چاند کے کامیاب مشن کے بعد بھارت نے سورج پر تحقیق کے لیے راکٹ روانہ کر دیا
شیئر کریں
بھارت کی چاند پر کامیاب لینڈنگ کے بعد ملک کی خلائی ایجنسی نے سورج کی جانچ اور تحقیق کے لیے اپنا پہلے شمسی مشن راکٹ روانہ کر دیا۔انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) کی ویب سائٹ پر براہ راست نشریات کے مطابق سائنس دانوں نے تالیاں بجاتے ہوئے راکٹ روانہ کیا۔خبر ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اس نشریات کو تقریباً 5لاکھ ناظرین نے دیکھا جبکہ ہزاروں افراد لانچ سائٹ کے قریب گیلری میں جمع ہوئے تاکہ اس راکٹ کو روانہ ہوتے دیکھا جا سکے جس کا مقصد شمسی ہواؤں کا مطالعہ کرنا ہے، جو زمین پر عام طور پر خلل کا باعث بن سکتی ہیں۔سورج کے لیے ہندی لفظ کے نام سے منسوب ’آدتیا ایل1‘کو ایک ایسے موقع پر لانچ کیا گیا اور بھارت گزشتہ ماہ روس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے چاند کے جنوبی قطب پر اترنے والا پہلا ملک بن گیا تھا۔گوکہ روس کے پاس زیادہ طاقت ور راکٹ تھا لیکن اس کے باوجود بھارت کا راکٹ چندریان-3 نے انہیں پیچھے چھوڑتے ہوئے چاند پر کامیابی کے ساتھ لینڈنگ کی۔
آدتیا۔ایل1 خلائی جہاز کو 4 مہینوں میں تقریباً 15 لاکھ کلومیٹر (930,000میل) کا سفر کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے تاکہ خلا میں ایک طرح کی پارکنگ لاٹ کی جائے جہاں اشیا کشش ثقل کی قوتوں کو متوازن کرنے کی وجہ سے ٹھہری رہتی ہیں اور خلائی جہاز کے لیے ایندھن کی کھپت کم کرتی ہے۔ان پوزیشنوں کو لیگرینج پوائنٹس کہا جاتا ہے، جہاں یہ نام اطالوی-فرانسیسی ریاضی دان جوزف لوئس لاگرینج کے نام پر رکھا گیا ہے۔سومک رائے چوہدری نے کہا کہ اس مشن میں سائنس کے میدان میں بڑا دھماکا کرنے کی صلاحیت ہے اور سورج سے خارج ہونے والی توانائی کے ذرات مصنوعی سیاروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں جو زمین پر مواصلات کنٹرول کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایسے مواقع بھی آئے جب بڑے مواصلات بند ہو گئے ہیں کیونکہ ایک سیٹلائٹ بڑے کورونا کے اخراج سے متاثر ہوا ہے، زمین کے نچلے مدار میں سیٹلائٹس عالمی نجی کھلاڑیوں کی توجہ کا مرکز ہیں جو آدتیا ایل1 مشن کو ایک بہت اہم پروجیکٹ بناتا ہے۔سائنسدانوں کو امید ہے کہ مدار میں موجود ہزاروں مصنوعی سیاروں پر شمسی تابکاری کے اثر کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوں گی جہاں ایلون مسک کے اسپیس ایکس کے اسٹار لنک مواصلاتی نیٹ ورک جیسے منصوبوں کی کامیابی کے ساتھ یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ارتھ اینڈ اسپیس سائنسز کے شعبے کے سربراہ راما راؤ ندامنوری نے کہا کہ نجی شرکت کی وجہ سے زمین کا نچلا مدار بہت زیادہ آلودہ ہو چکا ہے، اس لیے یہ سمجھنا کہ وہاں سیٹلائٹس کی حفاظت کیسے کی جائے، آج کے خلائی ماحول میں خاص اہمیت کی حامل ہوگی۔انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن کے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ طویل مدتی، مشن کا ڈیٹا زمین کے آب و ہوا کے نمونوں پر سورج کے اثرات اور شمسی ہوا کی ابتدا سمیت دیگر چیزوں کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کر سکتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے اصرار پر بھارت نے خلا میں مشن بھیجنے کے منصوبوں کی نج کاری کر دی ہے اور وہ اس شعبے کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کھولنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ بھارت نے اگلی دہائی کے اندر عالمی سطح پر ہونے والے منصوبوں میں اپنے حصے میں پانچ گنا اضافے کا ہدف رکھا ہے۔
٭٭٭