میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاناما پیپرز۔۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی(قسط نمبر25)

پاناما پیپرز۔۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی(قسط نمبر25)

منتظم
پیر, ۲۴ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

مشرق وسطیٰ کے شیوخ اور جرمن تاجر شراب کی آف شور کمپنیوں کے مالکان میں شامل ہیں
ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں ایک لاکھ 3 ہزار لوگ ایسے دولت مندوں میں شمار ہوتے ہیں جن کے لیے کسی بھی وقت بلاسوچے سمجھے 30ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کوئی معنی نہیں رکھتی
تلخیص وترجمہ : ایچ اے نقوی
موسفون کے ایک ملازم نے شیل کمپنی قائم کرنے میں دلچسپی رکھنے والے جرمنی کے ایک شخص کو خط لکھاتھا کہ اس کے کلائنٹس کی اکثریت دولت مند ترین لوگوںپر مشتمل ہے جن میں سے اکثریت کی دولت 5لاکھ ڈالر سے زیادہ ہے۔موسفون کے ملازمین دولت مند ترین لوگوں کو متنبہ کرتے تھے کہ دولت کو خفیہ رکھنے اور اس کاانتظام سنبھالنے کے لیے ایک بڑے اسٹرکچر او رنیٹ ورک کی ضرورت ہوتی ہے جس پر ہزاروں ڈالر ماہانہ خرچ آتاہے،دولت مند لوگوں کے لیے اتنی رقم کوئی مسئلہ نہیں تھی وہ تو30-30 ملین ڈالر کی بیک وقت سرمایہ کاری کے لیے تیار نظر آتے تھے۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں ایک لاکھ 3 ہزار لوگ ایسے دولت مندوں میں شمار ہوتے ہیں جن کے لیے کسی بھی وقت بلاسوچے سمجھے 30ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کوئی معنی نہیں رکھتی ،اس گروپ میں مشرق وسطیٰ کے شیوخ بھی شامل ہیں جو ایسی بے شمار کمپنیوں کے مالک ہیں جن کاانتظام موسفون کے پاس ہے۔جون2009 میں ایسی ہی ایک کمپنی مارش ڈیل ایس اے نے روس کے ایک سرکاری عہدیدار سے 87میٹر لمبی ایک کشتی کئی سو ملین ڈالر میں خریدی تھی۔تاہم ڈاکومنٹس سے ظاہرہوتاتھاکہ خود موزاک فونسیکاکے ملازمین کو بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ مارشل ڈیل ایس اے کا مالک کون ہے؟۔بعد میں انکشاف ہوا کہ اس کمپنی کامالک ابو ظہبی کے حکمران خاندان سے تعلق رکھنے والے شیخ عبداللہ بن زید النہیان تھے جو اس وقت متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ تھے۔
ڈاکومنٹس سے ظاہر ہوتاتھا کہ جرمنی کی بڑی کمپنیوں کے متعدد ڈائریکٹران بھی مالورکا یا کیریبین میں اپنے محلات بنانے کے لیے برٹش ورجن آئی لینڈ میں آف شور کمپنیاں قائم کئے ہوئے تھے۔ان میں سے ایک نے تو یہ ثابت کرنے کے لیے اس کی رقم لوٹی ہوئی اورناجائز ذرائع سے حاصل کردہ نہیں بلکہ جائز طریقے سے کمائی ہوئی ہے ہمیں اپنا ٹیکس کاگوشوارہ بھی بھیج دیاتھا۔جبکہ دوسری نے فون پر کہاتھا کہ اس کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں ہے وہ جلد ہی تمام باتیں آشکار کردیں گے۔اس کے ساتھ ہی انھوںنے ہمیں اپنے ٹیکس ایڈوائزر سے ملاقات کی دعوت بھی دی تھی۔
یہ ایک حقیقت تھی کہ آف شور کمپنیاں قائم کرنے کے بہت سے فوائد تھے مثال کے طورپر اگر آپ اسپین میں کوئی مکان خریدنا چاہیں تو آپ کو 10فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑتاہے لیکن اگر آپ مکان خریدنے کے بجائےمکان خریدنے کے بجائے اس مکان کی مالک کمپنی کے شیئرز خریدلیں،ہمیں ایسے بیشمار ایسے دولت مند جرمن باشندوں کی ایک بڑی فہرست موجود تھی جن لوگوں نے دوسرے براعظموں میں سرمایہ کاری کر رکھی تھی یا جو آف شور کمپنیوں یااملاک کے مالک تھے۔ان لوگوں میں صنعت کار ،شہزادے ،شراب کمپنیوں کے مالک ،شہزادیاں، بڑے بااثر تاجراور جاگیردار شامل تھے اور ان تمام لوگوں کی فیملی کے موزاک فونسیکا کے ساتھ روابط اور تعلقات قائم تھے۔
پاناما میں رجسٹرڈ بہت سی کمپنیوں کے مالک جرمن ارسٹوکریٹس تھے اورصرف یہی لوگ نہیں تھے بلکہ 2013 میں سوڈش زیتانگ کے لیے پاناما کمپنیوں کا رجسٹر چیک کرتے ہوئے یہ حقیقت سامنے آئی تھی کہ بہت سے ایسےنام بھی اس فہرست میں شامل تھے جن کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتاتھا کہ یہ لوگ ایسے ہوں گے ان میں فرڈیننڈ پیچ اور سلویا کوانڈٹ کے نام شامل تھے جو پاناما کی کمپنیوں کے مالک کی حیثیت سے رجسٹرڈ تھے۔ایک زمانے میں پیچ اور پورشس نے وضاحت کی تھی کہ ان کے نام موجود کمپنیاں اسٹرکچر کاحصہ ہیں اور ان کو کبھی استعمال نہیں کیاگیا اور اس سے انھیں ٹیکس میں کوئی رعایت نہیں ملتی۔جبکہ کوانڈٹ نے کہاتھا کہ وہ یہ نہیں بتاسکتیں کہ ان کانام اس میں کیوں آیا؟۔
ہمیں بہاماس میں ایک کمپنی لانگ ڈاﺅن پراپرٹیز کے نام سے موزاک فونسیکا کے رجسٹر میںملی یہ کمپنی جرمنی کے نارتھ رہائن ویسٹ فیلیا کے سابق وزیر خزانہ ہیلمٹ لنسین کے نام پر رجسٹرڈ تھی یہ وہ شخصیت ہے جرمنی میں 2012 میں جس کے خلاف مجرمانہ کام کے الزام میں مقدمہ چلایاگیاتھا اور 2014 میں جرمنی کی مقبول سیاسی جماعت جرمن کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے خزانچی کے عہدے سے زبردستی سبکدوش کیاگیاتھا۔ان برسوں کے دوران اس کی آف شور کمپنیوں کی ملکیت اس کی 1990 میں لگزمبرگ بینک کے ذریعہ کی گئی سرمایہ کاری کی مالیت سے کہیں زیادہ بڑھ چکی تھی۔
ارب پتی شخصیت نکولس برگروئن اور ڈیپارٹمنٹ اسٹور چین کارسٹیڈٹ کے سابق مالک بھی آف شور کمپنیوںکی ایک پوری چین کے مالک تھے جو کہ چین میں سرمایہ کاری سے منسلک تھیں۔شیل کمپنیاں قائم کرنا یا ا ن کی ملکیت حاصل کرنا کسی طرح بھی غیر قانونی کام نہیں ہے بلکہ اس کے لیے غیر قانونی طورپر حاصل کی گئی رقم کااستعمال غیر قانونی اور قابل اعتراض ہے ، اس لئے آف شور کمپنیوں کے تمام مالکان کو چور اور لٹیرا قرار نہیں دیاجاسکتا۔
فنانشیل ٹائمز کے نامہ نگار ٹام برگس کا کہناتھا کہ آپ کو یہ تصور کرنا چاہئے کہ افریقہ میںکیاہورہاہے وہاں ایک نادیدہ مشین اس براعظم کو لوٹنے میں مصروف ہے لوٹ مار کی ایک پوری مشینری کام کررہی ہے جس میں کرپٹ آمر ،بد نہاد بینک اور ناپسندیدہ کارپوریشنیں ایک دوسرے کے ساتھ ہیںاور موزاک فونسیکا لوٹ مار کے اس عمل میں کلیدی کردا ر ادا کررہا تھا۔ کرپٹ آٹوکریٹس اور تاجر اپنی لوٹ مار سے حاصل کردہ رقم کو چھپانے کے لیے موسفون کی خدمات حاصل کررہے تھے۔
ڈاکومنٹس کی جانچ پڑتال کرنے والے ہمارے ساتھیوں کواب یکے بعد دیگرے تمام افریقی ممالک کے سیاستدانوں اور ان کی فیملیز کے بارے میں تفصیلات ملنا شروع ہوگئی تھیں ان میں سوڈان ، سینیگال، جنوبی افریقہ اور مصر کے سیاستدں حکمراں اور ان کی فیملی کے ارکان کے نام شامل تھے۔
افریقہ کاشمار دنیا کے سب سے زیادہ باوسیلہ خطوں میں ہوتاہے، دنیا بھر میں موجود ہیروں کا 50فیصد حصہ افریقہ میں ہیروں کی کانوں میں دفن ہے،دنیا میں اب تک دریافت ہونے والے سونے کے کم وبیش 25 فیصد ذخائر افریقہ میں ہیں، دنیا کے تیل کے کم وبیش 10فیصداور گیس کے 9 فیصد ذخائر افریقہ میں ہیں۔ اس کے علاوہ افریقہ میں یورانیم اوردیگر بیشمار معدنیات کے ذخائر موجود ہیں لیکن افریقی عوام اس دولت کے ہوتے ہوئے بدحال اور فاقہ کشی کی زندگی گزار رہے ہیں،اور تمام تر دولت ملٹی نیشنل کمپنیوں اور اشرافیہ کے اکاﺅنٹس میں منتقل ہوجاتی ہے۔ماہرین کے تخمینے کے مطابق ہر سال افریقہ سے کم وبیش50 بلین ڈالر بیرون ملک منتقل ہوجاتے ہیں۔افریقہ میں کاروبار کرنے والے تاجر اپنے منافع کی رقم ٹیکس سے استثنیٰ والے علاقوں میں منتقل کردیتے ہیں جس کی وجہ سے افریقی ممالک سالانہ کم وبیش 38 بلین ڈالر کے ٹیکسوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں