میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سقوط ڈھاکہ کے اسباب....قسط اوّل

سقوط ڈھاکہ کے اسباب....قسط اوّل

منتظم
جمعرات, ۱۵ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ishtiaq-ahmed-khan

اشتیاق احمد خان
سقوط ڈھاکہ سقوط غرناطہ کے بعد امت مسلمہ کا سب سے بڑا سانحہ،16 دسمبر تاریخ کا سیاہ دن،وہ ملک جو اللہ کا تحفہ تھا اس سطح پر کس طرح پہنچا ،کیا اسباب ہیں اس زوال کے ؟ کہ ملک دولخت ہو گیا ۔اس سانحہ کا جائزہ لینے کے لیے حمودالرحمن کمیشن بنا اور پھر کمیشن کی رپورٹ کبھی سامنے نہ آ سکی کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ جس خطہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی جس علاقہ سے تعلق رکھنے والے مولوی اے کے فضل الحق نے مسلمانوں کے لیے جداگانہ ملک کی قرار داد پیش کی جس علاقے سے تعلق رکھنے والے حسین شہید سہروردی نے اس قرارداد کی تائید کی جس کے نوجوانوں نے نہ صرف پورے مشرقی بنگال بلکہ ڈھاکہ سے لے کر دہلی تک سائیکلوں پر سفر کر کے تحریک پاکستان میں اپنا حصہ ڈالا اس سائیکل سواروں کی قیادت کون کر رہا تھا؟معلوم ہے آپ کو ! نہیں تو بتائے دیتا ہوںان سائیکل سواروں کی قیادت ڈھاکہ یونیورسٹی کا طالب علم اور مسلم اسٹوڈینٹس فیڈریشن کا رہنما شیخ مجیب الرحمن کررہا تھا وہی شیخ مجیب الرحمن جو بعد میں بنگلہ بندھو اور پاکستان کا غدار قرار پایا ابھی تاریخ نے اتنا سفر طے نہیں کیا ہے کہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ غدار کو ن تھا؟تاریخ کا یہ سفر کم وبیش سو سال بعد پورا ہو گا جب نا ہی سائیکل سوار تحریک کے گواہ ہونگے نہ سقوط ڈھاکہ کے ابھی قوم کو تاریخ کے فیصلے کے لیے انتظار کرنا ہو گا۔
اب ہم ذرا ان حالات کا جائزہ لیتے ہیں جن میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام سے تقریبا 21 سال قبل آل انڈیا کانگریس کا قیام عمل میں آچکا تھا اور اس عرصے میںواضح ہو چکا تھا کہ آل انڈیا کانگریس میں اگرچہ مسلمان شامل تو ہیں لیکن مسلمانوں کو ان کا مقام ومرتبہ حاصل ہونے والا نہیں ۔1906 میں مسلم لیگ کے قیام کے بعد بھی تقریباً 20 سال تک محمد علی جناح ہندو مسلم اتحاد کے سفیر بنے رہے اور متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کی جدوجہد کی محمد علی جناح 1914 تک بیک وقت آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے رکن رہے لیکن اس کے بعد انہوں نے کا آل انڈیا کانگریس سے اپنے راستے جدا کر لیے ۔
تحریک خلافت کے دوران مسلمانوں پر واضح ہو چکا تھا کہ ہندوستان کا ہندو ان کے ساتھ مخلص نہیں اور مستقبل کے جمہوری دور میں ہندو اکثریت کی بناءپر مسلمانوں کو ان کے حقوق دینے پر آمادہ نہیں ہو گا۔اس کا اندازہ اس وقت ہو گیا تھا جب بنگال کی تقسیم ہوئی تھی اور مشرقی بنگال مسلم اکثریتی صوبے کے طور پے علیحدہ ہو گیا تھا جس پر ہندوو¿ں نے ایک ہنگامہ برپا کر دیا تھا اور انگریز حکومت اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور ہو گئی اس سے مسلم لیگی قیادت پر واضح ہو گیا کہ ہندو انگریز کے جانے کے بعد اپنی اکثریت کی بنیاد پر مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کرینگے ۔
اگرچہ مسلمانوں کے علیحدہ قوم ہونے کا اظہار تو کیا جا رہا تھا لیکن ہندو قومیت کے معروف اُصولو ں کی بنیاد پر ہندوستانی قومیت پر اصرار کر رہے تھے اور مسلمانوں کو علیحدہ قوم ماننے پر آمادہ نہیں تھے ہندوو¿ں کا استدلال تھا کہ قومیتیں علاقہ ثقافت اور زبان کی بنیاد پر وجود میں آتی ہیں ہندوستان ایک علاقہ ہے یہاں کی ثقافت معمولی فرق کے ساتھ تمام آبادی میں موجود ہے اور زبان بھی ایک ہی ہے اس لیے ہندوستانی قومیت ہی اس علاقہ کی واحد قومیت ہے مسلمانوں کا خود کو علیحدہ قوم ثابت کرنا ایک علمی مسئلہ تھا اور مسلم لیگ کے پاس اس کا کوئی حل نہیں تھا۔اس پر علامہ اقبال نے 1932 میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس اعتراض کا علمی جواب دینا ہے ۔ہے کوئی جو علمی انداز میں اس کا جواب دے سکے اس اجلاس میں سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی موجود تھے انہوں نے اس اعتراض کامدلل جواب دینے کے لیے ایک کتاب لکھی ” مسئلہ قومیت” اور اگلے سال الہ آباد ہی میں ہونے والے سالانہ اجلاس سے قبل ناصرف یہ کتاب لکھ لی گئی تھی بلکہ چھپائی کے مراحل سے بھی گزر چکی تھی اور جلسہ سے قبل ہی علامہ اقبال کی خدمت میں پیش بھی کر دی گئی تھی کتاب پڑھ کر علامہ اقبال نے کہا اب ہمارے پاس دلیل کے ساتھ بات کرنے کا پورا موقع موجود ہے اس جلسے کے موقع پر علامہ اقبال نے مسلم لیگی کارکنان کو ہدایات کی کہ یہ کتاب نے ہر کارکن کو لازماً پڑھنا چاہیے تاکہ کانگریس کے پروپیگنڈہ کابھرپور جواب دیا جا سکے ۔
اس کے کچھ عرصہ بعد ہی دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی اس جنگ میں برطانیہ بھی اتحادیوں میں شامل تھا جبکہ جاپان اور جرمن ایک جانب تھے ہٹلر کے ہاتھوں شکست سے دوچار اتحادی خصوصاً برطانیہ شدید افرادی قوت کی قلت کا شکار تھا اسے جنگ کا ایدھن بننے کے لیے افرادی قوت کی بڑی ضرورت تھی اس وقت کانگریس نے ہندوانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت برطانیہ کو بلیک میل کیا کہ افرادی قوت تو ہندوستان فراہم کر دے گا لیکن جنگ کے خاتمہ پر انہیں ہندوستان سے جانا ہو گا برطانوی حکومت کے وعدے پر ہندوستان میں فوجی بھرتی شروع ہو گئی یوں تو ہندوستان کے سپاہی پہلے بھی برطانوی فوج کا حصہ تھے لیکن اب تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی تھی کانگریس میں بنیادی طور پر پنڈت اور برہمن بالا دست تھے اور فوج میں جاٹ اور سکھ بھرتی کیے جا رہے تھے مسلمانوں کی ایک مناسب تعداد بھی برطانوی فوج کا حصہ بنی تھی اور برما کے اس محاذ پر جہاں سے جرمن اور جاپانی افواج ہندوستان میں داخل ہی ہوا چاہتی تھی اور جہاں سے نازی فوجوں کی شکست کا آغاز ہوا تھا وہاں مسلمان فوجی تعینات تھے اس محاذ پر چند انگریز افسر بھی موجود تھے اور مسلمان فوجیوں کی کمان جس کے ہاتھ میں تھی وہ تھے کیپٹن امیر عبداللہ خان نیازی (اے اے کے نیازی) بے مثال بہادری پر انگریز افسر امیر عبداللہ خان نیازی کو اس کے نام اور رینک سے نہیں بلکہ ٹائیگر نیازی کہتے تھے جنگ ختم ہوئی تو انگریزوں کو وعدے کے مطابق ہندوستان سے کوچ کر جانا تھا لیکن اس دوران 1940 میں مسلم لیگ کے سہ روزہ جلسہ عام منعقدہ منٹو پارک لاہور میں ایک قرار داد کے ذریعے کانگریس کے مطالبے کو بدل دیا تھا کانگریس کا مطالبہ تھا ہندوستان چھوڑ دو مسلم لیگ نے نعرہ دیا ” ہندوستان کو تقسیم کرو اور چھوڑ دو” ۔
مسلم لیگ کے 1940 کے ہونے والے جلسے میں قرارداد مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والے مولوی اے کے فضل الحق نے پیش کی تھی اور دوسرے بنگالی رہنما حسین شہید سہروردی نے اس کی تائید کی تھی اس قرارداد کی منظوری کے ساتھ ہی مسلم لیگ نے سیاسی سطح پر ہلچل شروع کر دی تھی اور مسلمانوں کو علیحدہ وطن کے قیام کے مطالبے پر متفق کرنے کے لیے رابطہ عوام مہم کا آغاز کر دیا تھادوسری طرف کانگریس نے بھی اپنے طور پر ایک مہم کا آغاز کیا ” انگریز ہندوستان چھوڑ دیں” بعد میں یہاں رہنے والے اپنا فیصلہ خود کرلینگے کانگریس مسلسل پورے ہندوستان کی نمائندہ جماعت ہونے کی دعویدار تھی وقت گزرتا رہا کانگریس اپنے موقف پر ڈٹی رہی اور مسلم لیگ نے اپنے موقف کا پرچار جاری رکھا اسی دوران 1946 کے عام انتخابات کا اعلان ہوا اب مسلم لیگ کے پاس موقع تھا کہ وہ اپنا موقف منوالیتی قائد اعظم اور مسلم لیگ کے دیگر رہنماو¿ں نے حکومت برطانیہ پر واضح کر دیا کہ جب وہ جمہوری اقدار پر یقین رکھتی ہے تو کون کس کی نمائندگی کرتا ہے اس کا بہترین فیصلہ جمہوری انداز میں عوامی رائے سے کیا جا سکتا ہے طویل مباحثہ کے بعد انگریز سرکار نے مسلم لیگ کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا کہ انتخابات جداگانہ بنیاد پر ہونگے (مسلمان ووٹر مسلم لیگ یا کانگریس کے نامزد مسلمان کو ووٹ دینگے )دونوں جماعتیں امیدوار نامزد کرینگی جس پارٹی کے زیادہ امیدوار کامیاب رہے اسے ہی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تسلیم کر لیا جائے گا اگر مسلم لیگی امیدوار زیادہ تعداد میں کامیاب ہوئے تو علیحدہ وطن کے مطالبے پر غور کرکیا جائے گاکانگریس میں مولانا ابوالکلام آزاد ایسے جید علماءشامل تھے وقت کا مقابلہ سخت تھا ان حالات میں مشرقی بنگال کے کارکنان اور رہنماو¿ں نے جو کردار ادا کیا وہ ناقابل فراموش ہے وقت کم تھا اور پورے ہندوستان(موجودہ ہندوستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش) میںمہم چلانی تھی مسلم لیگ نے تو صرف مسلم اکثریت علاقوں میں امیدوار نامزد کیے تھے اسی طرح کانگریس نے بھی ان حلقوں سے مسلمان امیدوار نامزد کیے تھے ۔
مسلم لیگ کا اثرورسوخ سب سے زیادہ مشرقی بنگال میںتھا بنگال کا مسلمان متحدہ ہندوستان میں ہندوو¿ں کے ہاتھوں اذیت کا شکار تھے اور وہ اذیت اس سے بہت کم تھی جو انگریز کے جانے کے بعد برداشت کرنا پڑ سکتی تھی یوں مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے مطالبے پر کچھ بھی کر گزرنے کے لیے تیار تھے مسلم لیگ نے انتخابی مہم کا آغاز کیا تو ڈھاکہ کے طلبہ کے گروہ نے پورے مشرقی بنگال، مغربی بنگال سمیت دہلی تک انتخابی مہم چلانے کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لی ۔(جاری ہے)
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں