”میرے لعل“ اب کتنا عرصہ قبر میں گزارو گے
شیئر کریں
الطاف حسین ندوی
دانش کی ماں کے نوحے سے ہر ذی حس کا جگر پھٹ سکتا ہے ۔روتے روتے تھکی تسلیمہ اپنے پندرہ سالہ بیٹے کا نام لیکر نوحہ کرتی ہے ”دانش “میرے دولہے ،اب کتنا عرصہ قبر میں گزار و گے۔تم مجھے اس طرح چھوڑ کے نہیں جاسکتے،میرے بچے آجا،خدارا اب واپس آجا،تومیرے لیے سب کچھ تھادانش ،پہلے مجھے جانا چاہیے تھا، آخر یہ کیا غضب کر دیا کہ جو میرا تابوت اٹھاتا ، وہی قبر میں جا کر روٹھ بیٹھا،دانش اب تو آجامیرے لعل“۔دانش کی ماں اپنے لخت جگر سے فریاد کرتے کرتے دیوانی محسوس ہوتی ہے ۔شہادت کے روزدانش اچھہ بل دودھ لانے گیاتھا لیکن وہاں احتجاجی مظاہرے جاری دیکھ کر وہ بھی ان میں شامل ہوا۔اس دوران اچھہ بل میں تعینات پولیس اہلکاروں نے اسے نزدیک سے گولیاں داغ دیں جو اس کے سر میں لگیں اور وہ وہیں خون میں لت پت گر گیا۔لوگوں نے اس کو اسپتال پہنچایاجہاں ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دیدیا ۔شہید دانش کے والدمحمد ایوب کے مطابق وہ اپنے بچوں کی اچھی پڑھائی اور تعلیم و تربیت کے لیے بہت محنت کررہا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میرا بڑا بیٹا جو کہ پڑھائی میں اچھا تھا اور اپنے مستقبل کے لیے کافی فکر مند تھااس طرح ہمیں داغ مفارقت دیکر اس دنیائے فانی سے کوچ کرے گا۔
کمپیوٹر انجینئراور نجی کمپنی میں کام کر نے والا” 24سالہ معروف کرکٹرعامر بشیر خان“ اہل خانہ کا چہیتا تھا۔عامر کمپیوٹر انجینئر تھا۔ 9جوالائی کو ویری ناگ قصبہ میں مکمل ہڑتال تھی۔ چند نوجوان نزدیکی بس اڈے میں کر کٹ کھیلنے میں مشغول تھے اور عامر بشیر جو قصبے کا مایا ناز کرکٹر تصور کیا جاتا تھا،وہ بھی کھیل میں شامل تھا۔تقریباََدوگھنٹے کر کٹ کھیلنے کے بعد عامر ساڑھے گیارہ بجے واپس گھر پہنچا اور اپنے ذاتی لیپ ٹاپ پر کام کر نے بیٹھا۔چند منٹ کے بعد ہی وہ دوبارہ گھر سے باہر آیا اور نزدیکی مغل باغ میں اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے چلا گیا۔ اسی دوران ویری ناگ کے ملحقہ گاو¿ں سے ایک بڑا جلوس بر آمد ہوا، جلوس میں شامل لوگ اسلام اور آزادی کے حق میں نعرے لگا رہے تھے ۔اس دوران چند لڑکے باغ کے اندر داخل ہوئے اور ا±نہوں نے وہاں قائم سی آر پی ایف کیمپ پر پتھراو¿ کیا۔ کیمپ میں موجود سی آر پی ایف اہلکاروں نے براہ راست گولیاں چلائیں جن میں ایک گولی عامر کی چھاتی میں جالگی ،اگر چہ وہ لڑکھڑاتے ہوئے چند قدم چلا ،تاہم ا±سکی سانسیں ر±ک گئیںتھیں اور وہ دارفانی کو کوچ کر گیا۔عامر بشیر کے والد بشیر احمدکا کہنا ہے کہ میرے بڑھاپے کا سہارا ظالموں نے چھین لیا ،جوبیٹا باپ کے تابوت کو کندھا دیتا،آج اسی باپ کوبیٹے کے تابوت کوکندھا دینا پڑا ہے ،یہ قیامت ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔
سجاد احمد فرسٹ ائر کا طالب عالم تھا اورکم عمری کے باوجود گھرکا کفیل تھا۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 9 جولائی کو ایک پرامن جلوس وترسو سے شانگس کی طرف جا رہا تھا کہ اس پر پولیس نے اندھا دھند فائرنگ کی جس کے دوران ایک گولی سجاد احمد کے سینے میں بھی پیوست ہوئی اور خون میں لت پت ہوا ، اس کو اسپتال پہنچایا گیا تو ڈاکٹروں نے اس کو مردہ قرار دیدیا۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سجاد ایک نیک اور نرم طبیعت نوجوان تھا جو ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔ کشمیر یونیورسٹی میں ریاضی کے مضمون میں پوسٹ گریجویشن کرنے والے سجاد احمد کے برادر اصغر منظور احمد کا کہنا ہے ’میرا بھائی کھبی بھی اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند نہیں تھا بلکہ مجھے اچھی پوزیشن پر دیکھنا چاہتا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ جب میرا داخلہ کشمیر یونیورسٹی میں ہوا تو وہ پھولے نہیں سماتا تھا۔منظور احمد نے کہا کہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد قریب ہی کرایہ پر کمرہ لیا اور جب سجاد وہاں آتا تھا تو وہ میرا ہر کام کرتا تھا بلکہ کھانا پکانے کے علاوہ برتن بھی صاف کرتا تھا۔انہوں نے کہا کہ سجاد میرے لیے ایک دوست تھا اور وہ ہمارے والد کو ٹھیک ہوتا دیکھنا چاہتا تھا جیسے وہ چارسال قبل تھے، مگر سجاد کی موت نے ہمارے والد کے مرض میں مزید اضافہ کردیاجو متواتر علاج و معالجہ کے باوجود سو نہیں پا رہے ہیں اور گھنٹوں تک روتے رہتے ہیں بلکہ کئی بار انہوں نے بھاگ کر خود کشی کرنے کی بھی کوشش کی۔ بیمار شوہر کے بستر پر بیٹھی سجاد کی والدہ خاموش مجسمہ بنی اپنے لخت جگر کے چھن جانے کے غم میں آنسوبہا رہی ہے۔
حزب کمانڈر برہان وانی کی شہادت پر کولگام کے کولہ پورہ سرندو علاقے سے بھی ایک جلوس برآمد ہوا جس میں عینی شاہدین کے مطابق ہزاروں کے قریب لوگ شامل تھے جس میں زبیر بھی شامل تھا۔اہل خانہ کا کہنا ہے کہ یہ جلوس بو گنڈ اور نو پورہ سے گزر کر کیموہ کی جانب پیش قدمی کر رہا تھا لیکن کیموہ میں پولیس کیمپ کے نزدیک جلوس پرفائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں ایک گولی زبیر احمد کے سر میں پیوست ہوئی جو اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔زبیر کے والد عبدالرشید کا کہنا ہے کہ اگر چہ انکے لخت جگر کو پہلے کیموہ اور بعد میں اسلام آباد ہسپتال پہنچایا گیا تاہم کاتب تقدیر نے اس کی زندگی کے لیے17سال ہی لکھے تھے جو پورے ہو کر وہ خالق حقیقی سے جا ملا۔زبیر کے والدین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ’ ’جو داغ انکا لخت جگر انکے دل پر دیکر چلا گیا وہ داغ قبر میں ہی جاکر مٹ پائے گا“۔ زبیرتین بہنوں کا بھا ئی تھا جو زبیر کی جدائی میں خون کے آنسو رو رہی ہیں۔زبیر کا ایک اور بھائی بھی ہے جو اپنے برادر کے غم میں نڈھال ہے جبکہ زبیر کی بہنوں کی حالت نا قابل بیان ہے۔ والدین پر تو جیسے غم کا پہاڑ ٹوٹ چکا ہے اور انہیں یقین ہی نہیں ہوتا کہ زبیر اب ان میں موجود نہیں۔اپنے اہل خانہ کا لاڈلا اور ہنس مکھ زبیر ایک زندہ دل اور ہونہار طالب علم تھا جس نے میٹرک کے امتحان میں75فیصد نمبرات حاصل کئے تھے اور اب 11ہویں جماعت میں امتحان کے لیے کافی محنت کر رہا تھا۔زبیر اپنے دوستوں کے لیے بھی خاص تھا کیونکہ ان میں کئی ایک خصائل موجود تھے جن کو فراموش کرنا انکے دوستوں کے لیے آسان نہیں۔17سالہ طالب علم زبیرکا والد زمینداری کا کام کرتا ہے اور اسکی نیم مردہ والدہ گھریلو خاتون ہے۔جولائی اور اگست کے مہینوں میں لگے زخم آج بھی ہرے اور رستے ہو ئے نظر آتے ہیں۔ یہ کشمیر ہے جہاں اپنے حق کے لیے احتجاج جیسے تسلیم شدہ حق کے باوجود بھی معصومین کا قتلِ عام جاری ہے ۔دنیا تماشائی بنی ہو ئی ہے اس لیے کہ ”مفاد پرست تاجر ذہنیت کی حامل بین الاقوامی برادری“کو کشمیر میںاپنا خاص مفاد نظر نہیں آتا ہے ورنہ اس چنگیزیت پر انھیں خاموش نہیں بیٹھنا چاہیے تھا ۔
٭٭