میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
راہِ خدا میں خرچ

راہِ خدا میں خرچ

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۹ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

مولانا ندیم الرشید
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانہ کی طرح ہے جس میں سات بالیں ہوں کہ ہر بال میں سو دانے۔
اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:
جنہوں نے اپنا مال دونوں ہاتھ بھر بھر کر راہ خدا میں لٹایا ہے وہی ہلاکت سے نجات پائیں گے۔(مسلم و بخاری)
چونکہ زکوٰة و خیرات میں مخلوق کی ضرورتیں اور محتاجوں کے فاقے رفع ہوتے ہیں اس لیے یہ بھی دین کا ایک ستون ہے‘ اور اس میں حکمت یہ ہے کہ چونکہ مخلوق کو اللہ رب العزت سے محبت رکھنے کا حکم ہے اور مسلمان بندے خدا کی محبت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں لہٰذا اللہ پاک نے مال خرچ کرنے کو اپنی محبت کو معیار اور آزمائش کی کسوٹی بنادیا ہے تاکہ مدعیان ایمان کے دعوے کا جھوٹ سچ کھل جائے‘ کیونکہ عام قاعدہ ہے کہ انسان اپنے اس محبوب کے نام پر جس کی محبت دل میں زیادہ ہوتی ہے اپنی تمام مرغوب اور پیاری چیزیں لٹا دیا کرتا ہے‘ پس مال جیسی پیاری چیز کا حق تعالیٰ کے نام پر خرچ کرنا خدا کے ساتھ محبت کے بڑھے ہوئے ہونے کی علامت ہے اور بخل کرنا خدا کی محبت نہ ہونے کی دلیل ہے‘ صدقہ و خیرات دینے والے مسلمان تین طرح کے ہیں۔
خیرات کا اعلیٰ درجہ
ایک تو وہ ہیں جنہوں نے جو کچھ بھی پایا سب راہ خدا میں دے دیا اور خدا کے ساتھ محبت کرنے کا دعویٰ سچ کردکھایا۔ مثلاً حضرت صدیق عتیق رضی اللہ عنہ کہ جو کچھ بھی گھر میں تھا انہوں نے سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں لا رکھا اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے ابوبکر اپنے لیے کیا رکھا تو عرض کیا کہ ”اللہ اور اللہ کا رسول“(ترمذی)
اس موقع پر حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ بھی بغرض خیرات مال لائے تھے اور ان سے بھی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی سوال کیا تھا کہ اے عمر تم نے اپنے لیے کیا رکھا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ”جس قدر لایا ہوں اسی قدر چھوڑ آیا ہوں“
اس وقت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” تم دونوں کے مرتبہ کا فرق تم دونوں کے جواب سے ظاہر ہے(ابو نعیم)
خیرات کا متوسط درجہ
دوسرے درجہ میں وہ متوسط لوگ ہیں جو سارا مال تو خدا کے نام پر نہیں لٹاتے مگر اس کے ساتھ ہی اپنے نفس پر بھی ضرورت سے زیادہ خرچ نہیں کرتے بلکہ محتاج بندوں کی حاجتیں ظاہر ہونے کے منتظر رہتے ہیں اور جس وقت کوئی مصرف پاتے یا کسی کو محتاج دیکھتے ہیں تو بے دریغ مال خرچ کر ڈالتے ہیں یہ لوگ صرف زکوٰة یعنی مقدار فرض پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ سارے ہی مال کو اللہ رب العزت کے لیے خرچ کرنے کی نیت رکھتے ہیں کہ مال پاس رکھنے کی غرض اس کو راہ خدا ہی میں خرچ کرنا ہے البتہ موقع محل کا انتظار ہے ۔
خیرات کا ادنیٰ درجہ
تیسرے درجہ میں وہ کمزور مسلمان ہیں جو زکوٰة واجبہ ہی کے ادا ہونے کو غنیمت سمجھتے ہیں کہ اگر اس سے خیرات نہیں کرتے تو فرض مقدار میں ذرہ برابر کمی بھی نہیں کرتے۔
ان تینوں گروہوں کے مرتبوں کا فرق اور حق تعالیٰ سے محبت کی مقدار ان کے خرچ کی حالت سے خواہی سمجھی جاسکتی ہے۔
لہٰذا اگر آپ پہلے درجہ کے لوگوں تک نہیں پہنچ سکتے تو کم از کم تیسرے درجے سے بڑھ کر متوسط درجہ کے لوگوں کے ادنیٰ درجہ تک پہنچنے کی کوشش تو ضرور کریں کہ مقدار واجب کے علاوہ روزانہ کچھ نہ کچھ ضرور خرچ کردیا کریں، اگر چہ روٹی کا ادنیٰ سا ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو پس اگر ایسا کریں گے تو بخیلوں کے طبقہ سے اوپر چڑھ جائیں گے۔
مفلس مسلمان
اگر مفلس و تہی دست مسلمان ہو تو یہ نہ سمجھے کہ صدقہ مال ہی میں منحصر ہے اور ہم اس سے معذور ہیں‘ نہیں بلکہ اپنی عزت و جاہ‘ آرام و آسائش ‘ قول و فعل غرض جس پر بھی قدرت ہو اس کو اللہ رب العزت کے نام پر خرچ کرے‘ مثلاً بیمار کا پوچھنا،جنازہ کے ساتھ جانا اور حاجت کے وقت محتاج کی امداد کردینا ،مثلاً کسی مزدور کا بوجھ بٹالینا‘ یا سہارا لگا دینا‘ یا سعی و سفارش سے کسی کا کام نکلوا دینا اور نیک بات کہنا یعنی ہمت بندھانا ،ڈھارس دلانا وغیرہ یہ سب امور صدقہ ہی میں شمار ہوتے ہیں اور یہ ایسے صدقات ہیں جن کے لیے مالدار ہونے کی ضرورت نہیں(بخاری و مسلم)
زکوٰة و صدقات میں پانچ باتوں کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے
پہلی بات: جو کچھ بھی دیا جائے وہ لوگوں سے چھپا کر دیا جائے‘ کیونکہ حدیث مبارک میں آیا ہے کہ چھپا کر خیرات دینا پروردگار کے غصے کو بجھاتا ہے‘ اور جو مسلمان اپنے دائیں ہاتھ سے اس طرح خیرات کرے کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو تووہ قیامت کے دن ان سات آدمیوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا جن پر حق تعالیٰ قیامت کے دن سایہ فرمائے گا جب کہ اس سایہ کے سوا کہیں سایہ نہ ہوگا۔(بخاری و مسلم)
کیونکہ اس میں حکمت یہ ہے کہ صدقہ سے مقصود بخل کی بدخصلت کا دور کرنا ہے مگر اس میں ریا کے خطرناک مرض کا اندیشہ ہے اس لیے چھپا کر دینے کے سبب ریا سے نجات مل جائے گی کیونکہ ریا قبر کا سانپ اور بچھو ہے۔
دوسری بات:۔ جس کو خیرات دی جائے اس پر احسان نہ سمجھیں اور اس کی شناخت یہ ہے کہ کسی محتاج کو کچھ خیرات کے طور پر کچھ دیا اور اس سے شکر گزاری کی توقع رکھی یا مثلاً اس نے صدقہ دینے والے سے بدسلوکی کی اور دشمن سے محبت کرنے لگا تو اس پر اس قدر ناگوار گزرا کہ اگر صدقہ نہ دیا ہوتا تو اس قدر نا گوار نہ گزرتا۔
اس کا علاج یہ ہے کہ محتاج کو اپنا محسن سمجھیں کہ جس نے صدقہ کا مال لے کر حق خداوندی سے سبکدوش کردیا اور مرض بخل کو طبیب بن گیا‘اور مال کے میل کو ختم کرکے مال کو پاک کردیا تو بھلا اس نے احسان کیا یا نہیں؟
تیسری بات:۔ عمدہ سے عمدہ اور پاکیزہ سے پاکیزہ مال خیرات کیا جائے کیونکہ جو چیز خود کو نا پسند ہو اس کا اللہ رب العزت کے نام پر دینا کیسے مناسب ہوسکتا ہے‘ کیونکہ یہ بات واضح ہوچکی کہ اس سے مقصود دعویٰ محبت خداوندی کا امتحان ہے پس جیسی بھی بری یا بھلی چیز اللہ رب العزت کے نام پر خرچ کی جائے گی اس سے خود ہی واضح ہو جائے گا کہ اللہ رب العزت سے کس قدر محبت ہے۔
چوتھی بات:۔ جو کچھ بھی دیا جائے وہ خوشی خوشی اور خندہ پیشانی سے دیا جائے کیونکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ : ایک درہم لاکھ درہم سے بڑھ جاتا ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ جو ایک درہم نیک نیتی سے اور خوشی سے دیا گیا ہے وہ ان لاکھ درہموں سے بڑھا ہوا ہے جو ناگواری سے دیے گئے ہوں۔
پانچویں بات:۔ صدقہ کے لیے محل و مصرف عمدہ تلاش کیا جائے یعنی کسی پرہیز گار عالم کو دیا جائے کہ آپ کا مال کھانے سے اس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور تقویٰ پر قوت اور اعانت حاصل ہو‘ یا کسی عیالدار نیک بخت مسلمان کو دیا جائے اگر یہ تمام اوصاف ایک شخص میں جمع نہ ہوں تو جس میں ایک وصف بھی پایا جائے وہ بھی صدقہ پاک ہو جانے کے لیے کافی ہے‘ البتہ نیک بختی کا لحاظ سب سے مقدم ہے‘ کیونکہ دنیا کا مال و متاع بندوں کے لیے اسی واسطے مہیا کیا گیا ہے کہ ان کی گزر بسر ہوسکے اور ان چند روزہ ایام میں آخرت کا توشہ حاصل ہو جائے۔ تو جو لوگ درحقیقت سفر آخرت میں مشغول ہیں اور اس عالم فانی کو راستہ کا پڑاﺅ‘ اور مسافر خانہ سمجھے ہوئے ہیں وہی اس پیسے کا مصرف ہونے چاہئیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
پرہیز گاروں کو کھانا کھلایا کرو اور اپنا تبرع و سلوک ایمانداروںہی کو پہنچایا کرو۔ اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ (اس خطبے کی تیاری کے لیے امام غزالی علیہ الرحمہ کی کتاب”تبلیغ دین“ سے استفادہ کیا گیا ہے۔)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں