میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کیا کوروناصدی کی سب سے مہلک وباء بن سکے گے؟

کیا کوروناصدی کی سب سے مہلک وباء بن سکے گے؟

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۵ اپریل ۲۰۲۰

شیئر کریں

اب جبکہ کورونا وائرس سے پھیلنے والی بیماری کے مریضوں کی تعدداد 20 لاکھ کے قریب ہوچکی ہے اور اس مرنے والے افراد کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزارسے تجاوز کرچکی ہے پوری دنیا اس وقت شدید اضطراب کا شکار ہے کہ یہ سلسلہ کب اپنے اختتام کو کب تک پہنچے گا؟اور دنیا بھر میں معمولات زندگی کب تک بحال ہوسکیں گے؟۔دسمبر 2019 چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے کورونا وائرس اٹیک کا پہلی بار انسانی جسم پر حملہ شروع کرنے کے بعد اس سال دس جنوری اس وائرس کا شکار ہونے والے افراد سکی ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہو ا تھا۔ابتدائی دس دنوں میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد ایک سے تین تک رہی اور پھر مہینہ کے اختتام تک روزآنہ ہونے والے ہلاکتوں کی تعداد دس سے چالیس افراد تک ہوگئی تھی اور یوں نئے سال کے پہلے مہینہ کے اختتام تک اس وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد213 تک پہنچ گئی تھی۔ فروری کے مہینہ کے اختتام تک اس وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 2,921 تک پہنچ گئی تھی گویا پہلے یک مہینہ میں 2,708 اموات ہوئیں اور آنہ ہونے والے مریضوں کی تعداد 46 سے 144کے درمیان رہی۔مارچ کے مہینہ میں اس وباء کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد 37,272 تک پہنچ چکی تھی اس طرح سال کے تیسرے مہینہ تک34,351 ہلاکتیں ہوئیں اور روزآنہ ہونے والی اموات تین ہزار سے بڑھ چکی تھی۔رواں اپریل کے 14 دنوں میں کووڈ۔2019 کے سبب لقمہ اجل بن جانے والے افراد کی تعداد120,437تک آگئی تھی یعنی اپریل کے 14 دنوں میں 185ہزار کے قریب ا فراد ہلاک ہوئے اور اس وائرس سے ہونے والی یومیہ اموات چار سے سات ہزار تک پہنچ چکی ہے۔
اب جب کہ گزشتہ چار ماہ کے دوران ہونے والی ہلاکتیں ایک لاکھ بیس ہزار افراد سے تجاوز کرچکی ہے اور اگر یہ سلسلہ مزید چار ماہ تک اور جاری رہا تو یہ اندازہ لگانا بڑا مشکل ہے کہ آئیندہ کتنے لاکھ افراد اس موذی وباء کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی کے آغاز سے اب تک جتنی وبائی بیماریاں پھیل چکی ہیں ان کا جائیزہ لینے کے بعد کہا جاسکتا ہے کورونا وائرس کے اٹیک کی بنا پرایک بہت بڑی تعداد میں انسانی جانی نقصان ہوسکتا ہے بلکہ دنیا بھر کے بیشتر ممالک کی معیشت کو کھربوں روپے کے مالی نقصانات بھی برداشت کرنے ہونگے۔
تاریخی جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی کی ابتدائی دو دہائیوں کو دوران دنیا بھر میں جن وبائی امراض کا سامنا کرنا پڑا ہے ان میں سب سے پہلے 2002 کے دوران جنوبی چین میں پھیلنے والی سارس کی وباء سے 744ہلاکتیں ہوئیں تھیں۔2003جنوبی ایشیائی ممالک میں برڈ فلو سے 400 سے زائیدافراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ 2009میں امریکی ممالک میں پھلنے والے سوائین فلو کی وباء سے 18,500 سے زائید افراد ہلاک ہوئے تھے، بعض حلقوں کی جانب سے یہ تعداد ایک لاکھ سے زائید بتائی جاتی ہے۔اسی طرح ہانگ کانگ فلو کی وباء کی بنا پر ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد دس لاکھ سے زائید بتائی جاتی ہے۔عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کہا گیا ہے انفلونزا سے ہر سال ڈھائی سے پانچ لاکھ افراد مرجاتے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق ایڈز کی بیماری سے اب تک 32لاکھ سے زائید اموات ہوچکی ہیں۔اسی طرح 2013 سے 2015 کے دوران افریقہ میں ایبولا بخار کی وجہ سے 11,300اموات ہوئی تھیں۔پچھلی صدی میں پھیلنے والی وبائی بیماریوں پر ں نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ تباہی اسپینش فلو نے مچائی تھی جس کا آغاز 1913سے شروع ہونے والی پہلی عالمی جنگ کے دوران ہوا تھا جس کی بنا پر پانچ کروڑ افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔علاوہ ازیں 1968 سے 1970 کے دوران ایشئین فلو سے گیارہ لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس وقت دنیا بھر میں کورونا وائرس کے پھیلنے سے جو خوف و دہشت کا ماحول پایا جاتا ہے اس میں روزآنہ ہلاکتوں کی تعداد میں جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے کسی بھی ملک کا ایک عام شہری بہت فکرمند نظر آتا ہے۔ میڈیکل کے شعبہ سے وابستہ افراد کے مطابق یہ وائرس اتنی خاموشی کے ساتھ حملہ آور ہوتا ہے کہ ابتدائی دو ہفتوں میں تو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے اور جب بیماری اپنا اثر دکھاتی ہے تو قرنظینہ میں جانا پڑ جاتاہے۔یہاں یہ امر بھی تسلی بخش ہے کہ بیس لاکھ سے زائید مریضوں میں 4 لاکھ 56 ہزار سے زائید افراد اب تک صحت یاب بھی ہوچکے ہیں۔جو بات قابل تشویش ہے وہ یہ کہ اس وقت مریضوں کی جو کل تعداد ہے وہ صرف ایک ہفتہ کے دوران دگنا ہوئی ہے۔ کورونا وائرس کا شکار ہونے والے افرادکے اعداد و شمار اس سال 22جنوری سے میڈیا پر آنے شروع ہوئے تھے اور اس وقت تک مریضوں کی کل تعداد 534تک تھی اور پھر مہینہ کے اختتام تک یہ تعداد9,826ہوگئی تھی۔فروی کے ابتدائی دو ہفتوں میں مریضوں کی تعداد67,103 اور آخری دو ہفتوں میں یہ تعداد 85,203تکی پہنچی تھی۔پندہ مارچ تک مریضوں کی تعداد 154,774 تھی اور مہینہ ختم ہونے پر یہ تعداد 8 لاکھ تک آگئی تھی جبکہ اپریل کے 14 دنوں میں مریضوں کی تعداد بیس لاکھ سے بھی تجاوز کرچکی ہے اور یہ سلسلہ کہاں پر جاکے رکے گا کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ملکوں دس ممالک کے نام سرفہرست ہیں جن امیں امریکا،اسپین،اٹلی،جرمنی،فرانس،چین،برطانیہ،ایران،ترکی اور بلجیم شامل ہیں جہان کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد پچاس ہزار سے پانچ لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور یہاں ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے بیس ہزار کے درمیا ن ہے۔ کورونا وائرس سے زیادہ ممالک کی فہرست میں بھارت 22 وین نمبر پر ہے جہاں مریضوں کی تعداد8,504 اور ہلاکتوں کی تعداد 290سے زائید ہوچکی ہے۔پاکستان اس فہرست میں 33 نمبر پر ہے جہاں اب تک اس وائرس سے پانچ ہزار سے زائید افراد متاثر ہوچکے ہیں اور اموات کی تعداد90 سے بڑھ چکی ہے۔یورپی ممالک جو کورونا وائرس کے اٹیک سے سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہیں اب اٹلی اور اسپین میں مریضوں اور ہلاکتوں کی تعداد میں کمی واقع ہونا شروع ہوگیا ہے جبکہ چین میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران حالات بہت بہتر رہے اور معمولات زندگی بحال ہونے شروع ہوگئے ہیں اور سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر سے لاک ڈاون ختم کردیا ہے۔دوسری جانب پاکستان اور بھارت میں ابھی صورتحال تسلی بخش قرار نہیں دی جاسکتی ہے کیونکہ ان دونوں ممالک میں مریضوں اور اموات کی شرح میں اضافہ کا سلسلہ جاری ہے حالات کب کنٹرول ہونے کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں