منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف گرفتار
لاہور ہائیکورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں مسلم لیگ (ن)کے صدر محمد شہباز شریف کی عبوری ضمانت کی درخواست مسترد کردی
شیئر کریںلاہور ہائیکورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں مسلم لیگ (ن)کے صدر محمد شہباز شریف کی عبوری ضمانت کی درخواست مسترد کردی جس کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب ) نے شہباز شریف کو احاطہ عدالت سے ہی گرفتار کرلیا، شہباز شریف کی گرفتاری کی اطلاع ملتے ہی کارکنوں نے حکومت اور نیب کے خلاف شدید نعرے بازی کی ، کسی بھی نا خوشگوار واقعہ سے نمٹنے کیلئے مال روڈ سمیت دیگر اہم شاہراہوں اور عمارتوں کے باہر پولیس کی بھاری نفری کو تعینات کر دیا گیا ۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے شہباز شریف کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں عبوری ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔دوران سماعت مسلم لیگ (ن)کے صدر کی طرف سے ان کے وکلا ء امجد پرویز اور اعظم نذیر تارڑ پیش ہوئے جبکہ قومی احتساب بیورو (نیب )کی طرف سے فیصل بخاری اور عثمان راشد چیمہ دلائل کے لیے موجود تھے۔شہباز شریف خود بھی ذاتی حیثیت میں موجود تھے جبکہ پارٹی کے مرکزی رہنما اور اراکین اسمبلی بھی ان سے اظہار یکجہتی کیلئے کمرہ عدالت میں موجود رہے ۔ شہباز شریف کے وکیل امجد پرویزنے دلائل میں کہا کہ ریکارڈ پر ہے نیب نے افسانوی کہانی بنائی، پتہ نہیں یہ کیس کیوں بنایا گیا، ریفرنس دائر ہوچکا اور تحقیقات مکمل ہوچکی ہیں، اب گرفتاری کی کیا وجوہات ہیں۔شہباز شریف نے عدالت سے چند گزارشات کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا آپ سے چند منٹ چاہیے، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ آپ کے وکیل دلائل دے رہے ہیںجو رہ جائے وہ آپ بتا دیجئے گا۔وکیل شہباز شریف نے کہا کہ پراسیکیوشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ثابت کرے پبلک آفس استعمال کر کے پیسہ بنایا گیا۔ فاضل عدالت نے کہا آپ یہ تمام دلائل پہلے دے چکے ہیں ۔امجد پرویز نے کہا کہ جو بات میںکر رہا ہوں یہ کیس کے میرٹ کی بات ہے، گرفتاری کے 6 ماہ بعد بری ہو جاتے ہیں تو ریاست کی ساکھ کیا رہ جاتی ہے۔امجد پرویز نے سوال کیا کہ عدالت کے طلب کرنے پر پیش ہوگئے پھر گرفتاری کا کیا جواز ہے؟ شہباز شریف کا نام اسی کیس میں ای سی ایل میں شامل کیا گیا تھا، لاہورہائیکورٹ نے شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالناغیرقانونی قراردیا، قانون کے مطابق پراپرٹی بنانا کوئی جرم نہیں ۔دوران سماعت امجد پرویز نے کہا کہ شریف گروپ آف کمپنیز میں شہباز شریف کا کوئی عہدہ نہیں، کمپنیزکے ریکارڈ سے شہباز شریف کا کوئی لینا دینا نہیں ، منی لانڈرنگ کے کیس میں جرم کا تعلق ظاہر ہونا ضروری ہے، فائدہ حاصل کرنے اورمعاونت کرنے میں فرق ہے، اختیارات سے تجاوز ،اعانت جرم کا تعلق ظاہر ہونا لازم ہے۔انہوں نے کہا کہ شہبازشریف پر26کروڑ 90لاکھ روپے کے اثاثوں کاالزام ہے، ٹیکس ریٹرنزکو نیب مانتا ہے مگر اس پر خرچ نہیں مانتا، زرعی آمدن پرہرسال ٹیکس ادائیگی کی جاتی رہیں ، دوسری آمدن تنخواہ کو ظاہر کیا گیا، تیسری آمدن کاروبار ہے ،ٹیکس واجبات ادائیگی کی گئی، بیوی سے70لاکھ روپے کا گفٹ شہبازشریف کوملا اور 2018تک اپنی تمام ٹیکس ریٹرنزجمع کراتے رہے ۔.امجد پرویز نے کہا کہ کسی جائیدادکونیب حکام نے وزٹ کرکے چیک نہیں کیا، نیب صرف ٹیکس ریٹرنز پر تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتا ہے، ٹائی کوٹ پہن کر ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر غیرجانبدارانہ تحقیقات ممکن نہیں، عدالت تسلی کیلئے لوکل کمیشن مقررکرکے جائیدادکامعائنہ کراسکتی ہے، کسی کمپنی سے ایک دھیلا بھی شہباز شریف کے اکائونٹ میں نہیں آیا ، ایک دھیلا بھی آیا ہو تو اپنی درخواست ضمانت واپس لے لوں گا۔امجد پرویز نے کہا کہ ان کے موکل کے بچے ان کے زیر کفالت نہیں ہیں، سپریم کورٹ نے زیر کفالت ہونے کے معاملے میں پاناما کیس میں تشریح کر دی ہے۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی اہلیہ 2004 سے فائلر ہیں جبکہ سلمان شہباز اور حمزہ شہباز 1996 سے اور بیٹیاں جویریہ اور رابعہ بھی 2007 سے فائلر ہیں۔امجد پرویز کے مطابق نیب کے منی لانڈرنگ کے 58 والیمز میں شہباز شریف کے خلاف ایک بھی دستاویزی ثبوت نہیں جبکہ ایف بی آر، ایس ای سی پی، ریونیو سمیت کسی ادارے کے ریکارڈ کے مطابق شہباز شریف بے نامی دار نہیں ،کسی ایک شخص کا بھی 161 کا بیان صفحہ مثل پر موجود نہیں ہے، منی لانڈرنگ ریفرنس میں نیب نے 4 وعدہ معاف گواہ بنائے ہیں تاہم کسی ایک نے بھی شہباز شریف کے خلاف بیان نہیں دیا۔شہباز شریف کے وکیل نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا شہباز شریف اپنے اعمال کے جوابدہ ہیں، بچوں کے نہیں، بیوی نے 70 لاکھ کا تحفہ دیا جسے قانونی طریقے سے حاصل کیا، جس کے بعد شہباز شریف کو بات کرنے کی اجازت دینے کی استدعا کی گئی۔شہباز شریف نے عدالت میں بیان میں کہا کہ میں بہت شکر گزار ہوں آپ نے وقت دیا ، ایک خطاکار انسان ہوں، ہم اللہ سے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، 1997اور 2013 ،2018 میں پنجاب کے عوام کی خدمت کی، بے شمار کام اور ہونے والا ہے، کتابچہ پیش کیا ہے اس کو دہرائوں گا نہیں، ہم نے پروکیورمنٹ میں ایک ہزارارب پاکستان کے بچائے، اڑھائی سوسال بھی لگ جائیں مجھ پرکرپشن ثابت نہیں کرسکیں گے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اورنج لائن میں بولی لگوائی حالانکہ بولی کاقانون اجازت نہیں دیتاتھا، میرا ضمیر مجھے مجبور کررہا تھا،اورنج لائن میں 600 ملین روپے بچائے، مجھ پر الزام لگایا گیا ہے کہ میرے بے نامی اثاثے ہیں، اختیارات سے تجاوز نہیں کیا، اگر ایسا کیا ہوتا تو پھر اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے تھی، سندھ کے مقابلے میں گنے کی قیمت زیادہ رکھی، سبسڈی بھی نہیں دی، اس سے میرے بچوں اورعزیزوں کی شوگرملز کو نقصان ہوا۔شہباز شریف نے کہا کہ والد بھائیوں نے 1940 میں کام شروع کیا، 1972 کو ہمارے ادارے قومیائے گئے ، میرے والد نے 18 ماہ میں 6 فیکٹریاں لگائیں ، سیاسی انتقام کا نشانہ بنے مگر اس کی بات نہیں کرنا چاہتا، سندھ حکومت نے شوگر ملز کو ساڑھے 9 روپے فی کلو پرمزید سبسڈی دی، بیٹے کی مل نے شوگر ایکسپورٹ کی تو 23 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔