میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
غیرمعمولی حالات میں کیس سن کرمزے نہیں لے رہے

غیرمعمولی حالات میں کیس سن کرمزے نہیں لے رہے

ویب ڈیسک
هفته, ۲۰ اگست ۲۰۲۲

شیئر کریں

عدالت قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی
چیف جسٹس
عدالت نیب ترامیم کیخلاف درخواست کے کیس میں بہت احتیاط سے کام لے گی ، اسمبلی میں موجود ارکان کو اپنے فائدے کی قانون سازی نہیںکرنا چاہیے
پی ٹی آئی کے 150 ارکان اسمبلی بائیکاٹ کر کے بیٹھے ہیں، اسمبلی جا کر اپنا کردار ادا کریں،آئین کے تحت چلنے والے تمام اداروں کو مکمل سپورٹ کریں گے
اسلام آباد (بیورورپورٹ)سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہاہے کہ عدالت قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی، آئین اور قانون کی حکمرانی قائم کرنی ہے، عدالت نیب ترامیم کے خلاف درخواست کے کیس میں بہت احتیاط سے کام لے گی ،صرف بنیادی حقوق کے خلاف ترامیم ہونے کے نکتے کا جائزہ لیں گے، ترامیم احتساب کے عمل سے مذاق ہوئیں تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی، اکثر ترامیم میں ملزمان کو رعایتیں بھی دی گئی ہیں،سابق حکومتی جماعت کے 150 ارکان اسمبلی بائیکاٹ کر کے بیٹھے ہیں، پی ٹی آئی کو کہا تھا اسمبلی جا کر اپنا کردار ادا کریں، اسمبلی میں موجود ارکان کو اپنے فائدے کی قانون سازی نہیںکرنا چاہیے،آئین کے تحت چلنے والے تمام اداروں کو مکمل سپورٹ کریں گے، عدالت غیر معمولی حالات میں کیس سن کر مزے نہیں لے رہی جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کے وکیل نے عدالت سے تحریری دلائل جمع کرانے کیلئے وقت مانگ لیا ۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نیب قانون میں تبدیلی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔دوران سماعت عمران خان کے وکیل نے عدالت سے تحریری دلائل جمع کرانے کیلئے وقت مانگ لیا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اعلی عدلیہ اپنے فیصلوں میں نیب قانون پر تنقید کرتی رہی ہے، 90 روز کا ریمانڈ کہیں نہیں ہوتا، فوجداری کیسز میں 14 روز سے زیادہ کا ریمانڈ نہیں ہوتا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت سیاسی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے گی، صرف بنیادی حقوق کے خلاف ترامیم ہونے کے نکتے کا جائزہ لیں گے، ترامیم احتساب کے عمل سے مذاق ہوئیں تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی، اکثر ترامیم میں ملزمان کو رعایتیں بھی دی گئی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پلی بارگین کرنے والے کے شواہد کو ہی ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے، فوجداری نظام میں گرفتاری کی ممانعت نہیں ہے، گرفتاری جرم کی نوعیت کے حساب سے ہوتی ہے۔اس موقع پر وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہاکہ ملزمان بری ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھی ان پر سے الزامات کے داغ نہیں دھلتے، اعلیٰ عدلیہ نیب عدالت کی سزائیں برقرار نہیں رکھتی۔چیف جسٹس نے کہاکہ ملک غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہے، سابق حکومتی جماعت کے 150 ارکان اسمبلی بائیکاٹ کر کے بیٹھے ہیں، پی ٹی آئی کو کہا تھا اسمبلی جا کر اپنا کردار ادا کریں، اسمبلی میں موجود ارکان کو اپنے فائدے کیقانون سازی نہیںکرنا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے تحت چلنے والے تمام اداروں کو مکمل سپورٹ کریں گے، عدالت غیر معمولی حالات میں کیس سن کر مزے نہیں لے رہی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں