میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نئے سفرکا آغاز، سسٹم پر خطرات کی لٹکتی تلوار!!

نئے سفرکا آغاز، سسٹم پر خطرات کی لٹکتی تلوار!!

جرات ڈیسک
اتوار, ۳ مارچ ۲۰۲۴

شیئر کریں

قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں منتخب ارکان کے حلف اور اسپیکرز و ڈپٹی اسپیکرز کے انتخاب کے ساتھ ہی سلطانی جمہور کے نئے سفر کا آغاز ہو گیا ہے۔وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومت سازی کا عمل جاری ہے،پنجاب میں مسلم لیگ، سندھ میں پیپلز پارٹی، بلوچستان میں پیپلز پارٹی کے سرفراز بگٹی،پنجاب میں نواز شریف کی بیٹی مریم صفدر اورخیبر پختون خواہ میں پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ نے منصب سنبھال لیا ہے جبکہ وفاق میں مسلم لیگ ن پاکستان پیپلز پا رٹی کے اشتراک سے حکومت بنانے جارہی ہے،اگرچہ پی پی پی فی الحال کابینہ میں شامل نہیں ہو رہی مگر اطلاعات کے مطابق وہ ایک2ماہ کے بعد کچھ وزارتیں لینے پر راضی ہو جائے گی۔یوں دونوں مل کر ”عوامی خدمت“ کا آغاز کریں گی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت وطن عزیز مختلف بحرانوں میں گھرا ہوا ہے بالخصوص اسے معاشی بحران نے بہت پریشان کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز کوئی نہ کوئی نیا ٹیکس لگایا جارہا ہے۔ بجلی گیس پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرکے بحران پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود خزانہ نہیں بھر رہا۔ آئی ایم ایف کی قسطوں کی ادائیگی کی پریشانی الگ ہے تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ عوام کے سیاسی شعور، فکر، تدبُر اور فہم و فراست میں بے حد اضافہ ہوچکا ہے۔ اب عوام کو سیاسی جماعتوں کی کارکردگی، وعدوں اور دعوؤں کو پرکھنے اور جانچنے کا مکمل شعور اور ادراک ہے اس عوامی شعور کی بیداری اور پختگی میں بلاشبہ میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا کا خاصا کردار ہے۔ نئی بننے والی وفاقی حکومت کو سیاسی محاذ سے ہٹ کر کئی سنگین اور پیچیدہ چیلنجز درپیش ہو ں گے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے حکومت سازی کے عمل کے بعد عوامی توقعات پر پورا نہ اُتر سکنے کے خدشات کا بھی بَر ملا اظہار ہو رہا ہے،اس سے ظاہرہوتاہے کہ نومنتخب وزیر اعظم کیلئے عہدہ کانٹوں کے تاج سے کم نہیں ہوگا۔ وفاقی حکومت جو جماعت بھی بنائے گی، اس کا سب سے پہلا کٹھن ترین امتحان تباہ حال ملکی معیشت کی بحالی ہوگا۔ اس امتحانی پرچے میں ماضی میں بننے والی حکومتیں مکمل طور پر ناکام رہی ہیں۔ کوئی بھی حکومت عوام کو درپیش بد ترین معاشی مشکلات اور مہنگائی کے چُنگل سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو پائی۔ لہٰذا نئی حکومت جس نے انتخابی عمل کے دوران عوام کو با آواز بلند اپنے جلسوں میں کہا کہ وہ جب اقتدار میں آئے گی تو خوشحالی کے در وا ہونا شروع ہو جائیں گے ہر طرف بہار کا سماں ہو گا۔ ہر چہرہ دمک رہا ہو گا۔ یعنی وہ محسوس کریں گے کہ ان کی حکومت ان کے مسائل حل کرے گی۔ لہٰذا اب جب پی پی پی اور مسلم لیگ نون متحد و متفق ہو کر اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے جا رہی ہیں بلکہ بیٹھ چکی ہیں توان پارٹیوں کو عوام سے کیے ہوئے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ پی پی پی کی قیادت نے وعدہ کیا تھا کہ جب وہ اقتدار میں آئے گی تو300 بجلی یونٹس مفت دے گی۔ مہنگائی کا خاتمہ انصاف کا علم بلند کرے گی۔ قانون کی بالا دستی کو یقینی بنائے گی۔ اسی طرح مسلم لیگ نون کی قیادت نے بھی 200یونٹس مفت دینے کا وعدہ کیا۔ دیگر مسائل کے حوالے سے بھی کہا گیا کہ وہ حل ہوں گے۔ نواز شریف کی آمد سے پہلے ان کے ساتھیوں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھاکہ نواز شریف آئیں گے تو مایوسی کے بادل چھٹ جائیں گے۔ بیرونی سرمایہ کاری کا آغاز ہو جائے گا۔لہٰذا ان دونوں جماعتوں کو اپنے وعدوں کا پاس کرنا ہو گا۔ وگرنہ عوام ان کو نظر انداز کر دیں گے۔ حالیہ انتخابات میں بھی یہ دونوں پارٹیاں دیکھ چکی ہیں کہ پی ٹی آئی نے ان سے ووٹ بھی زیادہ لئے اور نشستیں بھی۔ یہ الگ بحث ہے کہ وہ بوجوہ حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی،جو ہوناتھا ہوچکا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت معاشی سیاسی اور سماجی استحکام کی اشد ضرورت ہے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے ان2جماعتوں ہی کو مسائل حل کرنا ہیں اور معیشت کو مضبوط کرنا ہے۔ان دونوں پارٹیوں کے سربراہوں کے پاس ذاتی دولت کے بھی انبار ہیں۔اگر ان جماعتوں کے سربراہوں کا یہ کہنا درست ہے کہ ان کے دلوں میں عوام اور ملک کی خدمت کا جذبہ موجزن ہے،تو وہ اپنے خزانے سے قومی خزانہ بھر سکتی ہیں اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو غربت کی لکیر کے نیچے سے اوپر لا سکتی ہیں پھر یہ جو انتہا کو پہنچی ہوئی بے چینی ہے اس میں بھی کمی واقع ہو سکتی ہے۔
پاکستان کی تاریخ کے متنازع ترین انتخابات کو حکومت میں آنے والی 3 جماعتوں کے سوا تمام جماعتوں نے متنازع قرار دیا ہے۔ انتخابات میں دھاندلی، قبل از پولنگ، دوران پولنگ، بعداز پولنگ بے ضابطگی کے ساتھ انتخابات میں انجینئرنگ اور نتائج تبدیل کرنے کے الزامات ماضی میں بھی لگتے رہے ہیں لیکن اس دفعہ مختلف پارٹیوں کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات قطعی بے بنیاد نہیں ہیں اس حوالے سے دھاندلی کاالزام لگانے والوں کا یہ مطالبہ بہت مناسب ہے کہ خود الیکشن کمیشن کے مقرر کردہ افسران کی جانب جاری کردہ فارم45 کی بنیاد پر فیصلہ کرلیاجائے، دھاندلی کے الزامات خودبخود دم توڑ دیں گے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت سے عمران خان کی معزولی کو مسترد کردیا، عمران خان کے حامیوں کا یہ کہنابھی کچھ زیادہ غلط معلوم نہیں ہوتا کہ عمران کی مقبولیت کایہی خوف تھا جس کی وجہ سے بروقت انتخابات نہیں ہونے دئے گئے،مقتدر حلقوں کا خیال تھا کہ جب ان کو یقین ہوجائے گاکہ ہم اپنی مرضی کے مطابق نتائج حاصل کرلیں گے تب انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا لیکن سپریم کورٹ نے بیچ میں آکر انتخابات کرانے پر مجبور کیااور انتخابات میں عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے سارا ڈرامہ فلاپ کردیا، موجودہ سیاسی منظرنامہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے باہمی اتحاد سے حکومت سازی کرلی ہے اور حزب اختلاف کی جماعتیں انتخابی دھاندلی کے خلاف میدان میں بھی موجود ہیں لیکن انھوں نے ایوان کو بھی خالی نہیں چھوڑا ہے۔ منصوبہ سازوں نے جو منصوبہ بنایا تھا وہ سبوتاژ ہوگیا ہے، اب سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کا سب سے بڑا امتحان یہ ہے کہ وہ ایوان کی طاقت کے ذریعے شہری آزادی اور انسانی حقوق کی ضمانت کیسے حاصل کرتی ہیں۔تاہم ایک بات نوشتہ دیوار ہے کہ پی ڈی ایم پارٹ ٹو حکومت میں جتنی بھی سیاسی جماعتیں اور سیاسی چہرے شامل ہیں، وہ ملک و ملت کی تقدیر تبدیل نہیں کرسکتے، اگر ان تلوں میں تیل ہوتا، تو آج ہمارے حالت تبدیل ہوچکی ہوتی، نئی بوتل پرانی شراب والے بے سود۔سیاست کو عبادت کہا جاتا ہے لیکن سوال یہ کہ کیا ہمارے ملک کی موجودہ سیاست عبادت ہے؟۔حقیقت یہ ہے کہ اب وقت قومی سیاست کو بلیم گیم کے کلچر اور سیاسی محاذآرائی میں گمبھیرصورت اختیار کرنے والی منافرت کی فضا سے باہر نکال کر مثبت اور تعمیری سیاست کو فروغ دینے کا ہے اور یہ ساری ذمہ داری اب نئے منتخب وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کے کندھوں پر ہی آچکی ہے جنہیں بہرصورت قومی افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنا اور اپوزیشن سمیت پوری قوم کو ساتھ لے کر چلنا ہے، اس طرح جمہوریت کی گاڑی ٹریک پر رہتے ہوئے سسٹم کے استحکام کی منزل کی جانب رواں دواں ہوگی۔ انتخابات کے ذریعے انتقال اقتدار کے مراحل طے ہونے کے بعدنئے وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کو اب درپیش چیلنجوں سے نبردآزما ہونا ہے اور یہی ان کی اصل آزمائش ہے کہ وہ کس طرح قومی معیشت کو سنبھال کر اور ملکی سلامتی کے تقاضے نبھا کر جمہوریت کی گاڑی کو آگے
لے جاتے ہیں۔ اس میں اصل کام غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے گھمبیر مسائل کی دلدل میں دھنسے عوام کو اس دلدل سے نکال کر آبرومندی کی زندگی گزارنے کے قابل بنانے کا ہے،جمہوری نظام پر عوام کا اعتماد ان کے مسائل حل کرکے اور سلطانی  جمہور میں ان کی شراکت کا احساس اجاگر کرکے ہی بحال کیا جا سکتا ہے۔افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں نظریات اور اصولوں کی سیاست تو تقریبا ً ختم ہی ہو کر رہ گئی ہے اور پاور پالیٹیکس نے سیاست کوایک نیا اور منفی رخ دے دیا ہے،ووٹ کے حصول کے لیے کسی بھی چیز کی پرواہ نہیں کی جاتی ہے بلکہ اس کو فخر کے ساتھ روند کر آگے بڑھا جاتا ہے اور اس پر فخر بھی کیا جاتا ہے،انتخابات کے بعد پیداہونے والی صورت حال دیکھ کر محسوس ایسا ہو تا ہے کہ ہمارے سیاست دان اور ہماری سیاسی جماعتیں کسی بھی صورت میں اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کو تیار نہیں ہیں اور  سیاست کو ملکی مفاد پر ترجیح دی جارہی ہے،یہ امر دلچسپ ہے کہ پی ڈی ایم نما اتحاد ہی وفاق میں حکومت سنبھالنے جا رہا ہے،لیکن پیپلز پا رٹی اس مرتبہ وفاقی حکومت میں با قاعدہ طو ر پر شامل نہیں ہو رہی ہے بلکہ صرف آئینی عہدوں کے حصول کی خواہاں ہے،اور شاید یہی پاکستان کے سیاسی منظر نامے کی درست عکاسی بھی ہے کیونکہ ہر جماعت اس وقت قومی نہیں بلکہ اپنے سیاسی مفادات کے بارے میں سوچ رہی ہے،  بعض ماہرین کا خیال تھا کہ شاید منقسم مینڈیٹ سیاسی جماعتوں کو اکھٹا کام کرنے پر مجبور کرے گا لیکن ایسا ہو تا ہو ا دیکھائی نہیں دے رہا ہے،لیکن وقت کا تقاضا یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں عوام اور ملک کے مفاد میں مفاہمت کی طرف جائیں،بات چیت کریں اور ریاست کو بہتر انداز میں چلانے میں ایک دوسرے سے تعاون کریں،جمہوریت راستے نکا لنے کا نام ہے اور بات چیت سے ہی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں،اس سمت میں سنجیدگی سے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ذاتی اناؤں کو ریاست اور عوام سے بڑا نہیں کیا جانا چاہیے،یہی وقت کا تقاضا ہے اور یہی ہماری ضرورت بھی ہے۔ قومی افہام و تفہیم کو قومی سیاست کی بنیاد بنانا ہے تو پھر منافرت اور انتقامی سیاست سے رجوع کرنا ہوگا اور اپوزیشن کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ نئی حکومت کو اصل چیلنج تو معیشت کو مستحکم بنانے اور ملک و قوم کو جدید اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی ریاست کی جانب گامزن کرنے کے درپیش ہیں۔ حکمرانوں کو نئے سفر کا آغاز میثاق جمہوریت و معیشت کی بنیاد پر کرنا چاہیے جس میں اولین ترجیحات قومی معیشت کو آئی ایم ایف کے شکنجے سے مستقل بنیادوں پر نجات دلانے کی کوشش اور راندہ درگاہ عوام کو خط غربت سے نیچے جانے کا راستہ دکھانے کی بجائے انہیں غربت’مہنگائی‘بے روزگاری کے مسائل میں ٹھوس بنیادوں پر ریلیف دینے کی کوشش ہی ہونا چاہئیں۔ اسکے بغیر سسٹم پر سنگین خطرات کی تلوار لٹکتی ہی رہے گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں