کان کا کنگن
شیئر کریں
شاہد اے خان
ڈاکٹر واٹسن یہاں آؤ،مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔۔ یہ ہیں وہ الفاظ جودنیا بھر میں سب سے پہلے برقی تار کے ذریعے ایک جگہ بولے اور دوسری جگہ سنے گئے۔الیگزینڈر گراہم بیل نے وائرلیس پر اپنے تجربات کے دوران اپنے اسسٹنٹ ڈاکٹر واٹسن کو پکارا اور دوسرے کمرے سے ڈاکٹر واٹسن خوشی میں جھومتے گراہم بیل کے پاس آئے اس کو گلے لگا کر ماتھا چوما اور دیوانہ وار گھومنا شروع کردیا۔ حیرت کی تصویر بنے گراہم بیل نے پوچھا واٹسن کیوں باؤلے ہوئے ہو۔واٹسن کا جواب تھا میں نے سن لیا ،میں نے سن لیا۔ ارے سن لیا تو اس میں بیوقوفوں کی طرح خوش ہونے کی کیا ضرورت ہے میاں۔ اس کے جواب میں واٹسن نے جو کہا اس کو سن کر گراہم بیل خود بھی خوشی سے جھومنے لگا۔ ڈاکٹر واٹسن نے گراہم بیل کو بتایا کہ انہوں نے مسٹر بیل کی آواز اس آزمائشی آلے پر سنی جس پر دونوں وائرلیس کے تجربات کر رہے تھے۔ اس طرح دنیا کو پہلا ٹیلی فون ملا۔ ٹیلی فون نے دنیا کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا۔ورنہ ہزاروں میل دور بیٹھ کرکسی سے ایسے بات چیت کرنا جیسے وہ سامنے بیٹھا ہے ،کسی افسانے یا دیومالائی کہانی جیسا ہی لگتا ہے۔ ٹیلی فون بہت جلدہی مغرب میں شہری زندگی کا لازمی حصہ بن گیا۔ پھر رابطے کے اس جن نے پوری دنیا کو اپنے سحر میں جکڑلیا۔ لیکن ہمارے ملک میں تو ہر شے کا انداز نرالا ہے وہ ٹیلی فون جودنیا بھر میں انسانی ضرورت کی چیز بن چکا تھا ، ہمارے ملک پاکستان میں ابھی کوئی بیس پچیس سال پہلے تک اسٹیٹس سمبل ہوا کرتا تھا۔جس کے گھر ٹیلی فون ہوتا وہ صاحب حیثیت یعنی امیر کہلاتا تھا۔ مثل مشہور تھی کہ دادا نئے ٹیلی فون کنکشن کیلیے اپلائی کرے تو پوتے کو جا کر استعمال کرنا نصیب ہوتا ہے۔ ٹیلی فون لگوانے کے لیے بہت ہی تگڑی سفارش تلاش کرنا پڑتی تھی۔اگر کسی متوسط شخص کو مرادوں وسیلوں اور سفارش کے بعد ٹیلی فون کا کنکشن مل جاتا تھا تو جیسے دن عید اور رات شب برأت ہو جاتی تھی۔ محلے کا محلہ مبارک باد دینے آتا تھا۔ ویسے اس زمانے میں جس گھر میں ٹیلی فون ہوا کرتا تھا ،علاقے میں اس گھر کی دھوم او ر گھرانے کی واہ واہ ہوا کرتی تھی۔ لوگ منتیں کرکے صاحبِ ٹیلی فون سے اس کا نمبر لیتے تھے او ر اپنے احباب کو دیتے تھے تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں رابطہ کیا جا سکے۔ کچھ قریبی جان پہچان والوں کو فون استعمال کرنے کی اجازت بھی ہوتی تھی لیکن ایسے میں گھڑی پر گہری نظر رکھی جاتی تھی اور دو منٹ پورے ہونے کے بعد اور تین منٹ پورے ہونے سے پہلے کال کاٹ د ی جاتی تھی۔ ہاں اس دور میں اکثر گھروں میں ٹیلی فون کو تالے والے لکڑی کے بکس میں بند کرکے رکھا جاتا تھا۔ قربانی کا گوشت ہو یا کسی گھر میں کوئی اچھی چیز پکے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ٹیلی فون رکھنے والوں کے گھروں میں بھیجی جاتی تھی۔
پھر ہوا یہ کہ ملک پاک میں فون اشرافیہ کا سمبل نہ رہا، مواصلات کی تیز رفتار ترقی اور سستے اور عام ہوتے فون کے استعما ل کے آگے اسٹیٹس کا سمبل دھڑام سے گرگیا۔اب عام گھروں میں بھی ٹیلی فون لگنے لگا۔لیکن اس سے عام آدمی خاص نہیں بن گیا۔بس خاص لوگوں نے کسی دوسرے آئٹم کو اسٹیٹس سمبل بنا لیا۔ نوے کی دہائی کے آخر میں پھر ٹیلی فون اشرافیہ کا نشان بننے لگا لیکن اس بار یہ ٹیلی فون تار کے جھنجھٹ سے آزاد تھا، اس فون کو اپنے ساتھ رکھا جا سکتاتھا اور کہیں سے بھی استعما ل کیا جاسکتا تھا۔اس ٹیلی فون کو موبائل فون یا سیل فون کہا گیا۔ شروع کے موبائل فون اتنے بڑے ہوتے تھے کہ ان سے ناریل توڑے جا سکتے تھے۔ اس قدر بھاری بھرکم فون کو اٹھانا بھی ایک مصیبت تھی لیکن اشرافیہ کو یہ مشقت بھی قبول تھی ، ہاتھ میں ہاتھ کے سائز سے ڈبل موبائل فون اٹھائے پھرنا اسٹیٹس سمبل بن چکا تھا اور ان غریبوں کا منہ چڑا رہا تھا جنہوں نے گھروں میں ٹیلی فون لگوالیے تھے۔ پھر ہوا یوں کہ موبائل فون انڈسٹری نے تیزی سے اور ہمہ جہت ترقی کی ،دیکھتے ہی دیکھتے موبائل فون چھوٹے ہونے لگے۔ لیکن اس کے باوجود سستے پھر بھی نہیں تھے اور کنکشن بھی مہنگا تھا۔ کال کرنے پر ہی نہیں سننے پر بھی پیسے لگتے تھے۔ موبائل فون کمپنیوں نے سستے فون بنانے شروع کیے تو عام آدمی کے ہاتھ میں بھی موبائل سیٹ آگیا۔ نوکیا اس دور میں سب سے مہنگا او ر پائیدار سیٹ تصور کیا جاتا تھا۔ اب سب کے ہاتھوں میں موبائل فون تھے لیکن جس کے پاس نوکیا ہوتا اس کی حیثیت بہتر تصور کی جاتی تھی۔پھر ایک کے بعد ایک جدید ترین موبائل فون دھڑا دھڑ مارکیٹ میں آنے لگے، اب تو پورے کا پورا کمپیوٹر ہی موبائل فون میں سما چکا ہے۔ بھلا ہو چائنا کا جس نے نقل بمطابق اصل اس طرح بنا دی کہ عوام الناس کے ہاتھ میں ہر طرح کے موبائل سیٹ پہنچا دیے۔لیکن ایک چیز پہلے بھی موجود تھی اور اب بھی موجود ہے یعنی مہنگا موبائل فون رکھنا اسٹیٹس اور فیشن کی نشانی پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے۔۔۔