میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کیا الیکشن کمیشن، الیکشن کرانا بھی چاہتا ہے یا نہیں؟

کیا الیکشن کمیشن، الیکشن کرانا بھی چاہتا ہے یا نہیں؟

جرات ڈیسک
جمعرات, ۱۱ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے الیکشن 2024ء کے لیے ذرائع ابلاغ کے لیے بیانات کی حد تک تو پوری طرح تیار ہیں۔ لیکن جب ان تیاریوں کا احوال عملی طور پر جاننے کی کوشش کی جاتی ہے تو حیرانی کے ساتھ انتہائی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ الیکشن کمیشن جس کا واحد کام ہی آئینی مدت کے لیے انتخابات کرانا ہے۔ اور اس واحد سرگرمی کے لیے اُنہیں آئینی ادارے کا غیر معمولی تشخص بھی حاصل ہے، مگر یہ ادارہ اپنی انتخابی تیاریوں کے حوالے سے تیار دکھائی نہیں دیتا۔ انتخابات میں اب جب کہ ایک ماہ سے کم وقت رہ گیا ہے تو خبر آئی ہے کہ انتخابی عمل کے لیے ووٹرز کو پوسٹل بیلٹ کی فراہمی کے حوالے سے نئی رکاؤٹ پیدا ہو گئی ہے۔ ووٹرز کو پوسٹل بیلٹ کی فراہمی معمول کی انتخابی مشق ہے مگر دو ہفتو ں سے بھی کم دن اُنہیں اس کی درخواست دینے کے لیے دیے جا رہے ہیں۔الیکشن کمیشن کی ایک ایس ایم ایس سروس (8300) بھی ہے مگر الیکشن کمیشن اس کے ذریعے انتخابی حلقوں کی ضروری معلومات فراہم کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔ دنیا بھر میں انتخابی عمل کو صاف، شفاف اور آسان بنانے کے لیے اب ڈیجیٹائز کرنے کا رجحان عام ہو چکا ہے، مگر الیکشن کمیشن اس میں بھی مکمل ناکام ہے۔ تاحال الیکشن کمیشن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں اور جن کے سامنے مختلف قسم کی درخواستیں دائر کی جانی ہوتی ہیں، اُن متعلقہ ریٹرننگ افسران کی تفصیلات کو بھی اپ ڈیٹ کرنے میں ناکام ہے۔ضروری چیزیں اپ ڈیٹ نہ کرنے میں ناکامی اور پوسٹل بیلٹ کی فراہمی میں کوتاہی کے باعث انتخابی عمل میں دس لاکھ سے زائد ووٹرز کے متاثر ہونے کا شدید خدشہ ہے، جن میں سرکاری، مسلح افواج کے اہلکار، اُن کے خاندان اور معذور و قیدی افراد شامل ہیں۔ منتظر ووٹرز کا یہ وسیع حلقہ اپنے انتخابی حلقوں سے دور ہونے کے باعث اپنے حق رائے دہی کے لیے پوسٹل بیلٹ کا سہارا لیتا ہے۔ یہ رائے دہندگان کو اپنے حصے کے حق رائے دہی سے محروم کرنے کی بھونڈی کوشش ہی سمجھی جائے گی۔
اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے پولنگ اسٹیشنز کی فہرستوں کی حتمی اشاعت سے یہ معاملہ جوڑ کر ایک آڑ لینے کی کوشش کی ہے۔ مگر یہ آڑ نہیں عار ہے اور عذر گناہ بدتر ازگناہ کے مترادف اس لیے ہے کہ پوسٹل بیلٹ ووٹرز کے لیے اہم معلومات، اں کے حلقہ نمبر کا تعین پولنگ اسٹیشنز کے مقامات سے آزاد حد بندی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ یہ اور دیگر الیکشن کمیشن کے معاملات سوالات بن کر نئے سیکریٹری (ڈاکٹر سید آصف حسین) کے لیے اضافی بوجھ کی طرح سر اُٹھائے کھڑے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی عملی میدان میں تیاریوں کی کیا حالت ہو گی جبکہ وہ ویب سائٹ، واٹس ایپ گروپ اور ابلاغ کی دیگر ذرائع پر بھی اپنی تیاریاں دکھانے میں کامیاب نہیں ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ جمہوریت کی سب سے بڑی سرگرمی انتخابی عمل کو زیادہ سے زیادہ شفاف رکھتے ہوئے اور عوامی شرکت سے ہی موثر بنایا جا سکتا ہے۔ لوگوں کی انتخابی عمل میں زیادہ سے زیادہ شرکت اور اس میں سہولت فراہم کرنے سے ہی اداروں کی اہلیت اور شفافیت کا تاثر بہتر ہو سکتا ہے۔ مگر یہاں جو کچھ بھی نظر آرہا ہے وہ الیکشن کمیشن کی تیاریوں اور منصفانہ انتخابی عمل کے عزم کے حوالے سے غیر یقینی صورتِ حال ہے۔ جیسے جیسے پوسٹل بیلٹ کی درخواستوں کی تاریخ قریب آرہی ہے، الیکشن کمیشن کو تیزی سے ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے کام کرنا چاہئے۔ یہ الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام پوسٹل بیلٹ ووٹروں کو ضروری معلومات فوری فراہم کرے۔الیکشن کمیشن کی تیاریوں میں سستی کا سبب دراصل خود الیکشن کمیشن کی ”غیر نصابی“سرگرمیوں میں حد سے زیادہ دلچسپی ہے۔الیکشن کمیشن نے ایک فریق بن کر تحریک انصاف اور عمران خان کو ہدف بنا لیا ہے۔ اور اپنی تمام سرگرمیاں تحریک انصاف کو انتخابی عمل سے نوچ پھینکنے پر مرکوز کرلی ہیں۔ یہاں تک کہ الیکشن کمیشن کے تمام اہم افراد اپنا زیادہ تر وقت عدالتوں میں تحریک انصاف کو الجھائے رکھنے کے لیے صرف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ عوامی رقوم کا بے دریغ غیر ضروری اور غیر نصابی سرگرمیوں میں استعمال جہاں مستقبل میں ان تمام ذمہ داران کے خلاف قابل احتساب بن سکتا ہے، وہیں انتخابات کے اس پورے عمل کو مشکوک بنا رہا ہے۔آئندہ دنوں میں الیکشن کمیشن کی انتخابی تیاریوں کے حوالے سے مزید پول کھلنے کا خطرہ موجود ہے، اس لیے الیکشن کمیشن تاحال انتخابات کے لیے ابھی تک پرجوش دکھائی نہیں دیتی اور یوں لگتا ہے کہ انتخابات کے ٹلنے کی کسی ”غیبی امداد“ کی منتظر ہے۔ آئین شکنی کی نفسیات سے جڑی ان سرگرمیوں کے پیچھے پاکستان کا جمہوری مستقبل شکوک کے سایوں میں گہنا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن موجودہ بد نظمی اور قبل از انتخاب کے مسائل سے بچنے کے لیے فوری ایک جامع حل کے ساتھ کوششیں شروع کرے، تاکہ انتخابی عمل پر شکوک کے سائے نہ پڑسکیں اور جمہوریت کے مستقبل پر سوال نہ اُٹھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں