مائنس نواز فارمولہ کس نے پیش کیا؟۔
شیئر کریں
لندن میں جمع مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے میاں نوازشریف کی زیرصدارت اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیاہے کہ مائنس نواز فارمولا کسی صورت قبول نہیں کیاجائے گا ،تاہم اجلاس میں کسی نے بھی اس بات کی نشاندہی نہیں کی کہ مائنس نواز فارمولہ کس نے پیش کیا،اور اس بات کاخطرہ کیسے پیدا ہوا کہ کوئی مائنس نواز فارمولہ سامنے آسکتاہے۔اس اجلاس میں اطلاعات کے مطابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اور وزیر خارجہ خواجہ آصف سمیت دیگر اہم پارٹی رہنما شریک ہوئے۔اجلاس کے دوران وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت پارٹی قیادت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے صاف اور دو ٹوک انداز میں کہا کہ مائنس نواز شریف فارمولا کسی صورت بھی قبول نہیں ہوگا۔مسلم لیگ ن کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے مسلم لیگ ن کی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ چاہے کسی بھی حد تک جانا پڑے مائنس نواز فارمولے کی مزاحمت کی جائے گی اور اسے نہیں مانا جائے گا،اس سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، شہباز شریف، اور مریم نواز کی جانب سے بار بار وضاحت کے باوجود کہ مسلم لیگ ن میں اندرونی کشمکش جاری ہے اور پارٹی کا ایک مضبوط حلقہ پارٹی کو متحد اور منظم رکھنے کے لیے مائنس نواز شریف فارمولے پر بضد ہے۔اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ آئین پاکستان سے متصادم کوئی اقدام قبول نہیں کیا جائے گا اورمسلم لیگ نون کی قیادت کسی بھی مرحلے پر ایسے کسی اقدام کی حمایت نہیں کرے گی،اگلے انتخابات کے لیے مسلم لیگ نون کے پوسٹر پر صرف نواز شریف کی تصویر ہوگی۔اجلاس میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بتایا کہ مسلم لیگ نون کا کارکن نواز شریف کے علاوہ کسی کو اپنا رہنما قبول کرنے کو تیار نہیں ۔اجلاس کے بعد صحافیوں کے تابڑ توڑ سوالوں پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے جب کوئی جواب بن نہ پڑا تو انھوں نے الٹا صحافیوں پر ہی سوال داغ دیا کہ کون نون لیگ کو توڑ رہا ہے،کون شہباز شریف کو صدر بنارہا ہے ؟ادھرنااہل قرار دیئے گئے نواز شریف نے میڈیا سے مختصر گفتگو میں ایک دفعہ پھر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عدم اعتماد کااظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اگر شفاف ٹرائل ہوتا تو پاناما کے بجائے اقامے پر نااہلی نہ ہوتی ،انھوں نے دعویٰ کیا کہ کچھ بھی شفاف نہیں ہورہا ہے ،تاہم انھوں نے بھی اس بات پر زور دیا کہ پارٹی میں کوئی تقسیم نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مائنس نوازفارمولا ہے،یہ کہتے ہوئے انھوں نے خود اپنی ٹیلنٹیڈ بیٹی کاوہ بیان نظر اندا ز کردیا جس میں انھوں نے کہاتھا کہ اگراہل خانہ کی خواہش ہوئی تو وہ اگلی مرتبہ وزیراعظم کاعہدہ سنبھالنے کیلیے الیکشن لڑنے کوتیار ہیں ۔نوا ز شریف نے یہ بھی کہاکہ وہ احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے2 نومبر کو پاکستان جارہے ہیں ، اور وہ جمعرات کو وطن واپس پہنچ جائیں گے،نواز شریف، ان کی صاحب زادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کو احتساب عدالت نے نیب ریفرنس میں 3 نومبر کو طلب کر رکھا ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا کہ نواز شریف کا آزادانہ اور شفاف ٹرائل کا مطالبہ جائز ہے، نواز شریف پارٹی صدر ہیں ، انہی کی مشاورت اور رہنمائی میں پارٹی الیکشن میں جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اور میاں نوازشریف کے درمیان ملاقات میں نیب ریفرنسز سمیت دیگر امور پر بات چیت کی گئی۔نوازشریف سے ملاقات کے لیے پہنچنے پر میڈیا نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی حیثیت نہیں آیا اور یہ کوئی سرکاری دورہ بھی نہیں ، نجی دورے پر آیا ہوں ۔ اس سے قبل لندن پہنچنے پر ہیتھرو ایئرپورٹ پر میڈیا نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ان کے پاس قبل از وقت انتخابات کی کوئی تجویز نہیں آئی جب کہ ٹیکنوکریٹ حکومت سے متعلق کوئی چیز آئین میں نہیں دیکھی۔انہوں نے کہا کہ ملک اور حکومت چل رہے ہیں ، کونسپریسی تھیوری پر یقین نہیں کرتا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کوئی ٹکراؤ نہیں ، امریکیوں کے سامنے سب ایک ساتھ بیٹھے تھے، سب مل کر یکجہتی سے کام کررہے ہیں ۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما چوہدری نثار نے بھی ایک بیان میں اس بات کااعتراف کیا کہ اس وقت (ن) لیگ میں ذاتیات پر توجہ دی جا رہی ہے،انھوں نے کہا کہ ذاتیات پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے اگرپارٹی کا مفاد دیکھا جائے تو اس سے ذاتیات اور پارٹی دونوں کو فائدہ ہوگا۔ اس طرح چوہدری نثار بالواسطہ طورپر مسلم لیگ ن میں قیادت کے سوال پر اختلافات کی تصدیق کرتے ہوئے عام مسلم لیگی رہنماؤں میں پائی جانے والی بے چینی اور سارا زور صرف نواز شریف کو پارٹی کے سربراہ کے طورپر برقرار رکھنے پر لگائے جانے سے پارٹی کو پہنچنے والے نقصان کی نشاندہی بھی کردی ہے ، اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ سیکورٹی کے حوالے سے ملکی حالات ٹھیک نہیں ، پاکستان کودرپیش خطرات ہمہ جہتی ہیں ، ان میں اضافہ ہوگیا ہے، ملک کو 1970 کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرات لاحق ہیں تاہم خطرات کا مقابلہ اتحاد اور اندرونی استحکام سے کیا جا سکتا ہے۔چوہدری نثار نے کہا کہ یہ مارشل لاکی حکومت نہیں ہے، ہمیں ریلیف عدالتوں سے ہی مل سکتا ہے، اس لیے ہمیں عدالت سے محاذ آرائی نہیں کرنی چاہیے، میں ان لوگوں میں تھا جنہوں نے نواز شریف کو عدالت جانے کامشورہ دیاتھا اور وزیراعظم کے خطاب کی مخالفت کی تھی، انھوں نے کہا کہ عدالت کے فیصلوں پر اعتراض کیا جاسکتا ہے۔ تاہم عدلیہ یا ملک کے کسی بھی دوسرے ادارے سے بھی محاذ آرائی نہیں کرنا چاہیے، جبکہ مجھے محاذ آرائی کے آثار نظر آرہے تھے اسی لیے میں حکومت میں شامل نہیں ہوا۔انہوں نے کہ مسلم لیگ (ن) اور پارٹی قیادت کو گومگوکی کیفیت سے نکلنا ہوگا، ہم الیکشن کی طرف جا رہے ہیں ، باقی جماعتوں نے انتخابی مہم شروع کررکھی ہے اس لیے ہمیں اس کیفیت سے نکلنا ہوگا۔چوہدری نثار نے کہا کہ اس وقت (ن) لیگ میں ذاتیات پر توجہ دی جا رہی ہے، اگرپارٹی کا مفاد دیکھا جائے تو ذاتیات کو بھی فائدہ ہوگا اور پارٹی کو بھی، پارٹی میں تقسیم نہیں اختلاف رائے ہے، خدانخواستہ مسلم لیگ کوکوئی نقصان پہنچا تو بہت بڑا سیاسی خلا پیدا ہوجائے گا۔سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ فوج کے ساتھ محاذ آرائی تھی ہی نہیں ، وہ پیداہوگئی، یہ محاذ آرائی جے آئی ٹی کی وجہ سے پیدا ہوئی، میرا مؤقف تھا کہ فوج سے مل کر جے آئی ٹی سے متعلق تحفظات دور کرلیں ۔
لندن میں مسلم لیگ ن کے فیصلوں کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں سے یہ واضح ہوتاہے کہ نواز شریف کسی بھی صورت پارٹی کی قیادت کسی اور کو یہاں تک کہ اپنے وفادار اورتابعدار بھائی کو بھی دینے کوتیار نہیں ہیں ، اوران کی یہی ضد ہے جس کی وجہ سے اس وقت مسلم لیگ ن کو مشکلات کاسامناہے اوراپنی ذات یا پارٹی میں سے کسی ایک کوبچانے کا فیصلہ نواز شریف کےلیے ا یک کڑ ا امتحان بن گیا ہے ، موجودہ صورت حال میں دانش مندی کاتقاضہ یہی ہے کہ نواز شریف اپنی ذاتیات سے باہر نکل کر حقائق کاسامنا کرنے کی کوشش کریں اور اپنے اردگرد گھیرا ڈالنے والے ابن الوقت اور بقول شہباز شریف کے نئی گاڑیوں اور عہدوں کے متمنی برساتی رہنماؤں کے نرغے سے باہر نکل کرچوہدری نثار جیسے مخلص رہنماؤں کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے محاذ آرائی کی سیاست سے گریز کرتے ہوئے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے پر غور پر توجہ دینی چاہئے ،کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جس پرعمل کے ذریعے وہ اپنی ذات کو بھی فائدہ پہنچاسکتے ہیں اور پارٹی کو بھی ممکنہ ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ،الیکشن میں انتخابی بینرز پر صرف نواز شریف کی تصویر لگانے جیسی بچکانہ تجاویز دینے والے نواز شریف کو وقتی طورپر تو خوش کرسکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی کو یا خود ان کو کوئی فائدہ ہونے کاکوئی امکان نہیں ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ طویل عرصے تک حکمرانی اور بار بار دھکے دے کر اقتدار سے بیدخل کیے جانے والے نواز شریف اپنے سابقہ تلخ تجربات سے سبق حاصل کرنے اور زمینی حقائق کے مطابق فیصلے کرنے پر توجہ دیں گے،اور اس طرح ملک میں جاری گومگو اور کشمکش کی سیاست کاخاتمہ کریں گے۔