مقدمات میں تاخیر کا ذمہ دار نیب ہے، سپریم کورٹ
شیئر کریں
سپریم کورٹ نے ایک مرتبہ پھر قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ کرپشن مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا ذمہ دار نیب ہے جبکہ عدالت عظمیٰ نے وفاقی کابینہ سے 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام کی منظوری لینے، نئی احتساب عدالتوں کے لیے انفرااسٹرکچر بنانے اور ایک ماہ میں نیب رولز بنا کر پیش کرنے کی ہدایت کردی۔جمعرات کو عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے لاکھڑا پاور پلانٹ کی تعمیر میں بے ضابطگیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے احتساب کے ادارے کے سربراہ کو مذکورہ کیس کا تفتیشی افسر تبدیل کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ نیب میں تفتیش کا معیار جانچنے کا کوئی نظام نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ نقائص سے بھرپور تفتیشی رپورٹ ریفرنس میں تبدیل کردی جاتی ہے، ریفرنس دائر کرنے کے بعد نیب اپنی غلطیاں سدھارنے کی کوشش کرتا ہے، غلطیوں سے بھرپور ریفرنس پر عدالتوں کو فیصلہ کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ کرپشن مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا آغاز ہی نیب کے دفتر سے ہوتا ہے، قانونی پہلوؤں کا تفتیشی افسران کو پتہ ہی نہیں ہوتا اور اس طرح برسوں تحقیقات چلتی رہتی ہیں۔عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ ریفرنس میں کوئی معیار نہیں ہوتا، ایک ہی گواہ کافی ہوتا ہے لیکن یہاں 50، 50 لوگوں کو گواہ بنا لیا جاتا ہے۔انہوں نے عدالت میں موجود نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے تمام الزام عدالتوں پرلگا دیا، جس پر جواب دیتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں۔نیب پراسیکیوٹر کے جواب میں چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ایسا ہی ہے، عدالت کو کوئی معانت نہیں ملتی، حقائق اور قانونی پہلوؤں کا معلوم ہی نہیں ہوتا، تحقیقات برسوں تک چلتی رہتی ہے۔بعد ازاں عدالت نے 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام سے متعلق سیکریٹری قانون کو ہدایت کی کہ وہ وفاقی کابینہ سے منظوری لے کر ایک ماہ میں ججز تعیناتی کا عمل شروع کریں۔اس کے علاوہ کہاگیاکہ نیب رولز نیب آرڈیننس کی شق 34 کے تحت بنائے جائیں کیونکہ اس کے ایس او پیز رولز کے متبادل نہیں ہوسکتے۔بعدا ازاں کیس کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی گئی۔علاوہ ازیں 120 نئی عدالتوں کے قیام کے معاملے میں وزارت قانون نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرا دیا۔عدالت میں جمع جواب میں بتایا گیا کہ 120 عدالتوں کے قیام میں مالی مسائل کا سامنا ہے لیے جبکہ اس کے لیے سالانہ 2 ارب 86 کروڑ روپے کے بجٹ کی ضرورت ہوگی جبکہ اسامیوں کے لیے وزارت خزانہ اوراسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے منظوری بھی حاصل کرنا ہوگی۔جواب میں کہا گیا کہ ہے کہ اس سلسلے میں مشاورت کا عمل شروع کردیا گیا ہے جبکہ اس حوالے سے بجٹ بھی وزارت خزانہ نے پاس کرنا ہوگا۔ بتایاگیا کہ 5 احتساب عدالتوں میں ججز کی خالی اسامیاں پر کرنے کے لیے سمری ارسال کردی گئی ہے۔دوسری جانب جواب میں زیر التوا مقدمات کے بارے میں بھی بتایا گیا اور کہا گیا کہ ملک بھر کی 24احتساب عدالتوں میں 975 مقدمات زیر التوا ہیں جبکہ تمام عدالتیں فعال ہیں۔عدالت کو بتایا گیا کہ اسلام آباد کی 3 احتساب عدالتوں میں 110مقدمات زیر التوا ہیں، اس کے علاوہ لاہور کی 5 عدالتوں میں 213، راولپنڈی کی 3 عدالتوں میں 18 مقدمات زیر التوا ہیں۔جواب میں بتایا گیا کہ ملتان کی ایک عدالت میں 80، سکھر میں 56 اور کوئٹہ کی 2 عدالتوں میں 108مقدمات زیر التوا ہیں۔جواب میں کہا گیا کہ کراچی کی 5 عدالتوں میں 188اور حیدرآباد کی عدالت میں 38 مقدمات ہیں جبکہ پشاور کی 4 احتساب عدالتوں میں 164مقدمات زیر التوا ہیں۔