میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسلام نے عورت کوایسے حقوق کبھی نہیں دیئے

اسلام نے عورت کوایسے حقوق کبھی نہیں دیئے

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۲ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

پوری دنیابے چاری عورت کے پیچھے ہاتھ دھوکرپڑی ہے ۔ہرطرف شورمچاہواہے کہ عورت کوآزادی دو،عورت کے حقوق کاتحفظ کرو۔عورت کی عظمت کومانو،وغیرہ وغیرہ۔ عورتوںکے عالمی دن کے موقع پراسلامی نظروفکررکھنے والے اوراسلام بے زارسبھی نے جوبھی گفتگوکی اس کاحاصل یہی تھاکہ عورت کوآزادی دی جائے اورعورت کی آزادی کاتحفظ کیاجائے۔فرق صرف اتناتھاکہ اسلام پسندساری بات کے آخر میں نچوڑیہ نکالتے تھے کہ عورت کوسب سے زیادہ حقوق اسلام نے دیے ہیں۔دراصل یہ بات کرکے اسلام پسندلبرل اور،خدابے زارلوگوںکویہ پیغام دیناچاہتے ہیںکہ لبرل جس دنیاکاخواب دیکھتے ہیںوہ تواصل میں مسلمان ہی دلاسکتے ہیں۔یامسلمان تولبرل سے زیادہ ترقی کے حامی ہیںاورلبرل سے زیادہ ترقی کوپسندکرتے ہیں۔مگرلبرل مسلمانوںکی دلیل کوکبھی نہیںمانتے اس کی چندعلمی وجوہات ہیں۔مثلاًلبرل جس چیزکوخیرسمجھتے ہیںمسلمان اس خیرکوخیرنہیںسمجھتے ۔لبرل عورت کوخاندان سے کاٹ کرایک فرد کے طورپرلیتے ہیں۔مگرمسلمان عورت کاجب ذکرکریں گے بیٹی ،بیوی،بہن ،ماں،کے رشتوںمیں رہ کرکریںگے مگرلبرل اورمغرب ہمیشہ عورت کوانفرادی حیثیت سے مخاطب کرے گا۔مسلمان اس بات کوخیرکے طورپرقبول کرتے ہیںکہ عورت کااصل مقصدتوخاندان کی فلاح وبہبود کے فرائض سرانجام دینے میں ہے ۔ مگر مغرب یہ عورت کی مرضی پرچھوڑتاہے کہ وہ چاہے توخاندان بنائے چاہے تونہ بنائے ۔مسلمان کسی عورت کے ایسے بچے کوکبھی قبل نہیں کریںگے جس کاباپ نکاح کے عمل کے بغیروجود میں آیاہو۔ مگرپورامغرب اوریورپ ایسے ناجائزبچے کومکمل حقوق دیتاہے اورایسی عورت کواتنی ہی عزت دیتا ہے جتنی کہ کوئی نیک عورت عزت کے قابل سمجھی جاتی ہے ۔یہ سب اس لیے ہے کیونکہ 17 ویںصدی کے بعدکے مغرب اوریورپ میںنیکی ،خیروشرکے پیمانے وہ نہیںجومسلمانوںکے پاس ہیں۔مغرب اوریورپ نے تو17ویں صدی تک آتے آتے مذہب کاقتل کردیااورفلسفی کانٹ نے کہا (نعوذباللہ) خدامرچکاہے ۔ 17 ویںصدی کے بعدکے مغرب میں مذہب ذاتی مسئلہ ہے اورریاست کامسئلہ صرف سرمائے کی بڑھوتری ہے ۔اگرسرمائے کی بڑھوتری مذہب کی مددسے ممکن ہے تومذہب سے مددلے لی جائے گی۔ مگرصرف ضرورت کی حدتک اگرسرمائے کی بڑھوتری بغیرمذہب کے ممکن ہے تومذہب کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی ۔ مثلاًپاکستان ایک اسلامی ملک ہے لہٰذایہاںسرمایہ دار رمضان میںداڑھی ٹوپی لگاکرمال بیچنے نکل پڑتے ہیں۔ رمضان میں Pepsi کے اشتہارمیںوسیم اکرم نہیںآتابلکہ ماں ایک معصوم ،فجرکے لیے بھاگتے بچے کو Pepsi کاگلاس تھامے دیکھتی نظرآئے گی اوریہ ماں بھی مکمل پردے میں ہوتی ہے ۔ اسی طرح Coca Colaکااشتہار©”ظالماںکوکاکولا پلادے “ نہیں ہوگابلکہ دیکھایاجائے گاکہ پورا خاندان افطار کا انتظارکررہاہے ۔اورایک گھرکے فرد کے لیے کوکاکولا نہیںبچا تو باپردہ ماں اپنے حصے کی کوکاکولا اپنے لال کوپیش کردیتی ہے ۔ اشتہارمیں سب بدمعاشوں نے ٹوپیاںپہنی ہونگی اور تمام بے ہودہ عورتوںنے دوپٹے اوراسکارف اوڑھے ہونگے ۔ سرمایہ دار اتنا ذلیل اوربدمعاش ہوتاہے کہ وہ آپ کی سوچ سے بھی آگے نکل کراپنی بے غیرتی کا ثبوت دیتاہے ۔ یہ گالیاں نہیںہیں۔ یہ جدیدسرمایہ دارانہ سوچ اورسرمائے کے محافظوںکے اصل القابات ہیں۔ یہ سمجھانے کی کوشش کررہاہوںکہ اس دنیامیںآج اصل خدا، اصل رسول صرف مال ڈبل کرناہے ۔ وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔
کیسا خداکیارسول ….پیسہ خدا پیسہ رسول
اس بیماردنیاکاخدااوررسول پیسہ بن چکاہے ۔یہ سرمایہ دارعورت کے حقوق کے محافظ نہیں ہیں، یہ دراصل عورت کے ذریعے اپنے مال کوگھرگھر پہنچاناچاہتے ہیں۔ عورت جب گھرکے اندررہتی ہے تواس کے گھرمیںکم سے کم مارکیٹ داخل ہوتی ہے ۔ اس کے گھرمیں بازار کی چیزیں کم سے کم آتی ہیں۔ اوریہ عورت صحت مند بھی ہوتی ہے ۔ اگرمیری بات کایقین نہیں توآپ کسی بھی دیہاتی عورت کاموازنہ شہرمیں نوکری کرنے والی عورت سے کرلیں۔ چھوڑیں۔ دورکیوں جائیں آپ گھروںمیں کام کرنے والی ماسیوںکی صحت کاموازنہ اسی گھرکی مالکن سے کرلیں۔ آپ کوسچ معلوم ہوجائے گا۔ مالکن گھرمیں فرش پرپوچہ لگاکرپسینہ نہیں نکالتی توپھرڈاکٹرکے کہنے پرورزش کے مرکزمیں ہزاروںروپے دے کرپیسہ بہاتی ہے ۔اوراس پرفخرکرتی ہے کہ میں ہیلتھ کلب جاتی ہوں۔ یہ گھروںمیں کام کرنے والی عورتیں اور دیہاتوںمیں کام کرنے والی عورتیں اپنے بچوں کوتمام مشقتیں کرکے بھی اپنا دودھ دیتی ہیں مگران کے مقابلے میں آسودہ حال اورپڑھی لکھی عورتیں اس عمل سے آزاد ہیں۔ میڈیکل کے مطابق بچے کی پیدائش سے قبل کام کرنے والی عورت کابچہ قدرتی عمل سے پیداہونے کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔( آپ اس بات کی مکمل تفصیل معلوم کرنے کے لیے کسی دائی یانیک ڈاکٹرے سے رجوع کرسکتے ہیں) آج عورتوںکاایک بہت بڑا مسئلہ بچے کانارمل بغیرآپریشن کے پیدا نہ ہونابھی ہے ۔مگرافسوس یہ کسی مذہبی جماعت کے لیے بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے جبکہ ان کی اپنی افرادی قوت میں عورتوں کاایک مناسب حصہ ہے ۔ میں نے اکثرلوگوںکو یہ کہتے سنا ہے کہ آخر وقت تک ڈاکٹر کہہ رہی تھی کہ بچہ نارمل ہے مگرآخری وقت میں بتایاکہ بچہ الٹا ہوگیا ہے اس لیے آپریشن ہوگا اوربے چارہ باپ دوستوں سے قرض مانگنے نکل پڑتاہے ۔ ماضی میں یہ تمام معاملات بڑے خاندان ہونے کی وجہ سے کبھی پیش نہیں آتے تھے گھر میں سات ،آٹھ عورتیں ہوتی تھیں وہ اس مسئلے کامعقول حل نکال لیتی تھیں مگر جب ہردوسراانسان ترقی کرنے کے لیے گھر سے نکلا تو خاندان ٹوٹ گئے اوراس کاسب سے زیادہ نقصان عورت کوہی ہوامگرا س مخلوق کواس بات کاادراک نہیں ہے ۔عورت کے حقوق پربات کرنے والے صرف عورت کوگھرسے نکال کرکارخانے ،دفاتر اوربازارمیں لاناچاہتے ہیں جب عورت گھرمیں نہیں رہے گی تووہ روٹی بھی بازار سے لائے گی اورجوکچھ کمائے گی وہ بازار کی اشیا میں لٹائے گی ۔ عورت صبح سویرے سب سے پہلے جاگ جاتی ہے ۔ سب کوناشتہ دیتی ہے ۔ گھرکی صفائی کرتی ہے ۔ بازارسے سبزی لاتی ہے ۔دوپہرکاکھاناتیار کرتی ہے ۔ کپڑے دھوتی ہے ۔ محلے کی عورتوںسے ملکی، علاقائی اورآخر میں خاندانی اورپھرمحلے کی سیاست پربات چیت کرتی ہے ۔ رات کوسب آپس میں مل کربیٹھتے ہیں ۔ ماں کامقام اس وقت سب سے بلند ہوتاہے ۔ گھرمیں رہنے والی عورتوں کومکمل تحفظ ملتا ہے کسی کی جرا¿ت نہیں جو اس کی طرف میلی نظر سے دیکھے۔ ہرگھر کے مرد اپنی ایک تاریخ رکھتے ہیں یہ تمام خدمات اورفرائض انسانی حقوق والوں کی نظر میں بے کار کام ہیں ۔ کیونکہ اس پورے عمل کے نتیجے میں عورت پرکوئی نہ کوئی محافظ ہوتاہے ۔ یہی بات مغرب اورانسانی حقوق والوںکوزہرلگتی ہے کیونکہ ایسے محافظوں کے ہوتے ہوئے عورت خود مختاریاآوارہ نہیں ہوسکتی ۔ لہٰذا جدید ریاست عورت کو بھائی ،باپ، شوہر کی حفاظت سے نکال کراکیلا کرناچاہتی ہے کیونکہ سرمایہ داروںکی آمدنی اسی عمل کے نتیجے میں ہے ۔ یہ عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والے دراصل سرمایہ داروں کے اصل محافظ ہیں ۔ یہ عورتوںکے حقوق کے نام پردراصل سرمائے کے بڑھنے کے عمل کوآگے بڑھانا چاہتے ہیں ۔ سب سے افسوس کے قابل بات مسلمانوں کا اس سارے مسئلے کوبغیرسمجھے عورتوں کے حقوق کی بات کرنا ہے کہ عورت کوسب سے زیادہ حقوق اسلام نے دیے، یہ جملہ پچھلے 70سالوں میں سننے کوکیوں ملا؟ اس سے پہلے کسی نے یہ جملہ کیوں نہیں ادا کیا۔کیونکہ اس سے پہلے عورتیں غلام اورمقبوضہ نہیں تھیں ۔یہ سوال ہی 19ویں صدی کے آغاز کاہے ۔ یہ بات تومغرب نے ہرعورت کے پاس جاجاکر بتائی ہے کہ تم غلام ہو،تم آزاد نہیں ہو۔ اس سے قبل دنیاکی تمام عورتیں آزاداورخودمختارتھیں مگرجدیدریاست نے آکر بتایا کہ خودمختاری کامطلب پیسے اپنے ہاتھ میںاوراپنی مرضی سے خرچ کرناہے ۔ یہ آزادی ایک دھوکے کا دوسرا نام ہے ۔ اورجولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے عورتوںکوسب سے زیادہ حقوق دیے ، وہ یہ بتائیں کہ اسلام میںکوئی نبی عورت کیوں نہیں آئی ؟اسلام میں کوئی فرشتہ عورت کیوں نہ تھی ؟ اسلام میں کسی جنگ میں عورت سپہ سالار کیوں نہ تھی؟حضورﷺنے کبھی کسی لشکرکوعورت کی سربراہی میں روانہ کیوںنہیں کیا؟ مسلمانوں کے چار خلفائے راشدین میں کسی عورت کویہ مقام کیوں نہ دیاگیا؟ اسلام میں کوئی سفیرعورت کیوں نہ تھی ؟ اسلام میں کوئی عورت وزیرکیوںنہ تھی؟ اسلام میں کوئی عورت امام کیوں نہیں ہے ؟ اسلام میں اذان عورت کیوں نہیں دے سکتی ؟ اسلام میں نماز کی امامت عورت کیوں نہیں کرواسکتی ؟ اسلام میں عورت طلاق کیوں نہیں دے سکتی ؟ اسلام میں عورت پرایک ہی وقت میں ایک ہی شوہر رکھنے کی پابندی کیوں ہے ؟ اسلام میں عورت کوطلاق کے بعدبھی دوسرے ہی روز دوسری شادی کرنے کی آزادی کیوں نہیں ہے ؟ اسلام میں عورت کوکپڑے اتارنے کی آزادی کیوں نہیں ہے جیسے مغرب میں ہے ۔ مجھے تواِن تمام سوالات کے جوابات معلوم ہیں کیونکہ مجھے اپنی تاریخ ،اپنی تہذیب ،اپنی روایت اوراپنے اسلاف پرفخر ہے مگروہ مسلمان جوکہتے ہیں کہ اسلام نے عورت کوسب سے زیادہ حقوق دیے ہیں، اگر مغرب ان سے یہ سوال کرے تووہ کیاجواب دیں گے ؟اس لیے حضورمغرب کامیدان الگ ہے ہ
م مسلمانوںکاالگ ہے ۔ غلط میدان میں اترکرنہ کھیلیں اپنے میدان پرفخر کریں اوراس میں رہ کر کھیلیں ۔آپ کے یہ کہنے سے کہ اسلام نے سب سے زیادہ عورتوںکوحقوق دیے ہیں مغرب کلمہ نہیں پڑھے گا بلکہ آپ جس کوحقوق کہتے ہیں مغرب اسے حقوق نہیں کہتا۔مغرب کی نظر میں آزاد عورت وہ ہے جواپنی مرضی سے جوچاہے کرسکے، اسے کوئی روکنے ٹوکنے والانہ ہو حتیٰ کہ اگرعورت اپنابچہ پھینک کرK-2چڑھنے کے لیے جاناچاہے تو مغرب اس کواجازت دیتاہے اوراس آوارہ عورت کا بچہ ایدھی کو پالنا چاہیے ۔ اس پرمغرب ایدھی کوخراج عقیدت پیش کرے گا کہ ایدھی والوںنے عورت کی آزادی میں مددفراہم کی ہے ۔یہ ہے اصل آزاد عورت۔ مغرب اس آزادی کی بات کرتاہے ۔ مگرمسلمان ایسی آزادی کبھی نہیں دینگے اوراسلام میں حقوق ہوتے ہی نہیں ہیں ۔حقوق توانسان کے ہوتے ہیں جبکہ اسلام میںانسان کی اصطلاح استعمال نہیں کی گئی بلکہ عبداللہ یاعبدالرسول کہاگیا۔اللہ کابندہ، اللہ کاغلام، رسول کاغلام۔ توغلام کے کیاحقوق ہوتے ہیں ؟اورمومن کے لیے دنیا ایک قیدخانہ اورمسافر خانہ ہے ۔اب کیاقیدی کے حقوق ہوتے ہیں ؟وہ اپنی مرضی کرسکتا ہے ؟اسلام میں فرائض اورذمہ داریاںہوتی ہیں۔کسی کی ذمہ داری سے کسی کے فرائض پورے ہوتے ہیں اورکسی کے فرائض سے کسی کوراحت اورسکون میسرآتاہے ۔اس لیے یہ بات سمجھیں کہ جن حقوق کی بات مغرب کے فلسفی کرتے ہیں اورجن کی علمبردار حقوق نسواںکی عالمی تنظیمیںہیں وہ آوارگی ہے مگروہ آوارگی کوحقوق کہتے ہیں اس لیے خداکے لیے سمجھ لیں کہ اسلام نے عورت کوآج جیسے حقوق کبھی نہیں دیے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں