میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پانی کی قلت شدت اختیار کر گئی،ملک میں قحط سالی کا خدشہ

پانی کی قلت شدت اختیار کر گئی،ملک میں قحط سالی کا خدشہ

ویب ڈیسک
پیر, ۵ جولائی ۲۰۲۱

شیئر کریں

ملک میں پانی کی قلت نے خطرے کی گھنٹی بجا دی، کم بارشوں اور بھارت کی جانب سے پانی روکے جانے کی وجہ سے دریا خشک ہو گئے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں فی کس پانی کی دستیابی 11 سو ملین کیوبک میٹر سالانہ رہ گئی ہے جبکہ پنجاب میں اب پانی نکالنے کے لیے 600 فٹ گہرائی تک جانا پڑتا ہے۔ ہر سال خریف اور ربیع کی فصل کو 45 فیصد تک پانی کی کمی کا سامنا ہے جبکہ لاہور سمیت پنجاب بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں زیر زمین پانی کی سطح گرنے لگی ہے، ایک وقت تھا جب 50 فٹ نیچے میٹھا پانی مل جاتا تھا لیکن اب 600 سے 700 فٹ گہرائی میں جانا پڑتا ہے۔ آبی ماہرین کی جانب سے خبردار کیا گیا ہے کہ اگر پانی کے نئے ذخائر نا بنائے گئے اور پانی کا ضیاع نہ روکا گیا تو قحط سالی کا شکار ہو جائیں گے، اس وقت پانی کی فی کس دستیابی 1100 ملین کیوبک میٹر سالانہ ہے، جیسے ہی یہ ایک ہزار کیوبک میٹر سے نیچے آئی تو قحط کا شکار ہو جائیں گے۔آبی ماہرین کے مطابق بڑھتی ہوئی آبادی، پانی کے ضیاع اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ارباب اختیار کو فوری نئے ڈیموں اور پانی کے استعمال میں احتیاط کو اپنانا ہو گا ورنہ قحط سالی سر پر کھڑی ہے۔ پاکستان انجینئرنگ کانگریس کے صدر اور جنرل منیجر بیراجز امجد سعیدکا کہنا ہے کہ پانی کا مسئلہ آنے والے دنوں میں سنگین ہو سکتا ہے، 1960 کا ا?بی معاہدہ موجود ہے، بھارت کی بات کیا کرنی، ہمارے تو اپنے صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم پر تحفظات سالوں سے چلے آ رہے ہیں۔امجد سعید کا کہنا تھا کہ7 ملین ایکٹر فٹ قیمتی پانی ہر سال سمندر کی نذر ہو جاتا ہے، یہ نااہلی نہیں تو اور کیا ہے۔ایم ڈی واسا زاہد عزیز کا کہنا ہے کہ 15، 20 سالوں سے لاہور شہر کا زیر زمین پانی ہر سال ایک میٹر نیچے جا رہا تھا، بارشوں میں کمی، دریائے راوی کی صورتحال اور شہریوں کی جانب سے پانی کا ضیاع اس کی بڑی وجوہات ہیں۔زاہد عزیز کے مطابق حکومتی اقدامات سے زیرزمین پانی کی سطح 2میٹر بلند ہوئی، آئندہ کئی سالوں کے لیے لاہور سمیت بڑے شہروں کے لیے یہ پانی کافی ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی اور جنوبی پنجاب کے اکثر شہروں میں لوگوں کو میٹھے پانی کی قلت کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کے لیے پراجیکٹس بن رہے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں