میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آپ کے مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں

آپ کے مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۴ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

مفتی غلام مصطفی رفیق
میت پر قرض کا دعویٰ کرنے کا حکم،بیوی کے نام مکان کرنا
سوال:جناب مفتی صاحب!عرض یہ ہے کہ اسلام کی روشنی میں ان دونوں مسائل کا حل بتائیں۔۱۔اگرکوئی شخص عدم ثبوت وگواہوں کے صرف اللہ کی قسم کھاکر، حلف دے کرقسم کو ثبوت بناکر کسی شخص کی وفات کے بعد اس وفات شدہ بندے کے وارثوں سے قرض کی رقم یادوسری دنیاوی چیز عوضِ حلف وصول یاخریدسکتاہے؟جب کہ مذکورہ مرحوم آدمی نے اپنی زندگی میں کبھی اپنے وارثوں اور کسی بھی فرد کو نہ بتایاہو۔کیامرحوم کے وارث حلف کی بنیاد پر دنیاوی چیز یاقرض کی رقم دے سکتے ہیں؟
۲۔اگرایک آدمی شادی سے پہلے اپنی ذاتی آمدنی سے ایک پلاٹ خرید ا اورمکان بنواکر اپنی بیوی کے نام کردیتاہے اور خود اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہتاہو،کچھ عرصہ بعد اس کی بیوی کاانتقال ہوجائے،متوفیہ پر قرض ہو قرآن کے مطابق قرض کی ادائیگی اس کے ترکے سے کی جائے گی؟اب مذکورہ نام کیاگیامکان اس کاترکہ ہوگا؟اور مکان کی میراث ہوگی؟دونوں سوالوں کا جواب اسلام کی روشنی میں عنایت فرمائیں۔(محمد فاروق ،شاہ فیصل کالونی کراچی)
جواب:۱۔شریعت میں دعویٰ کرنے والے پرگواہوں کا پیش کرنالازم ہے ،اور اگر مدعی کے پاس گواہ نہ ہوں تومدعی علیہ(جس پر دعویٰ کیا جائے)سے قسم لی جائے گی۔لہذااگرمرحوم نے ترکہ چھوڑاہے،اور مذکورہ شخص جو میت پرقرض یاکسی اورچیز کادعویٰ کررہاہے اگراس شخص کے پاس اپنے اس دعویٰ پر گواہ نہ ہوں،اور میت کے ورثاءمیں سے کوئی اس شخص کے دعویٰ کااقراربھی نہیں کرتاتواس صورت میں مذکورہ شخص حلف کے ذریعہ قرض وصول نہیں کرسکتا،بلکہ شرعی طور پر یہ دعویٰ کرنے والاشخص میت کے ورثاءسے حلف لے لے کہ انہیں اس قرض کا علم نہیں اور نہ میت نے انہیں بتایاہے،اگر ورثاءاس بات پر حلف اٹھالیتے ہیں تو مدعی کادعویٰ ساقط ہوجائے گا۔ اور اگرمیت کے ورثاءحلف اٹھانے سے انکار کریں تو دعویٰ لازم ہوجائے گا۔”وÊن لم تکن للمدعی بینة وا¿راد استحلاف ہذا الوارث یستحلف علی العلم عند علمائنا – رحمہم اللہ تعالی – باللہ ما تعلم ا¿ن لہذا علی ا¿بیک ہذا المال الذی ادعی وہو ا¿لف درہم ولا شیءمنہ،فÊن حلف انتہی الا¿مر وÊن نکل یستوفی الدین من نصیبہ“۔(فتاویٰ ہندیہ، کتاب ادب القاضی، الباب الخامس والعشرون فی اثبات الوکالة والوراثة وفی اثبات الدین،-فتاویٰ شامی، 5/553،ط:دارالفکر بیروت)
۲۔اگر مذکورہ مکان بیوی کے نام کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کے قبضہ میں بھی دے دیاتھاتواس صورت میں یہ مکان مرحومہ کاترکہ شمار ہوگا،مرحومہ کے ترکہ میں اگر صرف یہی مکان ہوتو اسے فروخت کرکے مرحومہ کاقرض اداکیاجائے گااور بقیہ اس کے ورثاءمیں تقسیم ہوگا۔اور اگر شوہر نے مذکورہ مکان صرف بیوی کے نام ٹرانسفرکیاتھاقبضہ اور تمام تصرفات شوہرہی کے پاس تھے تواس صورت میں یہ شوہرہی کی ملکیت شمار ہوگابیوی کے ترکہ میں شامل نہ ہوگا۔
نکاح پڑھانے کا شرعی طریقہ
نکاح سے متعلق چند سوالات
سوال:نکاح پڑھانے کا شرعی طریقہ کیاہے؟آج کل مختلف طریقوں سے نکاح پڑھایاجاتاہے،جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱۔کسی جگہ خطبہ کھڑے ہوکرپڑھاجاتاہے،کسی جگہ بیٹھ کر۔
۲۔کسی جگہ ایجاب وقبول تین مرتبہ ،تین مرتبہ وکیل اور تین مرتبہ دلہاسے پوچھاجاتاہے،جب کہ کسی جگہ ایک مرتبہ پوچھاجاتاہے۔
۳۔کسی جگہ کوئی خطبہ پڑھاجاتاہے،کسی جگہ دوسراخطبہ پڑھاجاتاہے۔
۴۔کسی جگہ کلمہ پڑھایاجاتاہے کسی جگہ نہیں پڑھایاجاتاہے۔
برائے مہربانی تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں۔(تاج محمد، صالح محمدگوٹھ ملیر کراچی)
جواب:شرعی طورپرنکاح کی حقیقت یہ ہے کہ ایک ہی مجلس میں ایک طرف سے ایجاب ہو اور دوسری جانب سے قبول،اور یہ ایجاب وقبول دوشرعی گواہوں کی موجودگی میں ہو۔اس طرح شرعاً نکاح منعقد ہوجاتاہے،بغیرگواہوں کے نکاح منعقد نہیں ہوتا۔نکاح پڑھانے کا طریقہ یہ ہے کہ ابتداءمیں خطبہ پڑھاجائے،اور خطبہ پڑھنامسنون ہے،خطبہ پڑھنے کے لیے کھڑاہوناضروری نہیں ہے، بیٹھ کر بھی خطبہ پڑھ سکتے ہیں اورکھڑے ہوکر بھی،دونوں صورتیں جائزہیں،اگرچہ اصل یہ ہے کہ خطبہ کھڑے ہوکر پڑھاجائے،چنانچہ مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:”اصل خطبوں میں کھڑے ہوکرہی پڑھناہے،مگربیٹھ کربھی جائز ہے،ہندوستان میں عام طور پراب یہی رواج ہے، عرب میں بھی اب یہی رواج ہوگیا ہے“۔اسی طرح کوئی بھی ایساخطبہ جس میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثناءاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پردرود وسلام پڑھاجائے کافی ہے،البتہ مشکوة شریف میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کایہ خطبہ نقل کیاہے:
”Êن الحمد للہ نستعینہ ونستغفرہ ونعوذ باللہ من شرور ا¿نفسنا من یہدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلا ہادی لہ وا¿شہد ا¿ن لا Êلہ Êلا اللہ وا¿شہد ا¿ن محمدا عبدہ ورسولہ،یا ا¿یہا الذین آمنوا اتقوا اللہ حق تقاتہ ولا تموتن Êلا وا¿نتم مسلمون۔یا ا¿یہا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدة وخلق منہا زوجہا وبث منہما رجالا کثیرا ونساءواتقوا اللہ الذی تساءلون والا¿رحام Êن اللہ کان علیکم رقیبا۔یا ا¿یہا الذین آمنوا اتقوا اللہ وقولوا قولا سدیدا یصلح لکم ا¿عمالکم ویغفر لکم ذنوبکم ومن یطع اللہ ورسولہ فقد فاز فوزا عظیما۔“
بعض روایات میں ایک دولفطوں کااضافہ بھی ہے۔خطبہ پڑھنے کے بعد لڑکی کے وکیل سے ایجاب اور لڑکے سے قبول کروایاجائے،کہ میں نے فلانہ بنت فلاں کانکاح تمہارے ساتھ اتنے مہر کے عوض کیا،کیاتم نے قبول کیا؟مرد جواب میں کہے کہ میں نے قبول کیا۔اس طرح نکاح مکمل ہوجائے گا۔اور پھردعاکروادی جائے۔تین مرتبہ ایجاب وقبول کروانالازم نہیں ،بس ایک دفعہ ہی ایجاب وقبول کافی ہے،اگرکوئی شخص تین بار ایجاب وقبول کرواتاہے تویہ ایک زائد بات ہے،البتہ اس سے بھی نکاح درست ہے۔نکاح کے موقع پر دلہاکوکلمہ پڑھانے کی ضرورت نہیں،جب کسی شخص کے بارے میں علم ہو کہ اس کے عقائد درست ہیں،مسلمان ہے،توایجاب وقبول کروادیناہی کافی ہے۔البتہ کسی کے بارے میں علم ہوکہ دین سے دوری کی وجہ سے اس کی زبان سے کفریہ¿ کلمات نکلے ہوں گے تو کلمہ پڑھوالیا جائے، لیکن ہرجگہ اس کولازم سمجھناغلط ہے۔فتاویٰ رحیمیہ میں مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:”نکاح کے انعقاد کے لیے کلمہ ،ایمان مجمل اور ایمان مفصل پڑھانا ضروری نہیں ہے،تاہم عوام الناس کلمہ سے ناواقف ہوتے ہیں ، توایسے وقت تجدیدکلمہ میں مضائقہ نہیں بلکہ اس میں احتیاط ہے ،خواص میں اس کی ضرورت نہیں۔“ (مشکوة المصابیح،کتاب النکاح ،ص: 272،ط؛قدیمی کراچی-فتاویٰ شامی، کتاب النکاح، 3/9، ط: سعید-فتاویٰ رحیمیہ 8/147، ط: دارالاشاعت – ایضاً 8/158)
اپنے سوالات اس پتے پر بھیجیں :
انچارج ”فہم دین“ روزنامہ جرا¿ت ‘ ٹریڈ سینٹر ‘ نویں منزل ‘ 907آئی آئی چندریگر روڈ کراچی
masail.juraat@gmail.com


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں