عاجزی کاتحفہ
شیئر کریں
والی ٔ کونین معراج شریف کے دوران سرِلامکاں تشریف لے گئے یہ مقام۔یہ مرتبہ۔یہ اعزاز ان سے پہلے کسی اور نبی کے حصہ میں نہیں آیا تھا یہ وہ لمحات تھے جب انوارو تجلیات کے سب پردے ہٹا دئیے گئے طالب و مطلوب نے جی بھر کر ایک دوسرے کا دیدار کیا اس موقع پر اللہ تبارک تعالیٰ نے پوچھا اے میرے محبوب ﷺ میرے لیے کیا تحفہ لائے ہو؟
نبیوں کے سردار کے چہرہ ٔ انوارپر تبسم پھیل گیا آپ ﷺ نے اتنا جامع، مکمل اور مدلل جواب دیا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ فرمایا یا باری تعالیٰ!میں وہ تحفہ لے کر آیا ہوںجو تیرے پاس نہیں ہے۔سبحان اللہ خالق ِ کون ومکاں کے پاس کیا نہیں وہ تو ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔اللہ یقینا جانتاہے پھر بھی تجسس، شوق اور الفت سے دریافت کیا اے محبوب ﷺ میرے لیے کیا تحفہ لائے ہو؟۔ آپ نے فرمایایا رب العالمین میں آپ کے حضور عاجزی لے کر آیاہوں یقینا اللہ کے پاس ہر چیزہے لیکن عاجزی نہیں۔ بلاشبہ اللہ تبارک تعالیٰ کو عاجزی بہت پسندہے اور طاقت رکھنے کے باوجود عاجز بندوں سے اسے بڑی محبت ہے غرور، تکبر اور اپنے آپ کو دوسروںسے افضل سمجھنا اللہ کو انتہائی ناگوارگذرتاہے۔ عاجزی تکبرکا الٹ ہے اور اللہ کو عاجزی بہت پسندہے لیکن خاکی انسان کو اتنی سی بات سمجھ نہیں آتی سمجھنے کو کیا یہ کافی نہیں کہ جو80,000سال فرشتوںکے ساتھ رہا اسے اللہ تعالیٰ نے40,000 سال جنت کا خزانچی رہنے کا اعزاز بخشا،30,000سال مقربین کا سرداررہا،20,000سال فرشتوںکو وعظ و تلقین کرتا رہا،14,000سال عرش کا طواف کرتارہا پہلے آسمان پراس کا نام عابد تھا۔دوسرے آسمان پراس کا نام زاہد تھا۔تیسرے آسمان پراس کا نام بلال۔ چوتھے آسمان پراس کا نام والی تھا۔پانچویں آسمان پراس کا نام تقی تھا۔چھٹے آسمان پراس کا نام کبازان تھا اورساتویں آسمان پراس کا نام عزازیل تھا اب لوح ِ محفوظ پر اس کا نام ابلیس ہے لوگ اسے شیطان مردود کہتے ہیں اللہ سے اس کی پناہ مانگتے ہیں۔
دیکھیں۔ سوچیں۔ غور کریں غرور، تکبر اور اپنے آپ کو دوسروںسے افضل سمجھنے کی خواہش نے اسے کیا سے کیا بنا ڈالا۔بے شک عبرت کا مقام ہے لیکن ہم میں سے بیشتر سمجھناہی نہیں چاہتے۔ تسلیم نہ بھی کریں اظہار ،انکار گومگو کی کیفیت یا کسی خاص جذبے کے تحت نہ مانیں تو پھرکیا۔۔ حقیقت بدل سکتی ہے؟ ۔نہیں ۔کبھی نہیں سچی بات تو یہ ہے کہ روپے پیسے یا مادی وسائل کے بغیر گذراوقات ممکن نہیں لیکن کیا اس کا یہ مطلب لے لیا جائے کہ جائز ناجائز۔۔حلال حرام اور اخلاقی اقدارکا قطعی کوئی خیال نہ رکھا جائے۔ یاپھر دولت اور اختیارات کے غرور و تکبر میں انسان کو انسان نہ سمجھائے ایسا کرنے والے انسانیت کے مقام سے گر جاتے ہیں انسان جو مخلوقات میں افضل ہے۔ اشرف ہے۔ممتازہے اس کا خاصایہی ہونا چاہیے کہ وہ عاجزی اختیار کرے بڑائی تو اللہ کو مقدم ہے اسی کو زیباہے واضح کہا ہے کہ زمین پر اکڑ کر مت چلو تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ یہاڑوںکی بلندی کو چھونے پر قادرہو۔ہمارے آس پاس اردگرد کتنے ہی ایسے کردارہوںگے اکڑ، غرور اورتکبر جن کا شیوہ ہے بات بہ بات پر اپنے آپ کو افضل اور دوسروںکو کمترجاننا جن کا شیوہ ہے ۔ ان کو کوئی پسند کرنا پسندنہیں کرتا۔کبھی غورکرو تو محسوس ہوگا دنیا میں کتنے لوگ پیدا ہوئے مرگئے ان کی تعداد شاید کروڑوں، اربوں یا کھربوں میں پہنچ چکی ہوگی ان میں کتنے ہوںگے جن کا نام محض دولت کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے۔
قارون کے علاوہ شاید دوسرے تیسرے کا نام بھی آپ نہیں جانتے ہوں گے۔ لیکن بنی نوع انسان کی بھلائی کرنے والے آج بھی زندہ ہیں ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو وہ دنیا کے لیے ایک مثال بن گئے ہیں اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک ان کو امرکردیا اور تکبر۔غرور اور اپنے آپ کو افضل قراردینے والوں کو کوئی جانتا تک نہیں دوسروں کو کمتر اور گھٹیا جاننا ایک خوفناک بات ہے دنیاکے اکثرحکمران،اشرافیہ کے بیشتر لوگ اسی بیماری میں مبتلا ہیں جو انسان کو انسان بھی نہیں سمجھتے اسی طرز ِ عمل کی وجہ سے ترقی نہیں ہورہی۔یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ ٹیکس چور، بجلی چور ،کرپٹ اور گیس چور قوم کو اخلاقیات کا درس دیتے ہیں یہ بھی تو تکبر،رعونیت اور فرعونیت کی بدترین مثال ہے دیکھیں۔ سوچیں۔ غور کریں غرور، تکبر اور اپنے آپ کو دوسروںسے افضل سمجھنے کی خواہش نے شیطان کو کیا سے کیا بنا ڈالا۔بے شک عبرت کا مقام ہے لیکن ہم میں سے بیشتر سمجھناہی نہیں چاہتے۔ تسلیم نہ بھی کریں اظہار ،انکار گومگو کی کیفیت یا کسی خاص جذبے کے تحت نہ مانیں تو پھرکیا۔۔ حقیقت بدل سکتی ہے؟۔ بلاشبہ اللہ تبارک تعالیٰ کو عاجزی بہت پسندہے اور طاقت رکھنے کے باوجود عاجز بندوں سے اسے بڑی محبت ہے غرور، تکبر اور اپنے آپ کو دوسروںسے افضل سمجھنا اللہ کو انتہائی ناگوارگذرتاہے۔ عاجزی تکبرکا الٹ ہے اور اللہ کو عاجزی بہت پسندہے اور جس نے اس رازکو پالیا گویا اس کے ہاتھ نسخہ ٔ کیمیا آگیا اسلام نے تو ہمیں سادگی اور میانہ روی کا حکم دیاہے وسائل ہوتے ہوئے بھی سادگی اختیارکرنا کتنا اچھا عمل ہے لیکن اکڑ،غرور اور تکبرکااظہار تو ٹھاٹھ باٹھ سے ہی عیاںہوتاہے سادگی اور عاجزی کا آغاز حکمرانوںسے شروع ہوناچاہیے وہ قوم کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں اس کا اثر عوام پر لازمی پڑے گا تو اللہ کا نام لے کر اس کی شروعات کردینی چاہیے اس سے نہ صرف اللہ اور اس کا رسول ﷺ خوش ہوگا بلکہ عوام کی زندگی آسان ہوجائے گی یہ خوشگوار تبدیلی بھی آغاز بھی ہوسکتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔