میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارت کے بے بنیاد الزامات اور گیدڑ بھبھکیاں

بھارت کے بے بنیاد الزامات اور گیدڑ بھبھکیاں

ویب ڈیسک
جمعه, ۵ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

کنٹرول لائن(ایل او سی) کے قریب 2 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ان کی لاشوں کو مسخ کیے جانے کے بھارتی دعووں کی اسلام آباد کی جانب سے سختی سے تردید کے باوجود بھارت کے وائس چیف آف آرمی اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل سارتھ چند کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج ‘جو کرے گی’ اسے عوام کے سامنے بیان نہیں کیا جاسکتا۔بھارتی ویب سائٹ ‘دی ہندو’ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک عوامی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے بھارتی وائس چیف آف آرمی اسٹاف نے پاکستان کو گیدڑ بھبھکی دی ہے کہ اس کا بدلہ ‘بھارت اپنی مرضی کے وقت اور مقام پر لے گا’۔
خیال رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز میں بھارتی فوج نے الزام عاید کیا تھا کہ پاکستانی سیکورٹی فورسز نے ایل او سی کے قریب بھارتی چوکیوں پر راکٹ اور مارٹر فائر کیے اور غیر فوجی اقدام کرتے ہوئے گشت پر تعینات 2 ہندوستانی فوجیوں کی لاشیں مسخ کردیں۔
تاہم پاک فوج نے ان دعووں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ نہ ہی پاک فوج نے ایل او سی پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کی اور نہ ہی بھارت کے الزام کے مطابق باٹ (بارڈر ایکشن ٹیم) نے ایل او سی کے بٹل سیکٹر پر حملہ کیا۔پاکستان کی جانب سے دعووں کی تردید کو نظرانداز کرتے ہوئے جنرل سارتھ چندنے یہ سوال اٹھایا ہے کہ وہ کہتے ہیں ان کی فورسز نے ایسا نہیں کیا، تو پھر ایسا کس نے کیا ہے؟ انہوں نے یہ کیا ہے اور انہیں اس بات کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے نتائج کا سامنا کرنا ہوگا’۔اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے بھارتی وزارت خارجہ، نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو طلب کرکے فوجیوں کی لاشوں کی بے حرمتی پر اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرا چکی ہے۔اس سلسلے میں یکم مئی کو پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرلز ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) کے درمیان ہاٹ لائن پر بھی رابطہ ہوا جس میں مبینہ طور پر دو بھارتی فوجیوں کی لاشوں کی بے توقیری کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔اس رابطے میں واضح کیا گیا کہ ‘پاک فوج اعلیٰ اور پروفیشنل آرمی ہے، پاک فوج کسی بھی فوجی کی بے توقیری نہیں کرتی، چاہے وہ بھارتی ہی کیوں نہ ہو’۔آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق پاکستانی ڈی جی ایم او نے اپنے بھارتی ہم منصب سے مطالبہ کیا کہ وہ اس حوالے سے شواہد فراہم کریں۔
پاک فوج پر بھارت کی جانب سے جنوری 2013ءمیں بھی میندھر سیکٹر میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں2 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت اور ان کی لاشوں کو مسخ کیے جانے کاالزام عایدکیا گیا تھا، تاہم پاک آرمی کی تحقیقات میں ان ہلاکتوں کے کوئی شواہد سامنے نہیں آسکے تھے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں 18 ستمبر کو ہونے والے اڑی حملے کے بعد سے کشیدگی پائی جاتی ہے اور بھارت کی جانب سے متعدد بارکنٹرول لائن اور ورکنگ باو¿نڈری کی خلاف ورزی کی جاچکی ہے۔کشمیر میں بھارتی فوجی مرکز پر حملے میں 18 فوجیوں کی ہلاکت کا الزام نئی دہلی کی جانب سے پاکستان پر عاید کیا گیا تھا ، جسے اسلام آباد نے سختی سے مسترد کردیا تھا۔بعد ازاں 29 ستمبرکوبھارت کے کنٹرول لائن کے اطراف سرجیکل اسٹرائیکس کے دعووں نے بھی پاک-بھارت کشیدگی میں جلتی پر تیل کا کام کیا، جسے پاک فوج نے سختی سے مسترد کیا تھا۔
بھارت اورپاکستان کے درمیان تعلقات میں تلخیاں بڑھ جانے کے بعد ہی عالمی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ایسا محسوس ہوتاہے کہ بھارت پاکستان کی جانب سے ایٹمی حملے کے خدشات کاشکار ہے اور پاکستان کی جانب سے بھارت کے خلاف ایٹمی اسلحہ کے استعمال کے خوف کے پیش نظر خود پاکستان کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرسکتا ہے۔ بھارت کی اس سوچ کے حوالے سے ماہرین کے خدشات کو واشنگٹن میں میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے سیمینار میں کی جانے والی تقریروں سے بھی تقویت ملتی ہے ، گزشتہ روز واشنگٹن میں میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے بھارت سے تعلق رکھنے والے جوہری اسٹریٹجسٹ وپن نارنگ نے بھارتی رہنماﺅں اور فوجی قائدین کی سوچ اور منصوبوں کی پول یہ کہہ کر کھول دی کہ ‘بھارت کبھی بھی پاکستان کو پہلے حملہ کرنے کی اجازت نہیں دے گا’۔
ڈان اخبارمیں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق وپن نارنگ نے خبردار کیا تھا کہ ‘بھارت کی جانب سے حملے کا آغاز روایتی اسٹرائیکس جیسا نہیں ہوگا، جس سے صرف نصر کی بیٹریوں کو نقصان پہنچے بلکہ بھارت ایک بھرپور کاو¿نٹر فورس اسٹرائیک سے حملہ کرے گا جس کا مقصد پاکستان کو اس کے جوہری ہتھیاروں سے مکمل طور پر محروم کرنے کی کوشش ہوگا’۔انہوں نے انکشاف کیاتھا کہ نئی دہلی کے پالیسی ساز پاکستان کے خلاف ایٹمی اسلحہ کے استعمال کا فیصلہ کرچکے ہیں تاکہ بھارت کو چھوٹے موٹے حملوں میں مصروف نہ ہونا پڑے اور اس کے ایٹمی ہتھیار محفوظ رہیں’۔وپن نارنگ کے مطابق وہ یہ تجزیہ بھارت کے ریٹائرڈ آرمی افسران کے بیانات پر پیش نہیں کررہے، بلکہ ان کا یہ تجزیہ ان معلومات پر مبنی ہے جو انہیں سابق اسٹریٹجک فورسز کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل بی ایس ناگل اور طاقتور سابق قومی سلامتی کے مشیر شیو شنکر مینن سے حاصل ہوئیں۔ڈاکٹر وپن نارنگ نے یہ بھی واضح کیا تھاکہ چین کے جوابی حملے بھارت کو مزید مشتعل حکمت عملیوں کے استعمال کی جانب دھکیل سکتے ہیں، جن میں پاکستان کے خلاف شدید برتری کی کوشش اور ‘بھرپور حملے کا آغاز’ شامل ہیں’۔ڈاکٹر وپن نارنگ کے مطابق پاکستان اوربھارت کے درمیان جاری کشیدگی کے حوالے سے لگائے جانے والے روایتی اندازے اب درست ثابت نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت خود پر کسی ایٹمی حملے کے خدشے کی صورت میں اپنی پہلے حملہ نہ کرنے کی پالیسی تبدیل کرسکتا ہے، تاہم پہلا بھارتی حملہ پاکستان کے شہری مراکز کے بجائے جوہری تنصیبات کی جانب ہوگا۔دوسری جانب واشنگٹن کے جوہری ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ جوہری تنصیبات پر ہونے والا حملہ اتنا ہی خطرناک ہوگا جتنا کسی آبادی پر ہونے والا حملہ ہوسکتا ہے۔ماہرین نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ پاکستان زمین کی ایک مختصر پٹی پر واقع ہے اور اس کی جوہری تنصیبات شہری علاقوں سے زیادہ دور نہیں ہیں۔
دوسری جانب امریکی تھنک ٹینک کی ایک رپورٹ میںبھی خبردار کیا گیا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے پاس جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کے باوجود خطے میں ایک اور جنگ کے ممکنہ امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات بھارت کی وجہ سے ہیں جو پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیکس کرنے کی حکمت عملی تیار کرچکا ہے۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن سے تعلق رکھنے والے تھنک ٹینک ‘بروکنگز انسٹیٹیوشن’ نے اپنے 15 ماہ طویل پروجیکٹ میں پاکستان، بھارت، چین اور امریکہ کو جوڑنے والی ‘اسٹرٹیجک چین’ (strategic chain) پر تحقیق کے بعد یہ رپورٹ پیش کی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق ‘ایک جانب جہاں پاکستان جنگی مصلحت کے تحت بھارت کو جواب دیتا ہے تو بھارت اس کے جواب میں پاکستان اور چین دونوں پر اپنا ردعمل ظاہر کرتا ہے جبکہ اس ردعمل کے جوابی ردعمل کا نشانہ امریکا اور بھارت بنتے ہیں’۔46 صفحات پر مشتمل بروکلنگز تھنک ٹینک کی یہ دستاویز پہلی بار جوہری معاملات پر پاکستانی نظریے کا احاطہ کرتی ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارتی دباو¿ کے بغیر پاکستان یک طرفہ طور پر اپنے جوہری پروگرام پر محدود نہیں کرے گا جبکہ چین کا دباو¿ نہ ہو تو بھی بھارت یک طرفہ طور پر اپنے جوہری پروگرام کو محدود نہیںکرے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں