یہ کمپنی نہیں چلے گی!!
شیئر کریں
یہ کمپنی نہیں چلے گی، اس کے ساتھ ایک مسئلہ ہو گیا۔ مسئلہ نہایت سنجیدہ ہے، وضاحت کے لیے ذرا دلچسپ پیرایہ ڈھونڈتے ہیں۔ برطانوی وزیراعظم چرچل دوران جنگ صدر روز ویلٹ سے ملنے امریکا گئے۔ ایک صبح چرچل نہا دھو کر اپنا جسم تولیے سے خشک کر رہے تھے کہ روز ویلٹ اُن کے کمرے میں پہنچ گئے۔ چرچل کے جسم پر کپڑے نہ دیکھ کر واپس جانے لگے۔ چرچل نے کہا: مسٹر روزویلٹ واپس جانے کی ضرورت نہیں، برطانیا، امریکا سے کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں رکھنا چاہتا”۔ بات یہاں تک رہے تو ختم ہو جاتی۔ پاکستانی نظام کے کرداروں کے ساتھ مسئلہ یہ ہوا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے ”امریکا، برطانیا” تو بن گئے۔ مگر اُن کا معاملہ چرچل اور روز ویلٹ تک محدود نہیں رہا۔ باقیوں نے بھی اُنہیں ”برطانیا امریکا” ہوتے دیکھ لیا۔ اُن کی یہ حالت عوام سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ اب تولیہ ڈالنے سے کیا ہوگا؟ یہ کمپنی نہیں چلے گی۔
حکومت کا فارمولا ایک دباؤ میں بن رہا ہے۔ قیدی کی مسکراہٹ بندوبست کے رکھوالوں کو پریشان کیے رکھتی ہے۔ سیاست دانوں کا پورا ٹولہ اپنے تضادات، مفادات میں گردن گردن دھنسا ہے۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی سر جوڑ کر بیٹھی ہے۔ اُنہیں جوڑنے موڑنے کے لیے نظام کا دستِ قضا بھی حرکت میں ہے۔ مسلم لیگ نون نے اپنا تماشا خود بنا لیا ہے۔ ایک سیاسی جماعت خاندانی ورثے کی طرح اقتدار کی جمع تقسیم میں جُتی ہے۔ یہاں ملک کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ اپنے نہایت محدود مینڈیٹ اور اپنے سیاسی مراکز سے شرمناک شکست سمیٹ کر نون لیگ کو یہ اندازا ہو چکا ہے کہ وہ عوامی حقارت کا ہدف ہے۔ اس میں کوئی جادوئی تبدیلی آنے والی نہیں۔ چنانچہ اب سیاست سے زیادہ حکومت بچانے اور مستقبل کے بجائے موقع تاڑنے کی نفسیات کام کر رہی ہے۔ ایک دباؤ یہ بھی ہے کہ عمران خان اقتدار میں آ گیا تو نظام، عدلیہ اور سرکاری اداروں کے اکٹھ سے مقدمات سمیت جن جن مسائل سے جان چھڑائی ہے، وہ سب زیادہ بھیانک طور پر دوبارہ پیچھا کرنے لگیں گے۔ اس خوف میں نون لیگ ہی نہیں پیپلزپارٹی بھی جکڑی ہوئی ہے۔ مگر یہاں خوف اور لالچ کا ”ہائبرڈ ذہن” کام کررہا ہے۔ زراری کا لمڈا کھیلن کو وزارت عظمیٰ کا چاند مانگ رہا ہے۔ مگر دو سال کا اُسے بہلاوا مل رہا ہے، وہ بھی پانچ سالہ اقتدار کے آخری دوسال۔ کون نہیں جانتا یہ بندو بست اگلے دس ماہ کی زندگی کا بھی یقین نہیں دلا سکتا۔ بلاول نے ضد میں ایڑیاں رگڑنے والے بچے کی طرح ”ناں ناں” کر دیا ہے۔ اسحق ڈار کو یاد دلانا پڑا، اقتدار کا فارمولا طے ہونے سے قبل عوام میں بات نہ کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ کوئی لمحہ جاتا ہے کہ اقتدار کا فارمولا بن جائے گا مگر یہ کٹا چھنی برقرار رہے گی۔ دھاندلی زدہ انتخاب کے بعد بے وقار اقتدار کی ایک قیمت ہے جو اتحادی چکاتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ باہم دست و گریباں ہوں گے۔ یہ کمپنی نہیں چلے گی۔
بے ہنگم دھاندلی کے باوجود حکومت ”کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا” کے بمصداق ہوگی۔ بھان متی کا کنبہ اپنے اپنے حصے کے لے لڑتا رہے گا۔ وفاق اور پنجاب میں شہباز شریف اور مریم نواز کا اقتدارعوام کو مزید متنفر کرے گا۔ بلوچستان میں زرداری جتھہ وہی کرے گا جو سندھ میں کرتا ہے۔ ریاست کی بندوبستی طاقتوں کو اپنے ساتھ منافع بخش طریقے سے ملوث کرے گا۔ لالچ سے اندھے سرکاری افسران سندھ، بلوچستان میں زرداری کے سسٹم اور پٹہ مافیا کو پھلنے پھولنے دیں گے۔ شرجیل میمن، ناصر حسین شاہ، علی حسن زرداری، انور مجید وغیرہ وغیرہ ایسے لوگ جادوئی ٹوپیاں گھماتے گھماتے اربوں کو کھربوں میں بدلیں گے۔ نون لیگ، پیپلزپارٹی ایک دوسرے کے لیے وہی ”امریکا برطانیا” ہو جائیں گے۔ نظام اپنی رہی سہی آبرو بھی کھوتا جائے گا۔ ملک کی سوکھی رگوں سے خون کے آخری قطرے نچوڑنے والی یہ جونکیں پروا نہ کریں گی کہ مسائل کیسے منہ کھولے کھڑے ہیں؟ مہنگائی کا اژدھا بے قابو رہے گا۔ بے پناہ قرض کی ادائی کا دباؤ عوام کی جیبوں پر پڑے گا، جو پہلے ہی سولہ ماہ کے اقتدار میں کافی سکڑ چکی ہیں۔ عالمی سطح پر ایک غیر مقبول اور دھاندلی زدہ حکومت کو زیادہ پزیرائی نہیں مل سکے گی۔ حکومت اپنے سیاسی فیصلوں میں کمزور ثابت ہو گی۔ زیرِدباؤ حکومت خارجی سطح پر پاکستان کے روایتی کردار کو برباد کرنے کا باعث بنے گی۔ ایک کمزور حکومت کبھی عالمی طاقتوں کے سامنے ٹہر نہیں سکتی۔ سیاسی کمزوری نے جنرل پرویز مشرف کو امریکا کے سامنے ڈھیڑ کیا۔ جس کے باعث پاکستان ، دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کا ایندھن بن کر سلگتا رہا۔ اس کے بدترین اثرات سے پاکستان ابھی تک نکل نہیں سکا۔ ابھی حکومت بنی نہیں کہ خارجہ پالیسی کی سطح پر ایک پسپائی گزشتہ روز ہوئی۔ اقوام متحدہ کے تحت قطر میں ہونے والی دو روزہ کانفرنس میں پاکستان نے افغانستان کیلئے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی کے تقرر کی حمایت کر دی۔ یہ طالبان کے افغانستان کے موقف کے برخلاف پاکستان کی پوزیشن ہے۔ اس سے قبل پاکستان، افغان طالبان کی حمایت میں اس کا مخالف تھا۔ افغان طالبان کی کچھ شرطیں ہیں اور وہ اس کانفرنس کا بائیکاٹ کر چکے ہیں۔ پاک افغان تعلقات میں یہ اقدام بدگمانی کے سیاہ سایوں کو مزید گہرا کرے گا۔ نئی حکومت کے پاس کوئی گیڈر سنگھی نہ ہوگی کہ وہ جرأت مندانہ اقدام اُٹھاتے ہوئے مقروض ملک کے خارجہ مفادات کو تحفظ دے سکے۔ ابھی تو مسائل بلاول، زرداری، شہبازشریف، مولانا فضل الرحمان، ایم کیو ایم اور نظام کے کرداروں کے درمیان فارمولوں کی ترتیب وتشکیل کے ہیں، اس کے بعد یہ مسائل قرضے کی واپسی کے لیے مزید قرضوں کی حصول یابی،آئی ایم ایف سے درمیان داری، خطے میں امریکی مفادات کی چھتری تلے شب بسری، پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلق داری کی الجھنوں میں بدل جائیں گے۔ یہ شہبا ز شریف کے بوتے کی بات نہیں۔ نظام کے رکھوالے ایسی ناکامیوں کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے۔ وہ اپنی ناکامیوں کے لیے بھی حکومتوں کو مجبور کرتے ہیں کہ اپنا کندھا فراہم کریں۔ یہ کمپنی نہیں چلے گی۔
پاکستان کے حالیہ تمام کھیلوں کا تناظر صرف ایک ہے اور وہ ہے اڈیالہ جیل کا قیدی نمبر 804۔ عمران خا ن کو زیادہ دیر تک جیل سنبھال نہ سکے گی۔ وضعی مقدمات قانون کی تپش سے جلنے لگیں گے،عدالتیں کب تک اپنی ساکھ کو داؤ پر لگاتی رہیں گی؟ نظام کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے اور وہ پڑتی ہی چلی جائے گی۔ بہت جلد عمران خان کی ضمانتیں ہونے لگیں گی اور وہ جیل سے باہر ہوگا۔ وہ دن دیکھنے والا ہوگا۔ عوام کی چھوی میں ایک نہ جھکنے والا رہنما جب جیل سے کسی مفاہمت کے بغیر نکلتا ہے تو اس کا قد ہمالیہ کو چھوٹا کر دیتا ہے۔ تاریخ اپنی بانہیں کھول لیتی ہیں۔ الفاظ اس کا صدقہ اُتارتے ہیں۔ فصاحت کی زبانیں اُس کی جرأت واستقامت کے آگے گُنگ اور بلاغت کے دریا خشک ہو جاتے ہیں۔ یہ عمران 10 دسمبر2000ء میں چالیس صندوقوں کے ساتھ سعودی عرب فرار ہو جانے والے نوازشریف کی مانند نہ ہوگا۔ یہ خان 19نومبر 2019ء والے دوسرے نواز شریف کی طرح بھی نہ ہوں گے جو علاج کے بہانے لندن فرار ہو گئے تھے۔ یہ کپتان وہ ہوں گے جو جرأت سے حالات کا غیر مبہم طور پر سامنا کرکے اُبھرے ہیں۔ جنہوں نے معاہدوں کے پیچھے چھپ کر جان نہیں بچائی، بیماریوں کے بہانے تلاش کرکے آسائشیں نہیں ڈھونڈیں۔ یہ وہ عمران نہیں جس نے جیل میں مچھروں کی شکایتیں کی ہو۔ یا زرداری کی طرح عملے کو بدعنوان بنا کر اپنی راتیں زنداں میں بھی رنگین رکھی ہوں۔ یہ وہ عمران ہیں جنہوں نے زندان کے شب وروز عالم کے پروردگار کی آخری کتابِ ہدایت پڑھ کر گزارے جو دنیا کو مچھر کے پَر کے برابر نہ سمجھنے کا حقیقی شعور دیتی ہے۔ جس کا نور زندگی کو اللہ کی امانت کے طور پر دیکھنے کی جبلت دیتا ہے۔ ایسا شخص جب سڑکوں پر ہوگا۔ زنداں سے باہر ہوگا تو یہ پورا نظام اُس کے آگے بونوں کا بندوبست لگے گا۔ تب شہباز شریف کی حکومت ، زرداری کی پھرتیاں اور بلاول کی گلابی اردو کی کِلکاریاں دیکھنے والی ہونگیں۔ تب ہر کوئی کہے گا، یہ کمپنی تو نہیں چلے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔