میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ماہِ محرم الحرام کے فضائل و احکام

ماہِ محرم الحرام کے فضائل و احکام

جرات ڈیسک
پیر, ۲۴ جولائی ۲۰۲۳

شیئر کریں

مفتی محمد وقاص رفیع
ماہِ محرم الحرام اسلامی تقویم کے اعتبار سے پہلا اور اُن چار مہینوں میں سے تیسرا مہینہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے یہاں انتہائی عظمت و بزرگی والے شمار کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے آخری خطبہ میں) ارشاد فرمایاکہ: ”جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا اُس دن زمانہ کی جو رفتار تھی اب بھی وہی رفتار ہے (یعنی اب اس کے دنوں اور مہینوں میں کمی زیادتی نہیں ہے جو جاہلیت کے زمانے میں مشرک لوگ کیا کرتے تھے، بلکہ اب وہ ٹھیک ہوکر اس طرز پر آگئی ہے جس پر ابتداء اور اصل میں تھی،لہٰذا) ایک سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، اِن میں چار مہینے حرمت و عزت والے ہیں جن میں تین مہینے مسلسل ہیں یعنی ذالقعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور ایک رجب کا مہینہ ہے جوکہ جمادی الثانی اور ماہِ شعبان کے درمیان آتا ہے۔ (صحیح بخاری: 5550، صحیح مسلم:1679، سنن ابی داؤد:1947)
اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلامی مہینوں کے نام اور اُن کی ترتیب انسانوں کی بنائی ہوئی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی اپنی بنائی ہوئی ہے، جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا، اُسی دن یہ ترتیب، یہ نام، اور ان مہینوں کے احکام و خواص بھی مقرر فرمادیئے، لہٰذاان مہینوں کے شرعی احکامات کو ان کے مطابق ہی رکھنا چاہیے کہ یہی اصل دین ہے، اور خلافِ شرع ہر قسم کی بدعات و رسومات سے حتیٰ الامکان اپنے آپ کو بچانا واجب ہے۔
ماہِ محرم الحرام میں روزہ رکھنے کے حدیث شریف میں بڑے فضائل وارد ہوئے ہیں۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”رمضان کے روزوں کے بعد سب سے بہترین روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں۔“ (صحیح مسلم:1163، سنن ابی داؤد:2429، جامع ترمذی438،سنن نسائی:1613،سنن ابن ماجہ:1742)
محدثِ کبیر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ اِس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ حدیث میں محرم کے روزے سے صرف دسویں تاریخ یعنی یوم عاشوراء کا روزہ مراد نہیں بلکہ ماہِ محرم کے عام روزے مراد ہیں۔ (معارف السنن شرح جامع ترمذی: ج 06ص99)
حضرت مجیبہ باہلیہ رحمہا اللہ اپنے والد یا اپنے چچا سے نقل کرتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، پھر وہ چلے گئے اور ایک سال کے بعد آئے، اُس وقت اُن کی حالت اور اُن کی ہیئت متغیر ہوچکی تھی، اُنہوں نے عرض کیا: ”اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)! کیا آپ نے مجھے نہیں پہچانا؟“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم کون ہو؟“عرض کیا: ”میں باہلی ہوں جو گزشتہ برس آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ”تمہیں کس چیز نے متغیر کردیا ہے حالاں کہ تم تو اچھی ہیئت والے تھے؟“ عرض کیا: ”میں جب سے آپ سے جدا ہوا میں صرف رات کا ہی کھانا کھایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے آپ کو کیوں عذاب میں ڈال رکھا ہے؟“پھر فرمایا: ”صبر(یعنی رمضان)کے مہینے کے روزے رکھا کرو! اور ہر مہینے میں ایک دن کا روزہ رکھ لیا کرو! اُنہوں نے عرض کیا کہ مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے، لہٰذا میرے لئے اور اضافہ کیجئے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”ہر مہینے میں دو دن روزہ رکھ لیا کرو! اُنہوں نے عرض کیا کہ میرے لئے اور اضافہ کیجئے! (کیوں کہ مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”ہرمہینے میں تین دن روزہ رکھ لیا کرو!“اُنہوں نے عرض کیا کہ میرے لئے اور اضافہ کیجئے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”حرمت والے مہینوں (ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب) میں روزے رکھ (بھی) لیا کرو اور چھوڑ (بھی) دیا کرو!  ”حرمت والے مہینوں (ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب) میں روزے رکھ (بھی) لیا کرو اور چھوڑ (بھی) دیا کرو! ”حرمت والے مہینوں (ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب) میں روزے رکھ (بھی) لیا کرو اور چھوڑ (بھی) دیا کرو! (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی) اور آپ نے اپنی تین انگلیوں سے اشارہ فرمایا، ان کو ساتھ ملا دیا پھر چھوڑ دیا (جس کا مطلب یہ تھاکہ ان مہینوں میں تین دن روزہ رکھ لیا کرو اور تین دن افطار (ناغہ) کرلیا کرو! اور اسی طرح کرتے رہو۔) (سنن ابی داؤد:2428، سنن ابن ماجہ:1741)
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ ایک اُن سے کسی شخص نے دریافت کیا کہ ماہِ رمضان کے بعد آپ کس مہینے میں مجھے روزے رکھنے کا حکم دیتے ہیں؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے کسی کو بھی اس بارے میں سوال کرتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے ایک شخص کے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اُس وقت یہ سوال کیا تھا جب کہ میں آپ کے پاس حاضر تھا۔ اُس آدمی نے پوچھا تھا کہ اے اللہ کے رسول! (صلی اللہ علیہ وسلم) ماہِ رمضان کے روزوں کے بعد میرے لئے کس مہینے میں روزے رکھنے کا حکم ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ماہِ رمضان کے روزوں کے بعد اگر تم روزے رکھنا چاہتے ہو تو ماہِ محرم کے روزے رکھا کرو! کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا وہ مہینہ ہے کہ جس کے ایک دن اللہ تعالیٰ نے ایک قوم (بنی اسرائیل) کی توبہ قبول کی تھی اور اسی دن دوسرے لوگوں کی بھی توبہ قبول فرمائے گا۔ (جامع ترمذی: 741)
یہ تو اس پورے مہینے میں روزے رکھنے کی عام فضیلت تھی جو اُوپر بیان ہوئی، لیکن اس مہینے میں عاشوراء یعنی دس محرم کے دن کی جو خاص فضیلت احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہے وہ اس مہینے کے دیگر تمام دنوں سے کہیں زیادہ ہے۔
چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سوائے عاشوراء (دس محرم) کے دن اور رمضان کے مہینے کے علاوہ کسی خاص دن روزہ رکھنے کا اہتمام اور اس دن کو کسی دوسرے دن پر فضیلت دیتے ہوئے نہیں دیکھا۔“ (صحیح بخاری: 2006)
حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کی ایک لمبی حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء (دس محرم) کے دن کے روزے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ: ”میں اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھتا ہوں کہ عرفہ (نو ذی الحجہ) کا روزہ رکھنا گزشتہ اور آنے والے سالوں کے (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے، اور میں اللہ تعالیٰ سے (اس بات کی بھی) اُمید رکھتا ہوں کہ عاشوراء (دس محرم) کا روزہ گزشتہ ایک سال کے (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔(صحیح مسلم:1162،سنن ابی داؤد:2425،جامع ترمذی:749،سنن ابن ماجہ: 1730)
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ: ”یہ (آج) عاشوراء (دس محرم) کا دن ہے، اور تمہارے اُوپر اس دن کا روزہ فرض نہیں کیا گیا، لیکن میں روزہ سے ہوں، سو (تم میں سے) جو شخص (اس دن) روزہ رکھنے کو پسند کرے تو اُسے چاہیے کہ وہ روزہ رکھ لے!“(صحیح ابن حبان:3626)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو دس محرم کے دن روزہ رکھتے ہوئے دیکھا (اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں لوگ اس دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ (رفیع) تو آپ نے اُن سے پوچھا کہ اس دن کی کیا خصوصیت ہے کہ تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ بڑا عظیم (اور نیک) دن ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اُن کی قوم کو نجات دی تھی (اور فرعون پر غلبہ عطاء فرمایا تھا) اور فرعون اور اُس کی قوم کو غرق (اور تباہ) فرمایا تھا، تو چوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بطورِ شکر (اور بطورِ تعظیم) کے اس دن روزہ رکھا تھا اس لئے ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”تمہارے مقابلے میں ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ قریب ہیں (اور بطورِ شکر روزہ رکھنے کے) زیادہ حق دار ہیں۔ چنانچہ آپ نے عاشوراء (دس محرم) کے دن خود بھی روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کی تلقین ارشاد فرمائی۔“ (بخاری:3397،صحیح مسلم:1130)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہودی عاشوراء (دس محرم) کے دن کی بہت زیادہ تعظیم کیا کرتے تھے اور اس دن عید منایا کرتے تھے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”تم اس دن روزہ رکھا کرو!“ (صحیح بخاری:2005)
حضرت عطاء رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے عاشوراء کے دن کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: ”تم عاشوراء (دس محرم) کے دن کا روزہ رکھا کرو! اور اس میں یہودیوں کی مخالفت کیا کرو! (کہ وہ صرف ایک دن (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں اور تم اس کے ساتھ) اس سے ایک دن پہلے (یعنی نو محرم) کا یا اس سے ایک دن بعد (یعنی گیارہ محرم) کا روزہ بھی رکھ لیا کرو!“(مصنف عبد الرزاق:7839،مسند احمد، شرح معانی الآثار)
حضرت ابن عباد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر آئندہ برس تک میں باقی رہا تو میں ضرور نویں محرم کابھی روزہ رکھوں گا۔(صحیح مسلم:133، 1134،سنن ابن ماجہ: 1736،مسند احمد: 3213)
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اِن مذکورہ بالا ارشادات کے پیش نظر عاشوراء (دس محرم) کے دن کا روزہ رکھنا چوں کہ یہودیوں کی مشابہت سے خالی نہ تھا، نیز اس کو چھوڑ دینا بھی اس کے فضائل و برکات سے محرومی کا باعث تھا، اس لئے فقہائے کرام نے آپ کے ان ارشادات کی رُوشنی میں فرمایا ہے کہ تنہاء عاشوراء (دس محرم) کے دن کا روزہ رکھنا اگرچہ فی نفسہٖ صحیح اور جائز ہے لیکن چوں کہ اس میں یہودیوں سے مشابہت ہے اس لئے مکروہِ تنزیہی یعنی خلافِ اولیٰ ہے، افضل یہ ہے کہ اس کے ساتھ ایک دن اس سے پہلے کا یا ایک دن اس کے بعد کا بھی روزہ رکھے۔(فتح الملہم شرح صحیح المسلم:ج 03 ص 46، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح: 08ص293، المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ: ص 48)
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں