میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نمازاوراخلاق کی اہمیت

نمازاوراخلاق کی اہمیت

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۰ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

افادات :مولاناطارق جمیل
کراچی اجتماع 2017ءمیں معروف مبلغ اور عالم دین مولاناطارق جمیل مدظلہ¾ نے نمازاوراخلاق سے متعلق نہایت قیمتی باتیں ارشاد فرمائیں،مولاناکے بیان میں سے مذکورہ عنوان سے متعلق چندبیش قیمت ملفوظات قلمبندکرکے ذیل میں افادہ¿ عام کی غرض سے دیئے جارہے ہیں۔
نماز میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں، نماز کی اہمیت کو سمجھئے:
کربلا کا میدان قائم ہے، اور ظلم و ستم کی نئی تاریخ لکھی جارہی ہے اور مظلومیت کی بھی نئی تاریخ لکھی جارہی ہے اور کائنات کا پاکیزہ ترین خون بہہ رہا ہے، اور نماز کا وقت داخل ہوا، سورج ڈھلا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے رائٹ سائیڈ کے ساتھی زہیر کو بلایا اور کہا شمر سے کہو نماز پڑھنے دے، جنگ روکے تھوڑی دیر، ہائے ہائے تلواروں کے نیچے گردنیں اور نماز نہیں چھوٹ رہی!میرے بازار کا تاجر کہتا ہے فرصت نہیں ہے، دفتر کا افسر کہتا ہے فارغ نہیں ہوں، ریڑھی کا مزدور کہتا ہے فارغ نہیں ہوں، میچ دیکھنے والا نوجوان اور کھیل کھیلنے والا جوان بھی کہتا ہے فارغ نہیں ہوں!آو¿ تمہیں اپنے نبی کے نواسے کی نماز دکھاو¿ں، ان کے تو جنت کے فیصلے ماں کا دودھ پیتے ہی ہوچکے تھے: حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں، میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں ۔حسن ‘حسین، جنت کے دو پھول ہیں ۔حسین حسین، میرے جگر کے ٹکڑے، حسین مجھ سے اور میں اس سے ہوں، اللہ میں ان دونوں سے پیار کرتا ہوں تو بھی ان سے پیار کر، اگلی خوش خبری سناو¿ں! اے اللہ! جو ان سے پیار کرے تو ان سے بھی پیار کر اور جو ان سے بغض رکھے تو بھی ان سے بغض رکھ!کیا لاڈ لگایا اپنے نواسوں کو! لیکن ایک زہر میں تڑپتا ہوا جان دے گیا، ایک کا سر کٹ کے نیزے پہ چڑھ گیا!جنت کی سرداریاں مل چکی ہیں، لیکن امت کو پیغام دے دیا کہ نماز‘ یوں بھی پڑھی جاتی ہے، شمر نے کہا نماز کے لیے وقت نہیں دیں گے، ہماری تلوار چلے گی، فرمایا: نماز چھوٹ نہیں سکتی !وہی عزت اور وہی کامیابی ہے کہ تیرا سر اپنے رب کے لیے زمین پر ٹک جائے۔چنانچہ نماز پڑھی، یہ چودہ صدیوں کی منفرد نماز ہے اپنے خون سے وضو کیا یا کربلا کی مٹی سے تیمم کیا، اللہ اکبرکی آواز نے کیا ہلچل مچائی ہوگی، سبحان ربی الاعلیٰ نے زمین کے کلیجے کو کیا ٹھنڈا کیا ہوگا؟ اور اگلی نماز سے پہلے سر نیزے پر چڑھ گئے!
مولوی روم مولانا رومؒ کب بنے؟
مولوی روم مولانا رومؒ تب بنے جب شمس تبریزؒ کے ہاتھوں میں ہاتھ دیا، ورنہ فلسفہ اور منطق میں گم ہوکے مرجاتے۔ کبھی فلسفہ اور منطق بھی اللہ تک پہنچاتا ہے؟ کبھی فلسفہ اور منطق سے بھی کسی نے اللہ کو پایا؟ سب سے پہلے اس فن کو اُمت میں مامون لایا تھا، وہی گم راہ ہوگیا اور خلق قرآن کا قائل ہوگیا! بشر مریثی کے عقلی دلائل سے متاثر ہوکر پوری اُمت کو پچاس سال تک اتنی خوف ناک آزمائش سے گزرنا پڑا!مولانا رومؒ منطق اور فلسفہ کے امام تھے، مسجد میں سبق پڑھارہے تھے، کتابیں حوض کے ساتھ رکھی ہوئی تھیں، ایک دیہاتی آیا، ننگے پاو¿ں، میلا سا عمامہ اور کہتا ہے مولانا ایں چیست؟ یہ کیا ہے؟ انہوں نے دیکھا ایک دیہاتی ہے، گنوار ہے، ان پڑھ ہے، جاہل ہے، تو انہوں نے بڑے طنب کے کہا کہ: ایں آں است کہ تو نمی دانی! یہ وہ ہے جو تو نہیں جانتا ،بھائی، چل اپنا کام کر۔ وہ ایک دم آگے بڑھا اور ساری کتابوں کو دھکا دیا، ساری کتابیں حوض میں جاگریں، او ہو‘ ہو! مولانا روم نے سر پکڑ لیا، ارے تو نے مجھے برباد کردیا، ارے ظالم تو نے میری ساری زندگی کی کمائی تباہ کردی، یہ کوئی تھوڑا تھا کہ پریس سے دوبارہ چھپوالو‘ نکلوالو ، ہاتھ کے قلمی نسخے، کہنے لگے کہ تو نے مجھے ختم کردیا، وہ مسکرایا اور حوض میں ہاتھ ڈال کر ایک ایک کتاب کو نکالتا رہا‘اس میں سے مٹی اور غبار نکل رہا ہوتا، مٹی اور غبار سمیت کتاب حوض سے باہر رکھ دیتا، ساری کتابیں خشک نکال کے باہر رکھ دیں! مولانا روم پر حیرت طاری ہوئی اور کہا کہ ایں چیست؟ یہ کیا ہے؟ تو اُس دیہاتی نے کہا: ایں آں است کہ تو نمی دانی! یہ وہ ہے جو تو نہیں جانتا! بس پھران کے ہاتھوں میں ہاتھ دیا،سبحان اللہ! ہماری جماعت دو سال پہلے گئی، ان کے مزار پر حاضری ہوئی، وہاں اتنے زائرین آتے ہیں کہ آٹھ سو روپے کا ٹکٹ ہے، اور جتنے مسلمان اتنے ہی غیر مسلم۔ اللہ نے کیا محبت ڈالی سات سو سال ہوگئے دنیا سے گئے ہوئے لیکن آج بھی ان کے مزار پر ایک میلے کی کیفیت ہے۔
منبر بھی ایک اقتدار ہے، جب تک اللہ حفاظت نہ فرمائے:
منبر بھی ایک اقتدار ہے، جب تک اللہ حفاظت نہ فرمائے، یہ منبر بھی جہنم تک پہنچاتا ہے، کتنے پہنچیں گے! جیسے کرسی، صدارت، وزارت، ایم پی اے ،ایم این اے اقتدار ہے ایسے ہی منبر بھی ہے۔ لیکن ”الا من رحم ربی“ جس پر میرے رب کا کرم ہوا، وہ اس منبر کی خیر کو لے گیا اور فتنہ سے بچ گیا! سب سے پہلے جہنم میں کون ڈالا جائے گا؟ علمائ، طلباءکا کتنا مجمع موجود ہے (سب جانتے ہیں)، شرابی کو، زانی کو، نہیں، قاتل کو، فرعون کو، شداد کو، ہامان کو، قارون کو، ابو جہل کو، ابو لہب کو، ابی بن خلف کو، امیہ بن خلف کو نہیں نہیں، عالم دین سب سے پہلے جہنم میں ڈالا جائے گا! جس نے چند ٹکوں پہ منبر کو بیچ دیا، سب سے پہلا کیس عدالت میں لگے گا، علامہ صاحب آرہے ہیں، وہ کہے گا میں نے علم سیکھا ہے، پڑھا ہے، کہا جائے گا: کذبت بکواس کرتا ہے، فرشتے بھی کہیں گے کذبت جھوٹ بولتا ہے، تو اس لیے منبر پر بیٹھا کہ تیری وا واہ ہو، تو نے اس لیے علم کے نکتے کھولے کہ کہا جائے بڑا علامہ ہے، کہا جائے گا ڈال دو جہنم میں۔ علم بڑا امتحان ہے بھائیو! سب سے پہلے جہنم میں کون گیا؟ علم میں زندگی گزارنے والا، کہاں خرابی آئی؟ دین اور علم بیچ ڈالا، اپنی شہرت، واہ واہ اور اپنی نام وری کے لیے!علماءاور طلباءقرآن سے جی لگاو¿، اللہ سے اس کا فہم مانگو اس کا حسن مانگو کہ اللہ اس کا فہم ہمارے اوپر کھول دے۔
میرے بھائیو! اللہ کے واسطے زبان کے استعمال کے بارے میں اللہ سے ڈرو!
”یوسف علیہ السلام نے اپنے اوپر ظلم ہونے کے باوجود بھائیوں کے ساتھ عفو و درگزر کر کے دکھا دیا، یہ سبق ہے، ہمارا معاشرہ انتقامی بن چکا ہے، مذہب کا اختلاف آجائے معاف کرنے کے لیے تیار نہیں، تاویل کرنے کے لیے تیار نہیں، نہ تاویل کرتے ہیں نہ درگزر کرتے ہیں، سخت سے سخت ہوتے چلے جاتے ہیں۔ قوم کا معاملہ آجائے، لین دین کا معاملہ آجائے، رشتوں ناطوں کا معاملہ آجائے شدت شدت!بھائیو! محبت سیکھو، اللہ کے واسطے، وسعت سیکھو، جنت بہت بڑی ہے، ہمارے درمیان تعصب اور شدت نے یہ فضا بنادی ہے کہ بس ہم ہی جنتی ہیں اور کوئی جنت میں نہیں جاسکتا!میرے نبی کا فرمان ہے ایک دن آئے گا میرا اللہ فرمائے گا جس نے زندگی میں ایک دفعہ بھی اللہ کہا ہے اسے جنت میں ڈال دو!اللہ معاف کرنے والا ہے ،معاف کرو، اللہ دینے والا ہے دینے والے بنو، اللہ محبت کرنے والا ہے محبت کرنے والے بنو، اللہ ستاری کرنے والا ہے ،پردہ پوشی کرنے والا ہے، پردہ پوشی کرو، لوگوں کے عیب چھپاو¿ ،گناہ چھپاو¿، اللہ کھلاتا ہے کھاتا نہیں، لوگوں کو کھلانے والے بنو، معاف کرنے والی صفت پیدا کرو۔میرے بھائیو! معاف کرنے، درگزر کرنے کی عادت ڈالو، اللہ کے واسطے یہ دو ہونٹ اور بتیس دانتوں کے درمیان چلنے والی زبان کو پکڑ کر رکھو! اس زبان نے آگ لگادی، گھر ٹوٹ گئے، خاندان ٹوٹ گئے، رشتے پھیکے پڑ گئے، تحریکیں فنا کے گھاٹ اتر گئیں، جماعتیں ٹوٹ گئیں، دل پارہ پارہ ہوگئے، پیچھے کوئی جائیداد نہیں ہے، گندی زبان ہے۔ میرے نبی کا ظرف کہ قتل کرنے والوں کو معاف کیا!اچانک پتا چلا کہ سفیان بن حارث بن عبد المطلب اور عبد اللہ بن امیہ بن عاتکہ ایک پھوپھی کا بیٹا اور ایک چچا زاد آئے ہیں، فتح مکہ سامنے ہے، خادم کہتا ہے کہ یا رسول اللہ! یہ دونوں تائب ہونے آئے ہیں، کلمہ پڑھنے آئے ہیں، میرے نبی نے فرمایا: میں ان سے ملاقات نہیں کروں گا، یہ حارث میرے بارے میں لمبے لمبے شعر کہتا تھا اس نے میرے دل کو دکھا یا ہوا ہے اور عبد اللہ بن امیہ وہ ہے جس نے مجھے مکہ کے حرم میں کہا تھا کہ تو آسمان پر جا اور دو فرشتے لے کر آ، ان کے ہاتھ میں اللہ کا پیپر ہو، اس میں اللہ کی مہر لگی ہو اور وہ آکر حرم میں اعلان کریں جب بھی میں تجھے نبی نہیں مانوں گا!
فرمایا: میرا دل دکھی ہے‘ میں ان سے ملاقات نہیں کروں گا۔اتنے بڑے اخلاق والے زبان کے زخم کو محسوس فرمارہے ہیں اور کہہ رہے ہیں میں نہیں ملوں گا، اللہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا‘ ہماری ماں کے درجے بلند کرے جنہوں نے اس موقع پر کیا خوب صورت بات کہی۔ جتنے بڑے لوگ ہیں ان کے خادم بہت خطرناک چال چل سکتے ہیں اور بہت ہی عالی شان بھی چل سکتے ہیں، اگر بڑوں کے خادم غیبت کے عادی ہوگئے تو خود بھی برباد ہوں گے اور بڑوں کو بھی برباد کریں گے ،خود بھی کھڈے میں گریں اور اپنے بڑوں کو بھی کھڈے میں گرائیں گے، سارے نظام کو توڑ کے رکھ دیں گے، بڑوں کے ساتھ رہنے والے دیانت دار ہوں گے، زبان کا استعمال صحیح ہوگا، غیبت سے اور لڑانے سے بچیں گے تو بڑی خیریں وجود میں آئیں گی، بڑے درد سے کہہ رہا ہوں ‘یہاں دینی خدام بڑا خطرناک کردار ادا کررہے ہیں، سوائے اس کے جس پر اللہ کا کرم ہوجائے ورنہ ہماری تو دنیا بھی ڈوبی پڑی ہے اور ہمارے دینی نقشے بھی ڈوبے پڑے ہیں! جب آدمی مصروف ہوجاتا ہے، کسی بڑے منصب پر آتا ہے تو خود نہیں دیکھ سکتا‘ چوں کہ اس کی مصروفیت بڑھ جاتی ہے، عمر زیادہ ہوجاتی ہے، تو اس کے کان ہوتے ہیں، آنکھیں نہیں ہوتیں، یہ کان میں جانے والا خیانت کا بول فیصلے غلط کروادیتا ہے، اللہ کے واسطے زبان کے استعمال کے بارے میں اللہ سے ڈرو!
میرے پاس الفاظ نہیں ہیں اپنے دکھ اور اپنی جگر کی آگ کو تمہارے سامنے کھول کر بیان کرنے کے لیے! اور بڑوں سے بھی گزارش کرتا ہوں کان بند کرلیں، غیبتیں مت سنیں! اپنے ساتھیوں کی کمیاں مت سنیں، میرے رب کی قسم! وہ انسان ہی نہیں جس میں کمی نہ، وہ انسان ہی نہیں جس میں خطا نہ ہو، وہ انسان ہی نہیں جو بھولتا نہ ہو، وہ انسان ہی نہیں جو غلط نہ کرتا ہو۔ یا اوپر فرشتے یا زمین پر انبیائ، باقی بڑی سے بڑی ہستی خطا سے پاک نہیں ہوسکتی، میرے رب کا نظام ہے ‘اس نے نبی غیر نبی میں فرق رکھا ہے ہم ان غلط عادات کی وجہ سے بڑے بڑے ساتھیوں سے محروم ہوگئے اور مزید ہوتے چلے جائیں گے۔اگر اپنے کانوں کو بند نہ کیا، غیبت سننا بند نہ کی اور غیبت کی حوصلہ شکنی نہ کی، تو خود بھی تباہ ہوں گے اور انہیں بھی تباہ کریں گے۔ یہ دونوں اکٹھے ڈوبیں گے۔میرے نبی کی محفل میں کسی کی غیبت نہیں ہوتی تھی، کسی کے عیب نہیں اچھالے جاتے تھے، کسی کی کمی کو نہیں بیان کیا جاتا تھا، پھر میری آنکھوں نے ایک بندہ دیکھا ”مولانا سعید احمد خان رحمة اللہ علیہ“ جس کی محفل میں غیبت نہیں ہوتی تھی ‘جو غیبت نہیں سنتے تھے، نہ اپنی تعریف سنتے تھے ‘نہ کسی کی غیبت سنتے تھے، یہاں الٹا کام ہے اپنی تعریف ہورہی ہے اور خوش ہورہے ہیں، اوروں کی برائی ہورہی ہے تو ان پر بگڑے جارہے ہیں اور غصے ہوئے جارہے ہیں!
ہائے میں قربان جاو¿ں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے اس موقع کے عمل پر! اگر آپ اتنا کہہ دیتی کہ یا رسول اللہ یہ ہیں ہی اسی قابل، وہ مرگئے تھے، جہنم میں چلے گئے برباد ہوجاتے، لیکن ام المو¿منین نے یہ نہیں کہا: بلکہ عرض کیا کہ یارسول اللہ! آپ تو معاف کرنے والے ہیں! تو آپ نے دونوں کو اندر بلالیا!“


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں