سندھ میں سیاست کروٹ لے رہی ہے
شیئر کریں
احتساب عدالت میں نواز شریف اوراسحاق ڈار کی پیشیوں کے دوران نااہل قرار دئے گئے سابق وزیراعظم ان کی صاحبزادی اور دیگر رہنمائوں کی جانب سے سیاسی گرماگرمی پیدا کرنے کی کوششوں کے ساتھ ہی سندھ میں بھی سیاسی محاذ پر ابال آگیاہے، گزشتہ روز سندھ کے سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن کی جانب سے سندھ اسمبلی میں گرجنے برسنے کے واقعے اورسندھ اسمبلی میں اس حوالے سے نیب کی کارروائی کی مذمت کی قرار داد کی منظوری کے بعد گزشتہ روز وزیراعلیٰ سندھ نے بھی وفاقی حکومت کو اس کی اوقات یاددلانے کی کوشش کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح وفاقی حکومت سندھ کو اس کے جائز حقوق سے محروم رکھنے کی کوشش کررہی ہے،دوسری جانب شہر میں ایم کیو ایم اور پاک سرزمین پارٹی کے درمیان محاذ آرائی بھی عروج پر پہنچتی نظر آرہی ہے، ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈپٹی میئر کراچی کے ٹوٹ جانے کے بعد انتہائی پریشانی کے عالم میں نظر آتے ہیں اور اب وہ ہر قیمت پر اتوار کو ایم کیو ایم کے زیر اہتمام جلسے کو اپنی طاقت کامظاہرہ بنانے کی بھرپور کوششوں میں مصروف ہیں اوراس مقصد کیلیے طلبہ اور شہر کے دیگر طبقوں کوجلسے میں شمولیت پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ،اس صورت حال سے واضح ہوتاہے کہ کراچی سمیت پورے سندھ کی سیاست کروٹیں بدل رہی ہے اورجہاں سندھ کے شہروںمیں ایم کیو ایم کو کڑی آزمائش کاسامنا ہے وہیں اندرون سندھ حکمران پیپلز پارٹی کے خلاف بھی نئے محاذبنانے کی کوششیں بھی عروج پر ہیں تاہم اس محاذ میں شامل بیشتر جماعتیں انتخابی سیاست میں ناکام ہی رہی ہیں اسی اثنا میں عمران خان نے بھی سندھ میں کچھ جلسے کر ڈالے ہیں لیکن ان کی سیاست اپنے مخالفین کو چور ، ڈاکو ، لیٹرا کہنے تک محدود ہے جس کو اب کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔اس کا امکان بہت کم ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سندھ میں پیپلز پارٹی کوئی بڑا دھچکا پہنچانے میں کامیاب رہے گی۔ اس طرح مرکز میں حکمران مسلم لیگ ن کا معاملہ ہے کہ سندھ میں اس کے نقوش قدم بھی دھندلے دھندلے ہیں۔ میاں نواز شریف نے بطور وزیر اعظم سندھ پر وہ توجہ نہیں دی جو قدم جمانے کے لیے ضروری تھی۔بس کبھی کبھار کراچی کا چکر لگالیا اور ہر بار یہ اعتراف کیا کہ انہیں زیادہ توجہ دینی چاہیے تھی۔ ایسا لگا کہ غیر تحریر ی طور پر یہ طے ہو گیا تھا کہ سندھ پیپلز پارٹی کا اور مرکز و پنجاب ن لیگ کا۔ دوسری طرف سندھ کا دار الحکومت کراچی ایک عرصے تک ایم کیو ایم کے قبضے میں رہا اور پیپلز پارٹی و ن لیگ نے بھی اس کو ایک حقیقت جان کر تسلیم کرلیا اور قومی جماعتیں پیچھے ہٹ گئیں۔ پیپلز پارٹی نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی ایم کیو ایم کو سینے سے لگائے رکھا۔ آصف علی زرداری نے نائن زیرو پر حاضری دی حالانکہ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے خیالات22اگست 2016سے پہلے بھی چھپے ہوئے نہیں تھے۔2014میں الطاف حسین نے دہلی میں جو خطاب کیاتھا اور پاکستان کے خلاف جو ہرزہ سرائی کی تھی وہ سب کے علم میں تھیں۔ لیکن ان کو ایک آمر جنرل پرویز مشرف کی بھر پور حمایت اور پشت پناہی حاصل تھی جن کا خیال تھا کہ ایم کیو ایم ایک عوامی طاقت ہے جو ان کے ساتھ ہے۔22اگست2016کو الطاف حسین اگر کھل کر اپنی غداری کا اعلان نہ کرتے تو سارے معاملات جوں کے توں چلتے رہتے۔ جب معاملات ہاتھ سے نکلنے لگے تو فاروق ستار نے بھی الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کیا مگر پورے احترام کے ساتھ۔ اسی اثنا میں ایم کیو ایم کی تقسیم در تقسیم کا کھیل بھی شروع ہوگیا۔ پہلے ایجنسیوں نے ایم کیو ایم حقیقی یا آفاق گروپ کی تشکیل کی تھی اور رینجرز کی گاڑیوں میں لاکر حقیقی کو ایم کیو ایم کے دفاتر پر قبضہ کرایاگیاتھا۔ لیکن ایجنسیوں کی بھر پور پشت پناہی کے باجود آفاق گروپ لنگڑا گھوڑ اثابت ہوا اور ایجنسیوں کی توقعات پوری نہ ہوسکیں۔ اب پاکستان سرزمین پارٹی کا تجربہ کیاگیا ہے، ایم کیو ایم پاکستان کے ارکان اسمبلی ٹوٹے ہوئے تاروں کی طرح مصطفی کمال کی جھولی میں گررہے ہیں اور اب بلدیہ کراچی کے ڈپٹی میئر ارشد وہرہ بھی پی ایس پی کو پیارے ہوگئے۔ ماہرین سیاست کو تجزیہ کرنے کے لیے ایک بہترین موضوع مل سکتا ہے کہ ایم کیو ایم حقیقی کیوں ناکام رہی اور پی ایس پی اب تک کیوں کامیاب جارہی ہے۔ دونوں ہی کی پشت پر مقتدر قوتیں تھیں۔ مصطفیٰ کمال الطاف حسین کے تمام جرائم میں پوری طرح شریک تھے اور شہری یہ برملا کہتے نظر آتے ہیں کہ مصطفی کمال شہر میںاس دور میں تعمیر ہونے والے فلائی اوورز اور سڑکوں کی تعمیر کے حوالے سے حاصل ہونے والی کک بیکس کی رقم مبینہ طورپر الطاف حسین کو لندن منتقل کرتے رہے تھے ،لیکن اب وہ الطاف حسین کو منہ بھر بھر کر گالیاں دیں مگر اس وقت جب الطاف کے جبر کا پھندا ٹوٹ چکا تھا۔ اسی طرح کراچی کے میئر وسیم اختر بھی خود کو الطاف کے جرائم سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے،حالات بتاتے ہیں کہ وہ نہ صرف الطاف حسین کے مظالم اورجبر میںشریک رہے ہیں بلکہ ان کے احکامات کا نفاذ بھی کراتے رہے ہیں۔ اس کے صلے میں انہیں سندھ کا مشیر داخلہ بنایاگیا اور 12مئی 2007 کو ہونے والقتل عام میں اپنے کردار کو وہ چھپا نہیں سکتے، عوام جانتے ہیں کہ کس طرح 12 مئی کو ایک میڈیا ہائوس کو غنڈوں نے گھیر رکھاتھا اور اس وقت کے مشیر داخلہ پولیس کو دفتر میں یرغمال بنے ہوئے صحافیوں اور عملے کے ارکان کو بچانے کے لیے جائے وقوعہ پر پہنچنے سے مبینہ طورپر روکتے رہے اوردلاسا دیتے رہے کہ پولیس پہنچنے والی ہے ۔ اب وہ بھی معصوم بن رہے ہیں۔اب صورتحال یہ ہے کہ بلدیہ کراچی بے سروں کی فوج بن گئی ہے جس کا اندازہ گزشتہ منگل کوسٹی کونسل کا اجلاس افراتفری کی نذر ہوکرصرف 5منٹ میں نمٹ گیا۔ میئر کراچی چور ہے کے نعرے اور بینر لگ گئے لیکن فاروق ستار اسے ایم کیو ایم پاکستان کی کامیابی قراردیتے ہیں۔ وسیم اختر نے مزے کی بات کی ہے کہ پی ایس پی فکس ڈیپازٹ اکاؤنٹ ہے اور جب ضرورت پڑی وہاں جانے والوں کو مع سود واپس لے آئیں گے۔
اس صورت حال سے بظاہر یہی معلوم ہوتاہے کہ اگلے عام انتخابات کے نتائج میں صوبے کے بڑے شہروں کی حد تک تو کسی حد تک کچھ تبدیلی متوقع ہے لیکن مجموعی طورپر صورتحال میں کی بڑی تبدیلی کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی۔اس صورت حال کا تقاضہ ہے کہ قومی سیاسی جماعت ہونے کادعویٰ کرنے والی سیاسی پارٹیوں کے رہنما سندھ اور خاص طورپر سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ اب تک برتی جانے والی بے رخی کارویہ تبدیل کریں اوراس صوبے کے لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے متعصبانہ رویہ ترک کرکے حقیقی معنوں میں خود کو اس صوبے کے عوام کو دوست اور ہمدر د ثابت کرنے کی کوشش کریں۔