڑ کر دیگچی میں جاگری۔ شونگ نے جب یہ پانی پیا تو نہ صرف اسے ذائقہ پسند آیا بلکہ اسے پینے سے اس کے بدن میں چستی بھی آگئی۔ یہ چائے کی پتیاں تھیں اور ان کے فوائد کے تجربے کے بعد بادشاہ نے عوام کو حکم دیا کہ وہ بھی آزمائیں۔ یوں یہ مشروب چین کے کونے کونے میں پھیل گیا۔ یورپ سب سے پہلے 16ویں صدی کی ابتدا میں چائے سے آشنا ہوا جب پرتگال نے اس پتی کی تجارت شروع کر دی۔ ایک صدی کے اندر اندر چائے دنیا کے مختلف علاقوں میں پی جانے لگی لیکن خاص طور پر یہ انگریزوں کو اتنی پسند آئی کہ گھر گھر پی جانے لگی۔
ایسٹ انڈیا کمپنی مشرق سے ہر قسم کی اجناس کی تجارت کی ذمہ دارتھی۔ اسے چائے کی پتی مہنگے داموں چین سے خریدنا پڑتی تھی اور وہاں سے لمبے سمندری راستے سے دنیا کی باقی حصوں کی ترسیل چائے کی قیمت میں مزید اضافہ کر دیتی تھی۔ اس وقت سی پیک والا راستہ دریافت نہیں ہوا تھا ۔یہی وجہ تھی کہ انگریز شدت سے چاہتے تھے کہ خود اپنی نو آبادی ہندوستان میں چائے اُگانا شروع کر دیں تاکہ چین کا پتہ کٹ جائے ۔ اس منصوبے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ چائے کا پودا اُگنا اور اس سے چائے کیسے حاصل ہوتی ہے سر توڑ کوششوں کے باوجود اس راز سے پردہ نہ اٹھ سکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اب کمپنی نے رابرٹ فارچیون کو اس پرخطر جاسوسی مہم پر بھیجا تھا۔ اس مقصد کے لیے اسے چین کے علاقوں تک جانا تھا جہاں شاید مارکوپولو کے بعد کسی یورپی نے قدم نہیں رکھا تھا۔ اسے معلوم ہوا تھا کہ فوجیان صوبے کے پہاڑوں میں سب سے عمدہ کالی چائے اُگتی ہے، اس لیے اس نے اپنے رہبر کو وہیں کا رخ کرنے کا حکم دیا۔ سر منڈواتے بالوں میں نقلی مینڈی گوندنے اور چینی تاجروں جیسا روپ دھارنے کے علاوہ فارچون نے ایسا ایک چینی نام بھی رکھ لیا۔ سنگی ہوا یعنی شوخ پھول ایسٹ انڈیا کمپنی نے اسے خاص طور پر ہدایت دے رکھی تھی کہ بہترین چائے کے پودے اور امیج ہندوستان منتقل کرنے کے علاوہ آپ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ آپ اس پودے کی کاشت اور چائے کی پتی کی تیاری کے بارے میں ہر ممکن معلومات حاصل کر کے لائیں تاکہ انہیں بروئے کار لا کر ہندوستان میں چائے کی نرسیاں قائم کرنے میں ہر ممکن مدد مل سکے۔ اس کام کا معاوضہ اسے 500پاؤنڈ سالانہ ادا کیا جانا تھا۔ فارچون کا کام آسان نہیں تھا ۔اسے چین سے چائے کی پیداوار کے طریقے ہی نہیں سیکھنا تھے بلکہ وہاں سے اس نایاب جنس کے پودے چوری کر کے لانے تھے اس کے تجربے نے اسے بتا دیا تھا کہ چند پودوں سے کام نہیں چلے گا بلکہ پودے اور ان کا بیج بڑے پیمانے پراسمگل کر کے ہندوستان لانے پڑیں گے تاکہ وہاں چائے کی پیداوار بڑے پیمانے پر شروع ہو سکے۔ یہی نہیں اسے چینی مزدوروں کی بھی ضرورت تھی تاکہ وہ ہندوستان میں چائے کی صنعتی بنیادوں پر کاشت اور پیداوار میں مدد دے سکیں ۔اس دوران اسے خود چائے کے پودوں کی تمام اقسام اُگنے کے موسم کاشت پتی کی پیداوار سکھانے کے طریقوں وغیرہ کے بارے میں تمام علم حاصل کرنا تھا ۔چاہے وہ سبز چائے ہو یا کالی سفید ہو یا سرخ چائے ۔آخر کشتیوں بالکنیوں گھوڑوں اور دشوار راستوں پر پیدل چل کر تین ماہ کے دشوار سفر کے بعد فارچون کوووبی کی ایک بڑی وادی میں قائم چائے کے ایک ایک بڑے کارخانے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہاں چائے کی تیز مہک کے علاوہ دروازے پر لگے لکڑی کے ایک تختے نے فورچون کا استقبال کیا۔ اس پر چائے کی تاریخ میں ایک قدیم نظم کندہ تھی۔ اس سے قبل یورپ میں سمجھا جاتا تھا کہ سب چائے اور کالی چائے کے پودے الگ الگ ہوتے ہیں لیکن یہ دیکھ کرفارچون کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ دونوں کے سکھانے اور پکانے کے طریقوں میں ہے ۔فارچون یہاں چائے بننے کے ہر محلے کا گہرا مگر خاموش مشاہدہ کرتا رہا اور نوٹس لیتا رہا۔ اگر اسے کسی بات کی سمجھ نہیں آتی تھی تو وہ اپنے رہبر کی وساطت سے پوچھ لیتا تھا محنت رنگ لائی اور بآلاخر وہ حکام کی آنکھ بچا کر چائے کے پودے بیج اور چند مزدور بھی ہندوستان اسمگل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کی نگرانی میں آسام کے علاقے میں یہ پودے اُگانا شروع کر دیے لیکن انہوں نے اس معاملے میں سنگین غلطی کر دی تھی ۔فارچون جو پودے لے کر آیا تھا وہ چین کے بلند و بالا پہاڑی سلسلوں کے ٹھنڈے موسموں کے عادی تھے ۔آسام کی گرم ہوا انہیں راس نہیں آئی اور وہ ایک کے بعد ایک کر کے سوکھتے چلے گئے ۔اس اس سے قبل کے یہ تمام مشقت بے سود چلی جاتی، اسی دوران ایک عجیب و غریب اتفاق ہوا۔ اسے ایسٹ انڈیا کمپنی کی خوش قسمتی کہیے یا چین کی بدقسمتی کے اسی دوران اس کے سامنے آسام میں اگنے والے ایک پودے کا معاملہ سامنے آیا ۔اس پودے کو ایک اسکاٹش سیاح رابٹ بروس نے 1823 میں دریافت کیا تھا ۔چائے سے ملتا جلتا مقامی پودا آسام کی پہاڑی علاقوں میں جنگلی جھاڑی کی حیثیت سے اُگتا تھا۔ تاہم زیادہ تر ماہرین کے مطابق اس سے بننے والا مشروب چائے سے کمتر تھا۔ فارچون کے پودوں کی ناکامی کے بعد کمپنی نے اپنی توجہ آسام کے اس پودے پر مرکوز کر دی۔ فارچون نے جب اس پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ چینی چائے کے پودے سے بے حد قریب ہے۔ بلکہ اس کی نسل ایک ہے ۔چین سے ا سمگل شدہ چائے کی پیداوار اور پتی کی تیاری کی ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ کارکن بے حد کارآمد ثابت ہوئے جب ان طریقوں کے مطابق پتی تیار کی گئی تو تجربات کے دوران لوگوں نے اسے خاصا پسند کرنا شروع کر دیا اور یوں کارپوریٹ دنیا کی تاریخ میں انٹیلکچوئل پراپرٹی کی سب سے بڑی چوری ناکام ہوتے ہوئے بھی کامیاب ہو گئی۔
دیسی چائے کی کامیابی کے بعد کمپنی نے آسام کا بڑا علاقہ اس ہندوستانی پودے کی کاشت کے لیے مختص کر کے اس کی تجارت کا آغاز کر دیا اور ایک عشرے کے اندر یہاں کی پیداوار نے چین کو مقدار معیار اور قیمت تینوں معاملات میں پیچھے چھوڑ دیا۔ برآمد میں کمی کے باعث چین کے چائے کے باغات خشک ہونے لگے اور وہ ملک جو چائے کے لیے مشہور تھا ایک کونے میں سمٹ کر رہ گیا۔
انگریزوں نے چائے بنانے میں ایک بدعت متعارف کروا دی چینی تو ہزاروں برس سے کھولتے پانی میں پتی ڈال کر پیا کرتے تھے انگریزوں نے اس مشروب میں پہلے چینی اور بعد میں دودھ ڈالنا شروع کر دیا۔ سچ یہ ہے کہ آج بھی چینیوں کو یہ بات عجیب لگتی ہے کہ چائے میں کسی اور چیز کے آمیزش کی جائے۔ جہاں ہندوستانیوں نے انگریزوں کی دوسری بہت سی عادات اپنا ئی وہیں وہ اپنے حکمرانوں کی دیکھا دیکھی چائے میں بھی یہ ملاوٹیں کرنے لگے۔ اردو کے صاحب طرز ادیب و دانشور مولانا ابوالکلام آزاد اپنی کتاب غبار خاطر میں اس بارے میں لکھتے ہیں چائے چینیوں کی پیداوار ہے اور چینیوں کی تشریح کے مطابق 1500 برس سے استعمال رہی ہے لیکن وہاں کسی کے خواب اور خیال میں بھی یہ بات نہیں گزری کہ اس جو ہر لطیف کو دودھ کی کثافت سے آلودہ کیا جا سکتا ہے مگر سترویں صدی میں جب انگریز اس سے آشنا ہوئے تو نہیں معلوم ان لوگوں کو کیا سوجھی کہ انہوں نے دودھ ملانے کی بدعت ایجاد کی اور چونکہ ہندوستان میں چائے کا رواج انہیں کے ذریعے ہوا اس لیے یہ بدعت سینہ بسینہ یہاں بھی پھیل گئی ۔رفتہ رفتہ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ لوگ چائے میں دودھ ڈالنے کے بجائے دودھ میں چائے ڈال کر پینے لگے لوگ چائے کی جگہ ایک طرح کا سیاہ حلوہ بناتے ہیں۔ کھانے کی جگہ پیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے چائے پی لی۔ ان نادانوں سے کون کہے ہائے کمبخت تم نے پی ہی نہیں ۔چائے کی کہانی میں ہندوستان کے اہم کردار کا ایک ثبوت انڈیا کے سابق وزیراعظم راجو گاندھی نے 1985میں امریکہ کے دورے کے دوران پیش کیا جب انہوں نے کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں پیدا ہونے والی چائے نے امریکیوں کی برطانیہ سے آزادی کے جذبے کو ہوا دی تھی۔ ان کا اشارہ 1773 کی طرف تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی امریکہ میں چائے فروخت کرتی تھی لیکن ٹیکس ادا نہیں کرتی تھی۔ آخر تنگ آ کر ایک دن کچھ امریکیوں نے بوسٹن کے ساحل پر کھڑے بحری جہاز پر چڑھ کر کمپنی کی ملکیتی چائے کی پیٹیاں سمندر میں پھینک دیں۔ برطانوی حکومت نے اس کا جواب آہنی ہاتھوں سے دیا جس سے امریکی نو آبادی میں وہ بے چینی پھیلی کہ بآلاخر تین سال بعد امریکی آزادی پر اختتام پزیر ہوئی۔